نیٹو سپلائی کھولنے پر سیاست

نیٹو سپلائی کھولنے پر سیاست
نیٹو سپلائی کھولنے پر سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

افغانستان میں موجودنیٹو افواج کے لئے پاکستان کے راستے تین جولائی کو سپلائی لائن کھولنا پاکستا ن اور امریکہ کے درمیان طویل اور محنت طلب مذاکرات کے کئی ادوار کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔ طرفین کے داخلی معاملات ،سیکیورٹی و خارجہ پالیسی کے عوامل نے ان کے لئے کسی قابل ِ قبول سمجھوتے پر پہنچنا دشوار بنا دیا تھا۔ دونوں ممالک کے دگرگوںہوتے ہوئے تعلقات میں سلالہ چیک پوسٹ کا واقعہ فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا ۔پاک فوج کے اس جانی نقصان کی امریکی حکومت نے ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا۔ اس سے پہلے دو مئی کو اسامہ بن لادن کے خلاف کی جانے والی کاروائی کے دوران امریکی کمانڈوز کی طرف سے ہماری جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کی بھی کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ اس کے بعد سلالہ چیک پوسٹ کے سانحہ کو پاکستان نے امریکی فوج کی طرف سے ایک ایسی جارحانہ کارروائی سمجھا، جس کا مقصد سول حکومت اور فوج ، جو قبائلی علاقوں میں ایک ناپسندیدہ جنگ لڑنے پر مجبور تھی، کو زک پہنچانا تھا۔ ان اقدامات کے بعد پاکستان کے دفاعی اور خفیہ اداروںنے فیصلہ کیا کہ اب وہ بھی سخت اقدام اٹھائیںگے۔
اس اقدام کا ایک مقصد عوام کے اس تاثر کو زائل کرنا بھی تھاکہ ہمارے دفاعی ادارے امریکی آپریشنز کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے خفیہ اداروں نے امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دیتے ہوئے اسلامی عناصر کو متحرک کیا۔ اس کے ساتھ ہی دفاعی اداروں نے ”حتمی فیصلہ “ کرنے کی ذمہ داری سول حکومت کے کندھوںپر ڈال دی، تاہم یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیںہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومتیں اہم فیصلے کرنے کی عادی نہیں ہیں، چنانچہ وقت گزار نے کے لئے اس نے معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا۔ اس تاخیر نے اسلامی عناصر اور اپوزیشن کی جماعتوں کو موقع فراہم کر دیا کہ پاکستانی فوجیوں کی شہادت کو سیاسی ایشو بنا کر حکومت اور پارلیمنٹ کے لئے ایک معتدل فیصلہ کرنا مشکل کر دیں۔ سرکاری افسران کی طرف سے بیانات آئے کہ امریکہ کے لئے سپلائی لے کر جانے والے ٹرکوںاور ٹینکروں کی وجہ سے ہماری سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں ۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو 100 بلین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑاہے۔ اس طرح سرکاری افسران بھی امریکہ مخالف مہم کا حصہ بن گئے۔ بہت سے ریٹائرڈ جنرلوں نے کہا کہ ستمبر2001ءکے بعد سے پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دے کر بہت نقصان اٹھایا ہے۔
چنانچہ اس امریکہ مخالف مہم کی وجہ سے حکومت اور فوج نیٹو سپلائی کھولنے کا فیصلہ کرنے میں مشکل کا شکار ہو گئے اگر چہ وہ ایسا کرنا چاہتے تھے۔ گزشتہ مئی تک ماحول ایسا بن چکا تھا کہ پاکستان کی دفاعی اسٹبلشمنٹ امریکہ کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتی تھی، مگر کسی کو بھی عوامی سطح پر یہ بات کرنے کا حوصلہ نہیں تھا اور نہ ہی اسلامی عناصر کی طرف سے مغرب اور امریکہ کے لئے جارحانہ رویے پر کوئی اعتراض کرنے کی جسارت کر سکتا تھا۔ وہ پاکستان کے عوام کو یہ بات نہ سمجھا سکے کہ سپلائی لائن کھولنا پاکستان کے اپنے مفاد میںہے ....امریکہ اور پاکستان نے نیٹو سپلائی لائن کھولنے کے معاملے میںکافی افہام و تفہیم سے کام لیا ہے۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے پاک فوج کے جانی نقصانات پر ”سوری “کہا ہے ، جبکہ پاکستان نے بھی ٹرکوںکے گزرنے کی نئی فیس کا تقاضا نہیںکیا ،مگراس کو توقع ہے کہ امریکہ کولیشن سپورٹ اورکیری لوگر برمن قانون کے تحت فنڈز کا اجراءیقینی بنائے گا اور یہ کہ پاک فوج کو ہتھیار اور تربیت بھی فراہم کی جائے گی۔ سپلائی لائن کھولنے سے یہ امید بھی پیدا ہو چلی ہے کہ طرفین اپنے دیگر مسائل، جیسا کہ ڈرون حملے، افغان سرحد سے دہشت گردوں کی آمد، وزیر ستان میں حقانی گروپ کا مسئلہ اور 2014ءکے بعد پاکستان کے افغانستان کی صورت ِ حال کے بارے میں تحفظات، پر بھی بات کر سکیںگے۔
پاکستان افغان مسئلے کے حل اور خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ میں اس وقت تک کامیاب نہیںہوسکتا، جب تک وہ افغانستان میںموجود دیگر قوتوںسے بات چیت نہ کرے۔ سلالہ چیک پوسٹ سانحہ کے بعد سے افغانستان میں بہت سی سفارتی سرگرمی دیکھنے میں آئی ہے۔ امریکہ نے افغانستان کے ساتھ اسٹرٹیجک تعاون کے معاہدے پر دستخط کئے ہیںاور اسے ”غیر نیٹو اتحادی “ کادرجہ دے دیا ہے۔ افغانستان کی تسلی کے لئے امریکی کمانڈوز کی طر ف سے رات کے اندھیرے میںکی جانے والی کارروائیاں، جن میں شہریوں کا زیادہ نقصان ہوتا ہے، اور افغان جیلوں میںموجود قیدیوں کو افغان اداروںکے سپرد کرنے کے معاملے پر بھی بات چیت آگے بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے انڈیا، جس کی افغانستان کے ساتھ بہت سے معاملات پر شراکت داری ہے، کے ساتھ بھی معاشی اور دفاعی معاہدے کئے ہیں۔ 2011 ءکے بعد سے چین بھی افغانستان کی معدینات میں دلچسپی لے رہا ہے۔ ازبکستان، تاجکستان اور کرغستان روس اور امریکہ کے ساتھ تعاون بڑھا رہے ہیں ،تاکہ افغانستان اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹا جاسکے۔

ہونے والی اس اہم پیش رفت میں خطے کا واحد ملک جو منظر ِ عام سے غائب تھا، وہ پاکستان ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے بغیر امریکہ اور نیٹو افغان مسئلے کا تسلی بخش حل نہیں نکال سکتے .... اور یہ بھی جھوٹ نہیںہے کہ پاکستان تنہائی کا شکار ہو کر افغان مسئلے کو حل کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ نہیںکرسکتا۔ اگرپاکستان منظر ِ عام سے غائب رہتا ہے تو انڈیا افغانستان میں اپنے قدم جما لے گا، تاہم حالیہ دنوں پاکستان کی طر ف سے امریکہ کے ساتھ تعاون کے فیصلے نے اس کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کر سکے اور اپنے مسائل کا قابل ِ عمل حل تلاش کرنے کے علاوہ افغانستان کے حوالے سے اپنے قومی مفاد کا تحفظ کر سکے۔اس کے لئے پاکستان کو ماہرانہ سفارت کاری،صبر اور داخلی ہم آہنگی کی ضرورت ہے، تاکہ یہ خطے کے بدلتے ہوئے معروضات میں فعال کردار ادا کر سکے۔
تاہم پاکستان کے لئے سب سے بڑا چیلنج داخلی طورپر درپیش ہے۔ اسلامی انتہاپسند احتجاج کی فضا قائم کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے مسئلہ بن چکے ہیں، تاہم ان سے یہ توقع نہیںکی جاسکتی کہ وہ ملک گیر احتجاج کے ذریعے معاشرے کو مفلوج کر سکیں،کیونکہ مرکزی سیاسی جماعتیں ان کا ساتھ نہیں دیںگی، تاہم وہ امن وامان کا مسئلہ پیدا کرتے ہوئے حکومت کی عملداری کو چند روز کے لئے چیلنج کرسکتے ہیں۔ آنے والے چند ہفتوں میںیہ بات واضح ہوجائے گی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی مذہبی انتہا پسندوںنے بنانی ہے یا حکومت نے؟ اگر پاکستان کے دفاعی اداروں کا خفیہ طریقے سے ان گروہوں پر کوئی بس چلتا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ ان کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔ پی پی پی حکومت اکیلی ان سے نہیں نمٹ سکتی، کیونکہ اسے اعلیٰ عدلیہ اور اپوزیشن جماعتوںکی طرف سے بھی دباﺅ کا سامنا ہے۔ چونکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی فوج کے فائدے میںبھی ہے، اسے اس معاملے میں اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔
امریکہ کو بھی چاہیے کہ پاکستان کو اندرونی مسائل سے نمٹنے کے لئے مدد فراہم کرے۔ اس کے سرکاری اور غیر سرکاری عناصر کو چاہیے کہ پاکستان کے بارے میں بیان بازی کرتے ہوئے محتاط رہیں۔ اگر حقانی نیٹ ورک اور ڈرون حملوں پر اس طرح فصاحت و بلاغت کے دریا بہائے جاتے رہے تو اس سے مفاہمت کا عمل خطرے میں پڑ جائے گا اور مذہبی انتہاپسندپاکستا ن کو تنہائی کا شکار کر دیں گے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف تمام تر پالیسیاں واشنگٹن میںہی نہیں بنائی جانی چاہئیں۔ اس سلسلے میں پاکستان سے مشاورت کی بھی ضرورت ہے۔ اگر امریکہ کو افغانستان میں مشکلات کا سامنا ہے تو پاکستان کی فوج اور حکومت کو بھی داخلی طور پر انتہائی نا مساعد حالات کا سامنا ہے۔

کالم نگار، معروف سیاسی مبصر اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر امریطس اور بین الاقوامی شہرت کے ماہر تعلیم ہیں۔

مزید :

کالم -