یومِ آزادی اور تجدید عہد!
وطنِ عزیز کے باشندو! یوم آزادی مبارک! آؤ مل کر عہد کریں کہ پاکستان کو ہر برائی سے پاک کریں گے۔ اس کے نام کی لاج رکھ لو، یہ پاک سرزمین ہے اور اس کے قیام کے وقت ہر شخص کا نعرہ تھا ”پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ!“ پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے پیش فرمایا۔ اس خواب کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز اور کرشمہ ساز قیادت میں ممکن ہوئی۔ پاکستان کی اساس دو قومی نظریہ ہے۔ اس نظریے کو مکمل استدلال کے ساتھ سید مودودی نے اپنی تحریروں میں واضح کیا۔ اگر قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے تصورات کے مطابق یہ وطن تعمیر کیا جاتا تو نہ تو یہ دولخت ہوتا اور نہ ہی آج بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتیں۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے 1973ء میں ایک متفقہ دستور مل گیا۔
اس دستور کے بننے سے پہلے ایوب خان اور یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لا لگایااس کے بعد بھی دو مرتبہ ملک میں مارشل لا لگا، دو جرنیلوں ضیا الحق اور پرویز مشرف نے دستور کو توڑا، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ دستور ان صدموں کو برداشت کرگیا اور اب تک موجود ہے۔ اس دستور کے خلاف سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس وقت تو بالخصوص دستور کی دو اہم دفعات 62 اور 63 مفاد پرست اشرافیہ اور ان کے حواریوں کو بری طرح کھَلتی ہیں اور وہ امانت ودیانت اور سچائی وصداقت کے اصولوں پر مشتمل دفعات کو دستور سے خارج کرنے کے متمنی ہیں۔ ان دفعات کا دستور سے اخراج ایک عظیم قومی المیے سے کم نہیں ہوگا۔ پوری قوم کے تمام باشعور طبقوں کی ذمہ داری ہے کہ ان سازشوں کو ناکام بنائیں۔ ان دفعات پر عمل نہیں ہو رہا۔ یہ قومی المیہ ہے۔ اگر ان پر عمل درآمد ہو جائے تو ملک سے کرپشن اور لوٹ مار کا خاتمہ ممکن ہو جائے۔
ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمارے خلاف پوری طرح اپنی خباثت اور جارحیت کا ارتکاب کررہا ہے۔ ملک کے اندر بھی افراتفری کا عالم ہے۔ سیاسی جماعتیں سیاست کی بجائے باہمی دشمنی اور گالم گلوچ میں مصروف ہیں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے یہ سیاست دان ملک کو کب امن اور خوشحالی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ ملک کے کئی علاقے سخت بدامنی اور بے اطمینانی کا شکار ہیں۔ ان سیاست دانوں کے ہاتھوں تو ہماری قومی سلامتی بھی محفوظ نہیں۔ خدانخواستہ اس دستور کو کچھ ہوا تو پھر کوئی متفقہ دستاویز بنانا ناممکن ہوجائے گا۔ تمام سیاسی جماعتیں اس دستور کی وفاداری کا دم بھرتی ہیں مگر سوال تو عمل کا ہے۔ اس دستور میں طے کیے گئے امور پر عمل درآمد شروع ہوجائے تو بہت سی مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔ نئی وجود میں آنے والی ہر حکومت مدینہ کی اسلامی ریاست کو اپنا آئیڈیل قرار دیتی ہے مگر منافقت کا یہ عالم ہے کہ دعوے کچھ ہوتے ہیں اور عمل بالکل اس کے متضاد۔ اگر یہ لوگ اس راستے پر اخلاص کے ساتھ چلیں توانھیں تعاون بھی ملے گا اور ملک و قوم کی قسمت بھی بدل جائے گی۔ افسوس ہے کہ ان سب حکمرانوں نے وعدوں کی خلاف ورزی کی تو پھر ظاہر ہے کہ تاریخ کا فیصلہ بڑا بے لاگ اور بے رحم ہوتا ہے جو آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
دستور پاکستان قرآن وسنت کو بالادست قانون قرار دیتا ہے۔ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا اقرار کرتا ہے۔ قومی زبان اردو کو قرار دیتاہے اور اس کی تنفیذ کا لائحہئ عمل دیتا ہے۔ سود کو ختم کرنے کا باقاعدہ ایک فریم ورک اس میں موجود ہے۔ وہ مدت جس کے اندر اندر سود ختم کرنا تھا وہ بھی گزر چکی ہے، مگر آج تک ہم سود کی لعنت سے چھٹکارا نہ پاسکے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس متفقہ آئین کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک متفقہ موقف پر اکٹھے ہوجانا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر یہ قومی سوچ پروان چڑھ جائے تو یومِ پاکستان منانے کا لطف بھی دوبالا ہوجائے۔ اسی کے نتیجے میں اندرونی وبیرونی تمام فتنوں کا سدباب ہوسکتا ہے اور پاکستان ایک ناقابل شکست ملک کے طو رپر دنیا میں سرخرو وسربلند ہوسکتا ہے۔ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا بہت بڑا اور تاریخی کارنامہ ہے، مگر محض ایٹمی قوت بن جانے سے بات نہیں بنتی۔ قومیں اپنے اساسی نظریات کی حفاظت کرکے عزت و احترام پاتی ہیں۔ ”ہم ایک زندہ قوم ہیں“ کا ترانہ بڑا ایمان افروز ہے، مگر ہمیں زندہ قوم بننے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ روایتی انداز میں یوم پاکستان منانے کی بجائے آئیے عہد کریں کہ ہم ایک زندہ قوم بن کر دکھائیں گے۔ اس کے لیے قرآن وسنت اور دستور پاکستان ہی ہمارے درمیان نقطہئ اتحاد بن سکتا ہے۔
حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے اپنی آنکھوں سے پاکستان دیکھا تو نہیں تھا، مگر انہیں پاکستان بننے کا یقین تھا۔ وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے، اس کا اظہار ان کی تحریروں (نثر اور نظم) میں جا بجا ملتا ہے۔ ہمارے لیے اسوہئ حسنہ سرورِ عالم ؐکی ذات بابرکات ہے۔ اقبال کے الفاظ میں
بمصطفٰےؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است!
علامہ نے اشارہ فرمایا: ”اسلام کے لیے سوشل ڈیموکریسی کی کسی موزوں شکل میں ترویج، جب کہ اسے شریعت کی تائید و موافقت حاصل ہو، حقیقت میں کوئی انقلاب یا نئی بات نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔
”اسلام کوئی کلیسائی نظام نہیں ہے یہ تو ایک ایسی ریاست ہے جو تصور اجتماعیت سے ہویدا ہوئی ہے ……اسلامی ریاست کاانحصار اخلاق کے تار و پود پر استوار ہوتا ہے،جو انسان کو انسان مانتا ہے،نہ کہ ایک مخلوق جو زمین سے نکل پڑی ہو، مثل شجر و حجر اور اس زمین یا زمین کے قطعے سے اسے نسبت دی جاتی ہو بلکہ وہ تو انسان کو ایک روحانی ہستی گردانتا ہے، جو ایک اجتماعی ہیئت میں ایک فعال عنصر کی شکل میں فرائض اور حقوق دونوں کاحامل ہوتاہے۔ (خطبہ الٰہ آباد1930ء)”اسلام کانصب العین اس کے معاشرتی نظام سے الگ نہیں۔ یہ خود اس کاپیداکردہ ہے، اور حیاتیاتی طور پر اس سے پیوست ہے۔“(خطبہ صدارت اجلاس مسلم لیگ الٰہ آباد،1930ء)
نام نہاد دانش ور دین اور سیاست میں یکسانیت کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے دلائل انتہائی بودے اور کمزور ہیں مگر بدقسمتی سے میڈیا پر ایسے لوگوں کا تسلط ہے۔ اقبال کوئی مولوی نہیں تھے، جدید تعلیم یافتہ اور مغرب کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ فرماتے ہیں: ”اسلامی نظام حکومت نہ جمہوریت ہے، نہ ملوکیت، نہ ارسٹاکر یسی ہے، نہ تھیا کریسی بلکہ ایک ایسا مرکب ہے جو ان تمام کے محاسن سے متصف اور قبائح سے منزہ ہے۔“ (ملفوظات اقبال)
آپ نے فرمایا:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی!
(بال جبریل ص:332)
بال جبریل ہی میں فرمایا:
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری
(ص:261)
فارسی میں آپ کا ایمان افروز شعر ملاحظہ فرمائیں
کس نہ گردد درجہاں محتاجِ کس
نکتہئ شرعِ مبیں این است و بس
ترجمہ: ”اسلامی شریعت کا بنیادی نکتہئ ہی یہ ہے کہ پوری دنیا میں کوئی فرد کسی دوسرے فرد یا قوت کا محتاج نہ رہے۔“
دو قومی نظریے کے زبردست مؤید اور شارح سید مودودیؒ کی ایک تحریر ان دونوں عظیم رہنماؤں کے حوالے سے بہت فکرانگیز ہے۔ فرماتے ہیں: ”علامہ اقبال اور قائداعظم آپ کو اسلام کی بنیاد پر ایک وطن دے کر گئے ہیں۔ اقبال نے آپ کو فکر اور نظریہ دیا، اور قائداعظم کی قیادت میں آپ کو یہ وطن حاصل ہوا۔ اس وطن کی انوکھی شان یہ ہے کہ اس کا نظریہ پہلے وجود میں آیا اور ملک بعد میں بنا۔ اگر اس ملک کے بنیادی نظریے کو یا دوسرے لفظوں میں اس کی نظریاتی بنیاد کو ہٹا دیا جائے تو یہ ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ آج اس ملک کی نظریاتی بنیاد پر مختلف اطراف سے حملے کیے جارہے ہیں، لیکن کیا آپ اس چیز کو جو اتنی محنتوں اور عظیم قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہوئی، یونہی اپنی غفلت اور کوتاہ ہمتی سے ضائع کر دیں گے؟
میں کہتا ہوں اگر آپ نے اس کو کھو دیا، تو تاریخ انسانی یہ بات ثابت کر دے گی کہ یہ ایک بے وقوف قوم تھی جس نے لاکھوں جانوں، ان گنت عصمتوں اور کروڑوں اور اربوں روپوں کی جائیدادیں قربان کر کے ایک وطن حاصل کیا، مگر اس نعمت خداوندی کو کھو بھی دیا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو تاریخ میں آپ کا مقام ایک بے وقوف اور ایک احمق قوم کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا (بشرطیکہ آپ کی تاریخ کو باقی رہنے دیا گیا!) (تفہیمات، جلد پنجم، طبع دوم 1996، ص57)