کوئی پرسان حال نہ تھا،اکثر مہاجرلاہور پہلی بار آئے اس ہجرت نے ککھ پتیوں کو لکھ پتی اور لکھ پتی کو ککھ پتی بھی بنا دیا، خواتین کی بے حرمتی کی شکایات بھی ملیں
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:17
میں نے انکل سے والٹن کیمپ کے بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا؛”بیٹا! میری ڈیوٹی ریلوے سٹیشن اور بادامی باغ بس سٹینڈ پر تھی کہ جہاں بھی کوئی قافلہ، کوئی اکیلا مسافر پہنچے، انہیں مہاجر کیمپ والٹن لایا جا ئے۔ یہ لوگ بے یارو مدد گار یہاں پہنچتے تھے۔ کوئی پرسان حال نہ تھا۔اکثر تولاہور ہی پہلی بار آئے تھے۔ اگر ہم یہاں نہ ہوتے تو ان کی مشکلات بہت بڑھ جانی تھیں۔ ہم نے چار پانچ تانگے کرائے پر لے رکھے تھے۔ فی سواری چار آنے ادا کرتے اور والٹن پہنچاتے تھے۔مہاجرین کی بڑی تعداد پہنچی بھی لاہور ہی تھی کہ واہگہ بھارتی پنجاب سے پاکستانی پنجاب پہنچنے کا آسان اور لاہور داخلہ کا واحد راستہ تھا۔لاہوریوں نے بھی کمال کر دیا تھا۔ میزبانی کا ایسا جذبہ کم کم ہی دیکھنے کو ملا۔ مجھے مہاجرین مدینہ کی یاد آ گئی تھی۔ دکھ کی بات یہ تھی کہ یہاں خواتین کی بے حرمتی کی چند شکایات بھی ملی تھیں۔ سعادت حسین منٹو کا مشہور زمانہ افسانہ ”کھول دو“ اسی بیک گراؤنڈ میں لکھا گیا تھا جو اس مہاجر کیمپ کے بہت سے مثبت پہلوؤں پر کلنک کے ٹیکہ کی طرح تھا اور آج بھی ہے۔ مجبوری سے فائدہ اٹھانے والے درندہ صفت ہر معاشرے اور ہر زمانے میں انسانیت کے منہ پر کالک ملتے رہے ہیں۔ یہاں بھی ایک طرف مظلوم، پر سان حال اور دکھی لوگوں کی خدمت میں لگے بے شمار لوگ تھے تو دوسری طرف گنتی کے چند درندے عصمتوں کے لیٹرے بن گئے تھے۔“
ککھ سے لکھ پتی؛
ابا جی بتایا کرتے تھے کہ”بیٹا! اس ہجرت نے ککھ پتیوں کو لکھ پتی اور لکھ پتی کو ککھ پتی بھی بنا دیا تھا۔ لوگوں نے غلط کلیم بھرے۔ بے ایمانی سے لاکھوں کی جائیداد کے مالک بن گئے۔ مجھے ابا جی مرحوم کی سنائی ایک بات یاد آگئی۔ ”پاکستان کے ایک نامی سیاست دان کے والد انکل بٹ کے والد کے ریشم کے کارخانے میں ریشم کے کیڑے سے ریشم نکالا کرتے تھے۔ وہ مزدور اکثر ابا جی اور ان کے دوستوں سے شکایت کرتا کہ میرے بیٹے کو سمجھاؤ روز اس کی شکایات آتی ہیں اور پولیس میرے گھر۔ تقسیم کے بعد یہ پاکستان آ کر پنڈی کی ایک بڑی حویلی کا بڑا مقیم بنا۔ یہ ہے شیخ رشید کی کہانی۔ آج ان کا طوطی اور یہ بھی خوب بولتے ہیں۔ تقسیم کے شروع میں ادھرسے اُدھر جانے والوں کا خیال تھا کہ یہ تقسیم وقتی ہے ہفتہ مہینہ بھر میں حالات پہلے جیسے ہی ہو جائیں گے اور ہم پھر سے واپس ان مقامات پر چلے جائیں گے جہاں سے آئے تھے۔“
انکل سلیم شاہ نے ابا جی کی اس بات کو یوں آگے بڑھایا؛”بیٹا! حمید نے تمھیں ٹھیک ہی بتایا تھا۔ ایسی سوچ تقسیم ہند کی ابتداء میں تھی۔ لوگ اسے عارضی بندوبست سمجھتے رہے بالکل اسی طرح جیسے دنیا بھر میں لوگوں کی ایک بڑی اکثریت کوویڈ 19 پر یقین نہیں کرتی رہی۔ پاکستان کے2نامور خاندان بھی اسی چکر میں راتوں رات بڑے بن گئے۔ لاہور سے”فیروز والا ٹرانسپورٹ کمپنی“کا مالک لاہور کا ایک ہند وخاندان تھا۔ اس کمپنی کی 8 بسیں تھیں۔ رات کو 4 بسیں فیروزوالا رکتیں اور 4 ہی لاہور میں۔ بٹوارے پر یہ خاندان فیروز پور جانے لگا تو اپنے ایک ہاکر کو 4 بسوں اور اڈے کی حفاظت کی ذمہ داری سونپتے کہا؛خیال رکھنا ہم دس پندرہ دن میں واپس آجائیں گے۔“ وہ تو واپس نہ آ سکے البتہ یہ ہاکر راتوں رات 4 بسوں اور اڈے کا مالک بن گیا۔ اس نے اپنے بھائی کو سلطان کی سرائے کے ایک کمرے میں سپئیر پارٹس کی دوکان کھول دی۔ کچھ عرصہ بعد وہ وہاں سے بادامی باغ چلا گیا اور آج ان کا شمار پاکستان کے نامور صنعتی گھرانے میں ہوتا ہے۔یہ ہے گارڈ فلٹر والوں کی کہانی۔دوسرا بھی اسی سرائے کی ایک رہائشی کوٹھری میں بھٹی قائم کی وہاں سے برانڈرتھ روڈ آیا اور پھر فونڈری کا مالک بن گیا۔“ یہ ہے اتفاق فانڈری کی کہانی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔