محبتوں کو فروغ دیں
معاشرے میں پھیلی انتہاپسندی، فرقہ واریت، مذہبی کشیدگی، علاقائی تعصب اور 'لسانی' و 'گروہی' لڑائی یا نفرت کا تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں ہے. یہ ہمارے اجتماعی و انفرادی رویئے ہیں جو نفرتوں کو جنم دیتے ہیں. مذہب تو سراسر محبت و رواداری کو فروغ دینے کا نام ہے. گزشتہ دنوں پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈی کے زیراہتمام اسلام آباد میں ایک تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا.جس میں ملک بھر کی جامعات سے مختلف رنگ، زبان، مذہب،نسل،علاقے اورطبقہ فکرے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات نے شرکت کی.ان لوگوں کے ساتھ 3 دن گزارنے کا مجھے بھی موقع ملا.
ہر کوئی اپنی ذات میں ایک انجمن تھا. کوئی ہندو ہونے کے باوجود مسلمانوں کے لیے سحری و افطاری کا پورے رمضان کے مہینے میں اہتمام کرتا ہے اور کوئی مسلمان ہونے کے باوجود مسیحیوں کے ساتھ کرسمس کی خوشیاں بانٹ لیتا ہے. سبھی ایک دوسرے کی دل آزاری سے خوف کھانے والے محسوس ہوئے اور اپنے عمل سے اگلے کی خوشی و سکون کا باعث بننے کے لیے کوشاں رہنے والے بھی. میرا ماننا ہے کہ پاکستان مسلمانوں کے علاوہ بھی اپنے اندر بسنے والے دوسرے تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے محفوظ ہے اور ان کو ان کے مذہبی حق دینے والا ملک ہے. جس کی کئی مثالیں ان3 دنوں میں بھی ملیں.
سندھ سے آنے والے ایک ہندو برادری کے دوست نے بتایا کہ ان کے پاس عبادت کرنے کے لیے مندر نہیں تھا. اب وہاں کے مسلمانوں نے مندر کے لیے جگہ دی ہے اور اس کی تعمیر بھی مکمل ہوگئی ہے. کوئٹہ سے ہزارہ برادری کی ایک لڑکی پہلی بار اپنے شہر سے باہر آئی تھی وہ حیرت زدہ تھی کہ تمام لوگ ہم سے اس طرح محبت سے پیش آئے کہ لگتا ہے سب ہمارے ہی جیسے ہیں. ورنہ وہ پہلے سمجھتی تھی کہ شاید ان میں اور دوسروں میں نا جانے کتنا فرق ہے.
ایک ہندو دوست جس کا نام سنجے پوری ہے. وہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا طالب علم ہے. پورا رمضان مسلمانوں کے لیے سحری و افطاری کا اہتمام کرتا ہے اور اس کام پر فخر بھی محسوس کرتا ہے. اسے بات کرنے کا موقع ملا تو کہنے لگا کہ حضرت محمد ﷺ تو صرف مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ ہم سے بھی بہت محبت کرتے تھے. وہ تو ہمارے لیے بھی سراپارحمت و شفقت تھے، ہم بس مسلمانوں سے ان جیسی محبت چاہتے ہیں...
معروف بلاگر و صحافی برادرم سبوخ سید صاحب نے ابھی کچھ دن پہلے مقامی علماء اور مدرسے کے طالب علموں کے ہمراہ مسیحی بچوں کو کرسمس پر مسجد میں مدعو کیا. مسلمان بچوں نے انہیں تحائف پیش کیے، اکٹھے کھانا کھایا، وقت گزارا اور محبتوں کو فروغ دیا. میں نے یہی گزارشات پیش کیں کہ میرا تعلق نارووال سے ہے. جو پوری دنیا میں اس وقت کرتار پور کی وجہ سے توجہ کا مرکز ہے. کرتارپورسکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کا دربار ہے اور ان کی زندگی کے آخری ایام بھی یہیں گزرے ہیں،وہ یہاں پر کھیتی باڑی کیا کرتے تھے.
میں نے کہا کہ نارووال یا کرتارپور کا نام آتے ہی فوراً ذہن میں سکھ آجاتے ہیں تو خیال یہی آتا ہے کہ وہاں کافی بڑی تعداد میں سکھ ہونگے. حیرت انگیز بات مگر یہ ہے کہ وہاں سکھوں کا صرف ایک گھر ہے اور نارووال کے تمام مسلمان ان سے محبت کرتے ہیں عزت بھی دیتے ہیں اور کبھی اس ایک گھر نے لوگوں سے خود کو غیر محفوظ نہیں پایا. اسی سکھوں کے ایک گھرانے کو نارووال والوں نے ممبر صوبائی اسمبلی کا اعزاز بھی دے رکھا ہے.
وہاں مسیحیوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو مسلمانوں کے لیے اکثر جگہوں پر 12 ربیع الاول کے جلوسوں کے استقبال کا انتظام کرتی ہے اور مسلمان بھی ان کی خوشیوں میں شریک رہتے ہیں. میرے گاؤں میں صرف دو یا تین گھر عیسائیوں کے ہیں وہاں ان کے لیے شاندار گرجاگھر موجود ہے. ہر ہفتے ان کا مذہبی پیشواء انہیں اپنے مذہب کی تعلیم دینے آتا ہے تو اپنی سواری پر نہیں بلکہ کوئی مسلمان ہی انہیں لے کر آتا ہے اور کوئی مسلمان ہی انہیں واپس چھوڑ کر آتا ہے.
پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہزاروں جگہوں پر بے شمار ناخوشگوار واقعات ہوتے ہیں لیکن مسلمان اس شدت سے آواز بلند نہیں کرتے جیسے اگر کہیں کسی غیر مسلم کے ساتھ کچھ ایسا ہوجائے تو ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں. اتنے سارے مثبت پہلو ہونے کے باوجود ناجانے کیوں ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور بھرپور اجاگر نہیں کیا جاتا.یقیناً مسائل بھی ہیں، فرقہ واریت بھی ہے، لسانی، گروہی اور مذہبی شدت پسندی بھی ہے لیکن اس کا حل صرف فروغ محبت ہے، غلط فہمیوں کا ازالہ ہے اور ایک دوسرے کو اچھے سے جاننا ہے. مختلف ذہن کے لوگوں کو یوں ایک ساتھ وقت گزارنے کا موقع دینے سے یقیناً بہت ساری غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوتا ہے.
بقول شاعر
اَناؤں، نفرتوں، خود غرضیوں کے ٹِھہرے پانی میں
مُحبت گھولنے والے بڑے دَرویش️ ہوتے ہیں
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں