جنگ کیوں ضروری ہے؟

میرے کالموں کے اکثر قارئین یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ آپ جنگ و جدال پر ہی کیوں لکھتے رہتے ہیں، کبھی کبھار امن و آشتی پر بھی لکھا کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جنگ کے بغیر امن کا تصور ہی محال ہے۔ دنیا میں جو قوم کسی طویل عرصے تک جنگ کی پرچھائیوں سے دور رہتی ہے وہ زیادہ دیر تک صفحہء ہستی پر برقرار نہیں رہ سکتی۔
خود پاکستان نے گزشتہ تقریباً 80برسوں میں چار جنگیں لڑی ہیں۔ لیکن ان کا دورانیہ محض چند روز تک تھا۔ 1965ء کی جنگ صرف 17روزہ جنگ تھی، 1971ء کی جنگ 13دنوں تک جاری رہی اور کارگل کی جنگ بھی کہ جو نامکمل جنگ تھی اور اس لئے نامکمل جنگ تھی کہ انڈیا نے پاکستان پر حملہ نہیں کیا تھا اور یہ جنگ صرف کشمیر کی چند چوٹیوں پر لڑی گئی تھی۔ اس کا دورانیہ بھی صرف دو اڑھائی ماہ (3مئی 1999ء سے 26جولائی 1999ء تک) تھا۔
جب ہم انڈیا۔ پاکستان کی ان مختصر جنگوں کا احوال پڑھتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ دنیا کی دوسری غیر مسلم اقوام نے کئی برسوں تک جنگوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسلامی جنگیں جو اول اول صرف یک روز تھیں وہ بعد میں سالوں تک پھیل گئیں۔ ان کی تفصیلات اکثر قارئین کو معلوم ہیں۔ تقریباً 800برس تک مسلمانوں نے دنیا بھر میں جنگوں کا جو سلسلہ جاری رکھا، انہی کے طفیل دنیا کی غیر مسلم اقوام پر مسلمانوں کی برتری قائم رہی۔ لیکن پھر مسلمانوں نے جنگوں کے وہ اسباق فراموش کر دیئے جو عالم اسلام کی عظمت کا سبب تھے اور ان کی بجائے دوسری اقوام نے جنگوں کو گلے لگا کر مسلم اقوام پر اپنی برتری قائم کرلی۔
آج بھی دیکھ لیجئے، مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ آج یورپ میں روس اور یوکرین کی جنگ جاری ہے، اس کو تین سال گزر چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ وجہ یہ ہے کہ غیر مسلم اقوام نے تو مسلسل چھ چھ برسوں تک جنگوں کو گلے لگایا۔
دوسری عالمی جنگ یکم ستمبر 1939ء کو جرمنی کی طرف سے پولینڈ پر حملہ کرنے سے شروع ہوئی اور مئی 1945ء میں جب جرمنی نے ہتھیار ڈال دیئے تو یورپ میں تو اس کا خاتمہ ہو گیا لیکن ایشیاء میں یہ جنگ تب ختم ہوئی جب اگست 1945ء میں جاپان نے بھی ہتھیار ڈالے۔ اس طرح اس جنگ کا کل دورانیہ چھ سال بنتا ہے۔
اس جنگ سے پہلے بیسویں صدی کی ایک اور طویل جنگ 1914ء سے 1918ء تک لڑی گئی تھی۔چار سالوں پر محیط یہ جنگ زیادہ تر یورپی محاذ (اور وہ بھی مغربی یورپی محاذ) پر لڑی گئی۔ اس جنگ کو 1945ء سے پہلے ”گریٹ وار“ کہا جاتا تھا۔ تب دنیا کو معلوم نہ تھا کہ صرف 20،21 برس بعد ایک اور طویل تر جنگ بھی ہوگی جو چھ برس تک ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھے گی۔ 1945ء میں اب تک کی اس طویل ترین جنگ کے خاتمے پر ”گریٹ وار“ کو پہلی عالمی جنگ اور اس جنگ کو دوسری عالمی جنگ کا نام دیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم صحیح معنوں میں عظیم تھی۔ اس میں دنیا کی تمام بڑی بڑی اقوام نے حصہ لیا، تمام براعظموں، تمام بڑے سمندروں اور ان کی فضاؤں میں اس جنگ کے شعلے بھڑکتے رہے۔ اس میں حصہ لینے اور مرنے والوں کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچی۔ یہ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑی گئی۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی کہ جس کے اندر بہت سی ذیلی یا چھوٹی جنگیں بھی لڑی گئیں …… کسی بھی زبان کی لغت میں کوئی ایسی اصطلاح موجود نہیں کہ جو کسی ذیلی جنگ اور بڑی جنگ کے درمیان اس طرح کی تمیز کر سکے کہ جو ہم لڑائی (Battle) اور جنگ (War) کے درمیان کرتے ہیں۔ شائد یہی مجبوری تھی کہ چار سالوں پر محیط پہلی بڑی جنگ کو ”پہلی عالمی جنگ“ اور دوسری جنگ جو چھ سالوں پر پھیلی ہوئی تھی، کو، ”دوسری عالمی جنگ“ کا نام دیا گیا۔
اس جنگ کے مختلف محاذوں پر جو معرکے لڑے گئے، ان پر بلاشبہ ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور کئی فلمیں بنائی جا چکی ہیں اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے…… ہم سطورِ ذیل میں دوسری جنگ عظیم کی وجوہات، واقعات اور نتائج کا ایک نہایت ہی مختصر تذکرہ کریں گے تاکہ قاری کو اس جنگ عظیم میں لڑے جانے والے معرکوں کا پس منظر معلوم ہو سکے۔
اس جنگ کی ایک وجہ یہ تھی کہ یورپ کی تقریباً تمام بڑی بڑی اقوام نے افریقہ، امریکہ، ایشیاء اور آسٹریلیا کے براعظموں میں اپنی اپنی نو آبادیات بنالی تھیں جبکہ جرمنی کی نو آبادیات (Colonies) نہ ہونے کے برابر تھیں۔ برطانیہ دو صدیوں سے دنیا کی سپرپاور بنا ہوا تھا اور یہ بات جرمنی کے سیاسی اور عسکری رہنماؤں کی نگاہوں میں کانٹا بن کر کھٹکتی تھی…… دوسری وجہ فرانس اور جرمنی کی باہمی رقابت تھی۔ یہ دونوں براعظم یورپ کے ہمسایہ ممالک تھے۔ لیکن ان کی دشمنی کے کیف و کم کا عالم وہی تھا جو اگست 1947ء سے تاحال پاکستان اور بھارت کا ہے…… تیسری وجہ نئے ہتھیاروں کی ایجاد تھی۔ جنگی طیارے، ٹینک اور آبدوزیں ایسے جدید ہتھیار تھے جو اگرچہ پہلی عالمی جنگ میں بھی استعمال کئے گئے تھے لیکن ان کا استعمال بس واجبی سا تھا۔ 1918ء میں پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی نے ان جدید ہتھیاروں کی پروڈکشن اور ان کو فائن ٹیون کرنے میں بہت محنت کی جس کا ”نتیجہ“ دیکھنے کے لئے جرمنی کے نئے لیڈر بہت بے تاب تھے۔
لیکن اس جنگ کی سب سے بڑی وجہ وہ معاہدہ تھا جسے ”معاہدہ ورسیلز“ کہتے ہیں۔ یہ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر عمل میں لایا گیا۔ اس کی شرائط جو اتحادیوں کی طرف سے جرمنی کے خلاف رکھی گئیں، وہ اتنی رسواکن، شرمناک اور باعثِ ذلت تھیں کہ کوئی بھی خوددار قوم اس رسواکن معاہدے کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس معاہدے کی بہت سی شقیں تھیں جو علاقائی، صنعتی، تجارتی، معاشی، اخلاقی اور عسکری پہلوؤں کومحیط تھیں مثلاً:
-1 الساس اور لورین کے صوبے فرانس کو دے دیئے گئے۔
-2 صوبہ پوسن (Poson) جس میں 6 لاکھ جرمن آباد تھے، پولینڈ کو دے دیا گیا۔
-3 جرمنی کی مشہور بندر گاہ ڈانزگ (Danzig) اقوام متحدہ (جو اس وقت لیگ آف نیشنز کہلاتی تھی) کے کنٹرول میں دے دی گئی۔
-4 میمل (Memel) اور مال میڈی (Malmedy) کے علاقے بالترتیب لیتھونیا اور بلجیئم کو دے دیئے گئے۔
-5 جرمنی کے تمام سمندر پار علاقے اس سے چھین لئے گئے۔
-6سار (Saar) اور سلیشیا (Silesia) کی مشہور کوئلے کی کانیں فرانس اور پولینڈ کو دے دی گئیں۔
-7 جرمنی کے تمام بڑے بحری تجارتی جہاز ضبط کر لئے گئے۔
-8 جرمنی کے 500 ریلوے انجن اور ڈیڑھ لاکھ بوگیاں اتحادیوں نے آپس میں بانٹ لیں۔
-9 جرمنی کے تمام غیر ملکی اثاثے ضبط کر لئے گئے۔
-10 جرمنی پر 132 ارب جرمن مارک جرمانہ بطور تاوان جنگ عائد کیا گیا۔ اس کی مالیت برٹش کرنسی میں چھ ارب ساٹھ کروڑ پاؤنڈ سٹرلنگ بنتی تھی۔
-11 جرمنی کو پابند کر دیا گیا کہ وہ آئندہ کوئی بحری جنگی جہاز اور آبدوز نہیں بنائے گا۔
-12 جرمن فوج صرف ایک لاکھ افسروں اور جوانوں تک محدود کر دی گئی۔ (افسروں کی تعداد صرف چار ہزار اور جوانوں کی تعداد 96 ہزار مقرر کی گئی)۔
-13 ٹینک، توپیں، طیارے اور طیارہ شکن توپخانہ، جرمن فوج میں شامل کرنے کی ممانعت کر دی گئی۔(اس کا مطلب یہ تھا کہ جرمن فوج کی حیثیت محض ایک نیم عسکری ملیشیا فورس کی سی رہ گئی)
-14 فوج کے تمام سینئر جرنیلوں اور سیاسی رہنماؤں پر مقدمات چلائے گئے۔
-15 جرمنی کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ جنگ شروع کرنے کا مجرم تھا۔
یہ جنگ جب شروع ہوئی تو جرمنی ایک طرف تھا اور فرانس و برطانیہ دوسری طرف تھے۔ جرمنی نے یکم ستمبر 1939ء کو پولینڈ پر حملہ کرکے جنگ کا آغاز کیا اور دو روز بعد 3 ستمبر 1939ء کو برطانیہ و فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ بعد میں جرمنی کا ساتھ اٹلی اور جاپان نے دیا۔ ان تینوں ممالک کو محوری (Axis) کہا جاتا ہے جبکہ برطانیہ، فرانس، امریکہ، روس اور ان کے مقبوضات (Colonies) کو کہ جو خودبخود اس جنگ میں گھسیٹے گئے، اتحادیوں (Allies) کا نام دیا جاتا ہے۔(جاری ہے)