بیزاری ایسی علامت ہے جس کے ذریعے ”زندہ لاشوں“ کو بآسانی شناخت کیا جا سکتا ہے،آپ کو بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے جو ”مردہ“ ہیں
مصنف:ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:178
اور پھر کل، جب آپ اپنی گاڑی میں آرام دہ شاہراہوں پر سفر کریں گے، بسوں میں سوار ہو کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوں گے، سڑکوں اور گلیوں میں مٹر گشت کریں گے، اپنے دفتروں میں جائیں گے، ہوائی جہازوں پر پرواز کریں گے تو آپ کو بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے جو ”مردہ“ ہیں، وہ لوگ آپ کو دکھائی دیں گے، جن کی زندگی میں اُکتاہٹ اور بیزاریت سرایت کر چکی ہے، ذہنی اور روحانی طور پر منتشر ہوچکے ہیں، کسی بھی قسم کے مقاصد سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان کے پاس اپنے زندہ رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس لیے ان کا شمار ”مردوں“ میں ہوتا ہے کیوں کہ ان کی زندگیوں میں سے ذہنی و روحانی رمق و مہک ختم ہوچکی ہے۔
ان زندہ لاشوں میں ہرعمر، ہر پیشے، چھوٹے، بڑے شہر سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں یہ لوگ دولت، ذمہ داری اور منصب کے لحاظ سے بھی اعلیٰ حیثیت کے مالک ہیں۔
ان ”زندہ لاشوں کی شناخت مندرجہ ذیل علامات کے ذریعے کی جاسکتی ہے:
1:اُکتاہٹ/بیزاری:یہ ”زندہ لاشیں“ اپنے دوستوں، اپنے پیشے، اپنے ماحول، اور اپنے فالتو وقت کو صرف کرنے کے حوالے سے بیزاری اور اُکتاہٹ محسوس کرتی ہیں، وہ اپنی زندگی سے غیر معمولی طور پر بوریت اور پژمردگی محسوس کرتی ہیں۔
2: احساس جرم /شرمندگی:یہ ”زندہ لاشیں“ اپنے ہر کام، خواہ و ہ کرچکی ہوں، خواہ ابھی انہوں نے اس کام کے کرنے کے متعلق سوچا بھی نہ ہو، کے حوالے سے جرم اور شرمندگی کے انتہائی احساس میں مبتلا ہوتی ہیں۔ ان کا یہ احساس جرم، شرمندگی، ان کے مختلف رویوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس احساس کے تحت وہ اپنے بچوں، والدین اور دوستوں سے تغافل اور غفلت کے مرتکب ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ، دھوکہ اور فریب دہی، برائیوں کی دیگر اقسام اور دوسرے لوگوں کی زندگی ضائع کرنے پر مبنی رویہ، ان کے اسی احساس جرم /شرمندگی کا عکاس ہے۔
3:”کاش“ یعنی تشنہ خواہش کا اظہار:یہ ”زندہ لاشیں“ اپنی ناکامیوں اور تشنہ خواہشات کے ضمن میں ”کاش“ کے چکر میں گرفتار رہتے ہیں۔ کاش میں دولت مند ہوتا ”کاش میں زیادہ پڑھا لکھا ہوتا“ ”کاش میرا اپنا کاروبار ہوتا“ جیسے الفاظ پر ہروقت ان کے ہونٹوں پر موجود رہتے ہیں۔ وہ اپنے حالات میں بہتری پر مبنی تبدیلی کو بھی قبول نہیں کرتے اور نہ کوئی ایسی کوشش کرنے پر تیار نہیں ہوتے، وہ اپنے مستقبل سے بالکل ہی مایوس ہوتے ہیں۔
4:منفی اور تخریبی ذہنیت:یہ ”زندہ لاشیں“ ذہنی طور پر منفی اور تخریبی رویے کے مالک ہوتی ہیں، وہ ہر قسم کی منفی، تخریبی اور بری خبروں سے دلچسپی رکھتی ہیں۔ جنگ، آبروریزی، قتل اور ڈکیتی جسے واقعات ان کے لیے خوشی و مسرت کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ زندہ لاشیں بری بری خبریں تراشتے اور سننے کے بے حد شائق ہوتی ہیں تاکہ وہ دوسرے لوگوں اور اپنے آپ کو یہ باور کرا سکیں کہ دنیا خوفناک حالات میں گرفتار ہے۔
زندگی کی طرف واپس آنے سے مراد یہ ہے کہ اپنی اُکتاہٹ اور بیزاری کو ختم کرکے رونق افروز زندگی کا آغاز کیا جائے:
بیزاری اُکتاہٹ، ایک ایسی علامت ہے جس کے ذریعے ”زندہ لاشوں“ کو بآسانی شناخت کیا جا سکتا ہے۔ آپ کے واقف کار لوگ جو ایک تھکی ماندی، بیزار کن، فضول اور یک رنگی زندگی بسر کر رہے ہیں، ان ”زندہ لاشوں“ میں شامل ہیں۔ صبح بیدار ہونے اور زندگی کی رنگینیوں میں شامل ہونے کے لیے ان کے پاس کسی قسم کی کوئی منطق، استدلال یا وجہ موجود نہیں ہے، مزید براں، اگر وہ انتہا ئی طور پر بیزاری اور اُکتاہٹ میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر بھی ان کی یہ کیفیت کسی استدلال یاسبب کی محتاج نہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔