روزہ غیر مسلم اہل علم کی نظر میں
عجیب بات ہے کہ بعض لوگ مسلمانوں کے روزہ کو فاقہ قرار دیتے اور مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ اس سے صحت کو نقصان ہوتا ہے ،حالانکہ یہ صریحاً غلط ہے۔ مسلمان تو زیادہ سے سترہ گھنٹہ تک روزہ رکھتے ہیں جبکہ عیسائی چوبیس گھنٹے کا روزہ رکھتے ہیں۔
اسلام دین فطرت ہے اور فطرت کا کوئی عمل انسان کے لیے نقصان کا سبب نہیں ہو سکتا۔ روزہ پر دنیا بھر کے سائنسدانوں اور طب و صحت کے ماہرین نے جو تحقیقات کیں، ان سب نے روزہ کو صحت کے لیے مفید قرار دیا ہے۔ روزہ کے اثرات صرف نظام ہضم پر ہی نہیں ہیں بلکہ تمام انسانی جسم پر ہیں۔ ماہرین طب و صحت اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ روزہ ایک طبی معجزہ ہے اور کئی امراض کا قدرتی و یکسر علاج ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مور پالڈ کہتے ہیں کہ اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے جب میں نے روزہ بارے پڑھا تو حیرت زدہ ہوا کہ اسلام نے مسلمانوں کو روزہ جیسا تحفہ دیا ہے۔ میں نے اسے آزمایا اور مسلمانوں کی طرح روزے رکھے ۔میں عرصے سے ورم معدہ کا مریض تھا۔ کچھ دنوں میں کمی ہوئی پھر مکمل نارمل ہوگیا۔
فارما کولرجی کے نامور پروفیسر ارتھر جسیم نے روزہ دار شخص کے معدے کی رطوبت کا لیب ٹیسٹ کرایا۔ پتہ چلا کہ غذائی متعفن اجزا جن سے معدہ تیزی سے ایسے ایسڈ چھوڑتا ہے ،وہ بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح معدے کے امراض میں روزہ کے بہت فوائد ہیں۔
معروف زمانہ ماہر نفسایت سگمنڈ فرائیڈ فاقہ کی صورت روزہ کا قائل تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ روزہ نفسیاتی اور دماغی امراض میں بہت مفید ہے ۔روزہ رکھنے والے کا جسم مسلسل بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کی صلاحیت پا لیتا ہے۔ روزہ دار ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ سے محفوظ رہتا ہے۔
ہالینڈ کے پوپ ایلف گال کا کہنا ہے کہ میں اپنے پیروکاروں کو روزے کی تلقین کرتا ہوں۔ شوگر کے مریضوں کے لیے بہت مفید ہے۔ دل کے مریضوں کو فائدہ دیتا ہے۔ بے چینی اور سانس پھولنے میں مثبت اثرات ہوئے۔ سب سے زیادہ افاقہ نظام ہضم کی خرابی کے مریضوں کو ہوا۔
یورپی ممالک کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے رمضان المبارک میں مختلف ممالک کا دورہ کیا اور بیان کیا کہ رمضان میں مسلمان نماز بھی اہتمام سے پڑھتے ہیں۔ جس سے پہلے وہ وضو کرتے ہیں۔ اس طرح ناک اور گلے کے امراض کم ہو جاتے ہیں۔ کھانا کم اور وقت پر کھانے کے باعث معدہ کے امراض کم ہوتے ہیں۔ دراصل ماہ رمضان ماہ تربیت ہے کہ کچھ وقفہ کے لیے جائز اور مباح اشیاء چھوڑ کر تربیت لی جائے اس طرح قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔