سمجھ رہا تھا جسے خیر خواہ میں اپنا
شاعر برقی اعظمی کاشعر ہے کہ
سمجھ رہا تھا جسے خیر خواہ میں اپنا
وہی ہے دشمن جاں میرا سب سے بڑھ کر آج
مدعا یہ ہے کہ روز مرہ زندگی میں بہت سے لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔ سلام دعا، طویل نشست میں بدلتی ہے، طویل نشست پھر ملاقاتوں میں اور پھر واقفان حال ہو جاتے ہیں۔الغرض ہم سمجھتے ہیں جو ہم سے ملتا ہے، نرم دل لوگوں کا شیوہ ہے کہ وہ ہر ہاتھ ملانے والے کو دوست سمجھ کر اس سے دل کی بات کر لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح وہ دل اور نیت کے صاف ہیں دوسرے بھی ہوں گے۔حیف کہ حقیقت برعکس ہوتی ہے۔ خیر خواہی اور نیک نیتی اگرچہ فطرت ثانیہ ہونی چاہئے لیکن عام زندگی میں اس کا دور دور تک تعلق ہی نہیں ہوتا۔ لوگ روزمرہ زندگی میں یہ دونوں باتیں کرتے اور نبھاتے نظر آتے ہیں لیکن کچھ صرف زبانی جمع خرچ پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔
خواجہ میر درد نے بہت خوب کہا کہ
باغباں ہرجا کہ باشد خیر خواہ گلشنم
من فدائے عندلیب و خاک راہ گلشنم
خیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی نیکی اور بھلائی کے ہیں خصوصاً جب کوئی نیکی اپنے کمال کو پہنچ جائے تو اسے لفظ ”خیر“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خیر کی جمع خیرات ہے، ہر وہ کام جو خالق کی خوشنودی اور مخلوق کی فلاح و بہبود کے لیے کیا جائے، خیر کے ہی زْمرے میں آتا ہے۔انسان فطرتاً خیر کا طالب ہے اور شر سے گریزاں ہے۔ ہر بچہ دین فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے۔ دین اسلام وہ حقیقی راستہ ہے جو ہر نبی نے آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبیؐ تک دکھایا۔ جو لوگ بھی اس خیر سے دور رہے انہوں نے زمین پر ظلم و تباہی برپا رکھی اور جو بھی دین اسلام پر عمل پیرا ہوئے انہوں نے زمین کو جائے امن بنا دیا۔ دین اسلام صرف دنیاوی کامیابی ہی نہیں، بلکہ آخرت میں بھی انسانیت کی خیر خواہی کر کے اْس کو نار جہنم سے بچاتا ہے۔ جو بھی ضابطہ یا تعلیم اسلام میں ہے وہ خیر خواہی ہے۔
جسے اپنا ہم نے سمجھ لیا وہی اپنا بن کے رہا نہیں
اسے کیسے ہم بھی پکارتے کہ گلے سے نکلی صدا نہیں
اسے جیسے رنگ میں دیکھئے وہ فریب اپنی نظر کا ہے
ہے خیال اپنے دماغ کا، وہ بھلا نہیں وہ برا نہیں
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
دوستو دین اسلام کی تمام عبادات کا مقصد دراصل انسانیت کو دوسروں کی خیر خواہی کے لیے تیار کرنا ہے۔ مثال کے طور پر کلمہ توحید، بت پرستی سے نجات دلاتا ہے۔ نماز مساوات انسانی کا مظہر ہے۔ روزہ، غریبوں کے لیے ہم دردی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ نظام زکوٰۃ سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ حج، مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرتا اور انہیں ایک امّت بناتا ہے۔ جہاد، ظلم کو روکتا اور مظلوم کی مدد کرنا سکھاتا ہے۔ انصاف حق دار کو اس کا حق دیتا ہے۔
آج کے مسلمانوں کے حوالے سے بات کی جائے تو اکثریت میں وہ جذبہ خیر خواہی نظر نہیں آتا جو اسلام کی اصل روح ہے۔ اسلام، دین خیر خواہی ہے، دین ہے تو سلامتی ہے، خیر ہے، امن ہے اور انصاف ہے۔ لادینیت ہو تو دہشت گردی ہے، تباہی ہے، بے امنی ہے۔ درحقیقت دین اسلام خیر خواہی کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔
اپنی اولاد یا بہن بھائی، بیوی بچے ہوں یا دیگر رشتہ دار۔ ان سے خیر خواہی کا مطلب صرف یہی ہے کہ ان کی مادی ضروریات کو استطاعت سے بڑھ کر پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ شادی بیاہ، فوتگی، پیدائش کے ضمن میں رائج رسوم رواج کے گرداب میں خود کو الجھا لیا جائے۔ نہیں اس عمومی سوچ کے برعکس حقیقت بڑی واضح ہے، خیرخواہی اہل و عیال، عزیز و اقربا کے لئے ا سے کہیں بڑھ کر اور ناقبل بیان جذبہ سلیمی ہے۔
خیر خواہی حقیقتاً اسی سوچ، فکر، تڑپ اور احساس کا نام ہے جو اپنے پیاروں کو جہنم کا راہی بنتے دیکھ کر کڑھتی ہے اور انہیں صراط مستقیم کا راہی بنانے پر اپنی تمام کوششیں صرف کر دیتی ہے،خود غرض بننے سے روکتی اور درد مندی پیدا کرتی ہے، اپنے پیاروں کے غلط افعال کے لئے تاویلیں پیش کرتی ہے اور نہ ہی حمایت، بلکہ بہترین حکمت عملی سے ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتی اور انہیں دہرانے سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ محبت اور خیر خواہی میں فرق سیکھئے لہذا کوشش کریں کہ کسی کو غلط بات اور غلط مشورہ نہ دیں ورنہ یہ سب تو لوٹ کر واپس ہی آئے گا۔