مجھ پر کب منکشف ہوا کہ میَں مسلمان ہوں
یہ جاننے کے لئے قارئین کو پہلے میری مختصر سی کتھا کہانی سُننا پڑے گی۔ میری عمر اَب 87سال ہے۔ میَں قریباً 15 سال کی عمر سے ہی روائتی گھریلو زندگی سے کٹ چکا تھا حالانکہ میرا گھرانہ اُسی طرح مذہبی اور روزے نماز کا پابند تھا جیسے کہ مڈل کلاس مسلمان گھروں کا ماحول آج سے 70-80سال پہلے ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے میَں قرآن پڑھنا بھی نہ سیکھ سکا۔ نماز کے لئے والد صاحب مجھے مسجد لے جاتے تھے لیکن میَں اُن کو بھی غچہ دے کر مسجد سے بھاگ آتا تھا۔ مار بھی بڑی پڑتی تھی لیکن اُس کے باوجود میَں روائتی ”اچھا بچہ“نہ بن سکا۔ میَں ہمیشہ روٹین سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن سمجھ کچھ نہیں آتا تھا۔ پڑھائی میں بھی میَں ایک معمولی طالبِ علم تھا۔ بس تھرڈ ڈویژن کے قریب قریب نمبر لے کر امتحان پاس کر لیتا تھا۔ کھیلوں میں بھی میں واجبی سا تھا حالانکہ میرے سکول کی اُس وقت کی 80 سالہ تاریخ میں اُس کی وجہ شہرت تعلیم کے علاوہ، فٹ بال اور کرکٹ میں ٹاپ پوزیشن رکھنے والے سکول کی تھی۔ میں نے ہائی سکنڈری تھرڈ ڈویژن میں کر ہی لیا۔
فیل کبھی نہیں ہوا تھا۔ میَں جسمانی طور پر بھی کوئی سینڈو نہ تھا۔ ہاں ایک بات بتانا تو بھول ہی گیا۔ میَں نے اپنے جیسے لڑکوں کے ساتھ مل کر سگریٹ پینا بھی شروع کر دیا تھا۔ شکر ہے کہ اُن دِنوں آج کی طرح نشہ آور لوازمات نہیں ہوتے تھے ورنہ شائد میَں اُس سے بھی محروم نہ رہتا۔ دوپہر کے وقت سکول سے بھاگ کر سینما کے سستے ترین ٹکٹ لے کر پُرانی فلمیں دیکھنا بھی ایک معمول تھا۔ غرض کہ مجھ میں ایک کلاسک بگڑے ہوئے لڑکے کی تمام خصلتیں موجود تھیں۔ یہ بھی نہیں تھا کہ میَں کسی غیر تعلیم یافتہ گھر کا فرد تھا۔ میرے والد صاحب 1927 کے M.A. ہسٹری تھے، 1937 میں دیرہ دون اکیڈمی سے برٹش اِنڈین آرمی سے کمیشن لے کر دوسری جنگِ عظیم کے بعد بطور میجر ریٹائیر ہو کر اِنڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں چلے گئے تھے۔
میٹرک پاس کر کے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ اس غیر یقینی کی کیفیت میں قسمت نے یا وری کی اور میَں 1951 میں پاکستان ائیر فورس میں اپرنٹس بھرتی ہو کر 3 سال کی ٹرئینگ کے لئے UK بھیج دیا گیا۔ بھرتی کرنے والے افسر نے پتہ نہیں مجھ میں کیا دیکھا کہ اُس نے جس شعبہ کے لئے مجھے بھرتی کیا، اُس کی ٹرئینگ کی سہولت ابھی پاکستان میں نہ تھی۔
ٰٓایئر فورس نے جہاں میرے بہت سے کس بل نکال دیئے وہاں میَں سمارٹ بھی ہو گیا۔ میرے دماغ پر جو زنگ لگا ہوا تھا، ختم ہو گیا۔ نہائت سائنٹیفک ٹریڈ یعنی ریڈار انجینئرنگ سمجھ آنی شروع ہو گئی۔ کیمسٹری، فزکس،Metallurgy اور الیکٹرونکس کی تعلیم کا معیار اُس وقتUK کے Fsc لیول کا ہوتا تھا۔ میرا شمار برائٹ apprentices میں ہونے لگا۔ لیکن اُس اُبھرتی جوانی میَں میرا لگاؤ مذہب کی طرف نہ ہو سکا۔مشرقی پاکستانی ساتھی باقاعدہ نماز کا وقت نکال لیتے تھے، پٹھان لڑکے بھی نماز نہیں چھوڑتے تھے، جو بھی ”حرام توپیاں“ تھیں وہ ہم پنجابی اور کراچی کے لڑکوں میں زیادہ تھیں۔ 3 سال میں ہم گورا ٹائپ بن گئے تھے۔ عمر ہی ایسی تھی۔ اِنگلینڈ سے جب واپس آئے تو P.A.F. ابھی اسلامی ائیر فورس نہیں بنی تھی۔ ہر قسم کی تفریح مل جاتی تھی۔ ائیر فورس کے 9 سالوں میں میرا مزاج مذہبی نہ بن سکا۔ائیر فورس سے بھی میَں نے CSS کا مقابلے کا امتحان پاس کیا اور سوِل سروس میں آکر سندھ، بلوچستان میں ملازمت کرتا ہوا سیالکوٹ میں 1964 سے 1966 تک رہا اور وہاں ہی قسمت نے پھر یاوری کی کہ میں حبیب بینک کے سیٹھوں کو پسند آ گیا۔ وہ سیالکوٹ آئے ہوئے تھے اپنے بینک کی سلور جوبلی منانے کے سلسلے میں۔ میَں بطور A.C سیالکوٹ اُنہیں چھوٹی موٹی سرکاری سہولتیں دینے میں مدد گار ثابت ہوا۔ اُنہوں نے شائد مجھ میں چھپا ہوا بینکر ڈھونڈلیا۔ ”بڑی تگڑی“ تنخواہ پر ملازمت کی پیشکش کر دی۔ میَں نے اپنے D.C. اور کمشنر صاحب سے مشورہ کیا۔ اُنہوں نے ہمت اُفزائی کی اور مجھے سولِ سروس سے ریلیز لینے میں مدد بھی دی۔ البتہ میرے والد صاحب جو ریٹائر ہو چکے تھے، مجھ سے پھر ناراض ہو گئے کہ میَں اچھی خاصی ”رعب داب“ والی ملازمت چھوڑ کر پرائیوئٹ اور وہ بھی سیٹھوں کی نوکری کروں گا۔ میرے والد صاحب انگریز کی حکومت کے Typical پنشنر ٹائپ ہی رہے۔
پاکستان میں مختلف بینکوں میں نوکری کرتا ہوا میَں بیرونِ ملک بینکوں میں 27 سال اعلیٰ عہدوں پرفائز رہا، دنیا دیکھی، مختلف مذاہب کے لوگوں سے ملنے کا اِتفاق ہوا۔ اپنے بینک کی طرف سے ہندوستان میں سرمایہ کاری کی نگرانی کے لئے مجھے گاہے گاہے وہاں جانے کا اِتفاق ہوا۔ وہاں ایک ٹورسٹ کے طور پر بدھ اور ہندوں کے مشہور مندر اور سکھوں کے گوردوارے دیکھنے کا موقع مِلا۔ میَں چائنہ، جاپان، نیپال، سری لنگا، انڈونیشیاء اور تھائی لینڈ میں لوگوں کو اپنے اپنے طور پر عبادت کرتے دیکھتا تھا۔ یہاں تک کہ میں ملازمت سے 2004 میں ریٹائر بھی ہو گیا۔ دادا، نانا بن گیا، خوشحالی،عزت اور اپنے حلقے میں نیک شہرت بھی ملی لیکن میَں اسلام کی بنیادی عبادات سے محروم ہی رہا۔ یہاں تک کہ میَں نے سعودی عرب میں رہتے ہوئے حج بھی کئے، عمرے بھی کئے، مدینہ منورہ بھی کئی دفعہ گیا، لیکن یہ سب سطحی سا تھا۔ بیوی بچوں کے شوق کے لئے، والد صاحب اور اپنے دوسرے بزرگ عزیزوں اور دوستوں کو عمرے اور حج کروانے کا ایک قسم کا سہولت کار تھا۔ یہ بھی نہیں کہ میں Atheist تھا۔ بس طبیعت دین کی طرف مائل نہیں ہوتی تھی۔ البتہ مجھے اس دوران دنیا کی تاریخ اور حالات ِ حاظرہ کو پڑھنے اور اپنی بساط کے مطابق سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ دنیا کے مشہور مذاہب کوصرف جنرل نالج کے طور پر جاننے کے شوق نے مذہبی تاریخ کے مطالعہ کی عادت ڈال دی۔ تاریخ کا مضمون CSS کے امتحان میں میرا ایک مضمون بھی تھا جس کی تیاری کے لئے میَں نے اسلامی تاریخ کا بھی وسیع مطالعہ کیا حالانکہ میرا مخصوص Subject پاک و ہند کی ہسٹری تھی۔ میَں بتانا بھول گیا کہ ائیر فورس میں رہتے ہوئے ہی میَں نے انگریزی میں ماسٹرز کیا اور ائیر فورس سے ہی میَں نے CSS کا امتحان دیا تھا۔
مذاہب کو پڑھتے پڑھتے مجھے یہ جاننے کا شوق پیدا ہوا کہ اسلام کیوں بہتر مذہب سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ تمام مذاہب اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، مجھے اس تجسُس نے قرآن غور سے پڑھنے کی طرف مائل کیا۔ میَں نے عرب ملکوں میں رہ کر دفتری قسم کی اور عام بول چال والی عربی سیکھ لی تھی۔ قرآن کے معنی انگریزی میں سمجھنے کی کوشش کی لیکن اُس سے میری تشقی نہ ہوئی۔ میَں سعودی عرب میں رہتے ہوئے عربی زبان کی بلاغت، فصاحت اور الفاظ کے عظیم ذخیرے کی اہمیت کو سمجھ چکا تھا۔ میَں نے قرآن کو بغیر کسی اُستاد کے عربی میں پڑھنا شروع کیا۔ معنی بھی ساتھ ساتھ پڑھ لیتا تھا لیکن اُس سے بھی مجھے اطمنان نہیں ہوتا تھا۔ میَں نے کسی تفسیر کو ہاتھ آج تک نہیں لگایا۔ میَں قرآن شریف کو قرآن کی مدد سے ہی سمجھنا چاہتا تھا۔ میرے ذہن میں دنیا کے بڑے مذاہب کا خاکہ پہلے سے ہی موجود تھا۔ میَں لاشعوری طور پر اِن مذاہب کا اپنے دینِ اسلام سے موازنہ بھی کرتا جاتا تھا۔ مجھ میں دینِ اسلام کی روحانی عظمت کا احساس پیدا ہوتا چلا تھا لیکن قرآن کا مطالعہ میں نے جب زیادہ سمجھ کے کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ ہی کتابِ ہدائت ہے جو انسانوں کو اس دنیا میں امن اور سکون سے رہنے کاسلیقہ سکھاتی ہے اور جو ہمیں ہمارے مدنی اور معاشرتی فرائض سے بھی آگاہ کرتی ہے۔ میَں نے مزید غور کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم اِنسانوں سے کیا چاہتا ہے۔ میَں مسلمان اس لئے ہوں کیونکہ میں حامد حسن کے گھر میں پیدا ہوا۔ میرے کان میں اَذان بھی دے دی گئی۔ میری مسلمانیاں بھی ہو گئیں۔ لیکن میَں عملی مسلمان نہ ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ ایسے نافرمان اور نکمےّ اِنسان کو ہر نعمت سے نواز دیا تھا۔ مجھے ہر مرحلے پر کامیابی بھی دی۔
لیکن میَں نے 80 سال کی عمر تک اللہ تعالیٰ کی کرم نوازیوں کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔ مجھے دینِ اسلام کی ہمہ گیریت اور سچائی پر تو یقین ہو گیا تھا۔ قارئین آپ جانتے ہیں کہ یقین اور اعتماد ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ یقین کسی بھی عقیدے کا Prelude ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی آسمانی حیثیت کا یقین دلانے کے لئے آج سے 1482 سال قبل عرب کے اہلِ قریش کے ایک صادق اور امین فرد نے گواہی دی۔ قرآن کی سچائی کے عظیم گواہ محمد ابنِ عبداللہ ابن عبدالمطلب تھے۔ اللہ کے رسول بھی تھے اور بنی آخرالزماں بھی تھے۔ اُن ہی کی گواہی سے ہم وحدت الوجود سے بھی متعارف ہوئے۔ آج دنیا کے تمام مسلمان حضرت محمد مصطفےٰؐ کو اپنا ہادیِ اعظم مانتے ہیں۔مجھ میں احساسِ ندامت پیداہونا شروع ہو گیا تھا۔ میَں نے قرآن سے یہ اخذ کیا کہ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کا بہترین طریقہ نماز ہی ہے۔ میَں نے نماز ادا کرنی شروع کر دی۔ ادھوری سی۔ صبح کی نماز قضاء ہی پڑھتا رہا۔ آہستہ آہستہ نماز میں Regular ہونا شروع ہو گیا۔ نماز کی وجہ سے اور چھوٹی چھوٹی Social بُرایاں بھی چھٹ گئیں۔ میَں اَب ہر نماز پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُس نے مجھ گناہ گار کو اس عمر میں بھی ذہنی اور جسمانی طور پرکار آمد رکھا ہوا ہے۔ شکر ہے کہ میَں تنگ نظر اور متعصب مسلمان نہیں بنا۔ عموماً میَں دیکھتا ہوں کہ جوں ہی کسی مسلمان نوجوان کو دین پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے، تو وہ پہلے تو لمبی سی داڑھی رکھتا ہے۔ سر پر کپڑے کی ٹوپی رکھتا ہے۔ماتھے پر محراب کے نشان بنانے کی کوشش کرتا ہے، کوٹ پتلون کے نزدیک نہیں جاتا، گفتگو میں بھی بہت زیادہ مذہبیت نمایاں ہوگی۔ گفتگو میں الحمد و للہ، ماشا اللہ، اِنشا اللہ کے کلمات کی کثرت ہوگی۔ میرے خیال میں یہ اسلام کے optics یعنی ظواہر ہیں۔ عمران خان اچھا خاصا سمارٹ اور خوبرو اِنسان ہے۔ کیا شلوار قمیض پہننے سے اُس کی مسلمانیت زیادہ اُجاگر ہو گی۔ 300 کنال کے مکان میں رہ کر سادگی کا پرچار کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ میَں ایک اپر مڈل کلاس کا عمر رسیدہ اِنسان ہوں۔ پیدل چلنے کے لئے Stick کا سہارا لیتا ہوں، لیکن میَں نے اپنا رہن سہن اور ظاہری حُلیہ ویسا ہی رکھا ہے جس کا میں اِتنے طویل عرصے سے عادی ہوں۔ مجھے دیکھ کر کوئی شخص مجھے مسلمان نہ بھی سمجھے تو کیا ہوا۔
میَں کوشش یہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جن Civic duties اور اخلاقیات کی ہدایت کی ہے اُس پر عمل ہونا چاہیے۔ سب سے بڑی Civic duty یہ ہے کہ ہم تجارت، لین دین اور مول تول میں ایماندار رہیں۔ کیا ہم ریاست کے بنائے ہوئے قوانین جو ٹیکس سے متعلق ہیں، جائیداد سے، ٹریفک سے، ماحولیات سے، وعدے اور معاہدے کی پاسداری سے متعلق ہیں، اُن پر ہم واقعی عمل کرتے ہیں؟ ہم میں سے 90 فیصد کہیں نہ کہیں اللہ کی حکم عدولی کرتے ہیں اور وہ بھی دانستہ، میَں کسی مُبلیغ کے ذریعے عملی مسلمان نہیں ہوا۔ ہم سب قرآن میں دی ہوئی معاشرتی ہدایات پر اگر عمل کر لیں تو بخدا ہم بطور پاکستا نی مسلمان اتنے ذلیل و خوار نہ ہوں جیسا کہ اَب ہو رہے ہیں۔ ہمارا مولوی ہماری ذلّت اور اِخلاقی گراوٹ کو اللہ تعالیٰ کا عذاب کہتا ہے۔ نہیں یہ ہمارے کرتوت ہیں جو ہمیں دینا میں حقیر بنا رہے ہیں۔ میَں بہت عاجزی سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ میَں اپنے دین کی طرف Self study سے مائل ہوا ہوں بالکل ایسے ہی جس طرح ایک تعلیم یافتہ غیر مسلم فرد دینِ اسلام کی طرف راغب ہوتا ہے۔ میری سمجھ کے مطابق ہمارا دین جامد اور Monolithic dogma نہیں ہے۔ اِنسان کی عقل،فہم اور سائنسی ترقی سے پیدا شدہ معاشرے کو اسلام ردّ نہیں کرتا۔ ہمیں مہذب فیشن کرنے سے، فنونِ لطیفہ میں دلچسپی لینے سے تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی بھی تفریح سے ہمارا دین ہمیں منع نہیں کرتا۔ غربت، جہالت اور ذہنی کم مائیگی انسانوں کو تنگ نظر اور جذباتی بھی بنا دیتے ہیں۔ خطہِ پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت صدیوں سے غریب بھی ہے، جاہل بھی ہے اور ذہنی طور پر پست بھی ہے۔ اِن عناصر کی وجہ سے ہی پاکستان جیسا اہم ملک مسلمان قوموں کا لیڈر نہیں بن سکا۔ ورنہ پاکستان میں دنیاوی طور پر کس چیز کی کمی ہے۔ خرابی ہے تو ہماری فہمِ دین میں ہے جس کی وجہ سے ہمارے عوام غیر معتدل اور غیر روادر مسلمان ہیں۔