لیڈر کو منطق کی بات کرنی چاہئے

تبدیلی کی خواہش ہر پاکستانی کو تھی اور ہے۔ بہتر معیار زندگی ،مہنگائی میں کمی،ضروریات زندگی تک آسان رسائی،بہتر روزگار اور سر پر چھت جس کے خواب وہ پچھلے چند برسوں سے دیکھتے آرہے تھے اور عمران خان کے آنے پر ان کی تکمیل کی امید زندہ رکھے ہوئے تھے، لیکن عمران کی حکومت کی تیاری نہ ہونے سے یہ تبدیلی ایک سیاسی نعرہ لگنے لگی ہے۔
لوگوں کی مشکلات پہلے سے بڑھ رہی ہیں۔ باد نسیم باد سموم محسوس ہونے لگی ہے ۔عام آدمی کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں۔تبدیلی جس انداز سے آنی چاہئے تھی یہ اس کے بالکل برعکس دکھائی دے رہی ہے۔
بیتے ہوئے موسم کی صدا سے بھی ملے ہیں
کچھ زخم تازہ ہوا سے بھی ملے ہیں
کپتان کو کاروبار حکومت چلانے کے لئے بہترین لوگوں کا انتخاب کرنا چاہئے تھا۔اقتدار ملنا کوئی بڑی بات نہیں ۔تاریخ میں کیسے کیسے حکمران آئے اور چلے گئے اصل بات اپنے عہد کو زندہ رکھنا اور اپنے نام کو عقیدت بخشنا ہے۔حکمت کاری کی ضرورت ہے اداکاری کی نہیں اور نہ ہی پچھلے وقتوں کی ناکامیوں پرہر وقت راگ کوسوی کی ۔آپ نے اپنے عہد میں جینا ہے اس عہد کو تابناک بنائیں جو گزر گیا وہ گزر گیا دن رات اس کے قصے قوم کو بار بار سنانے سے قوم میں سوائے مایوسی کے اور کچھ اضافہ نہیں ہو رہا۔
قمیض پھٹ جائے تو بخیہ گیری کی جاتی ہے بخئے ادھیڑنے پر نہیں لگ جاتے ۔بارشیں نہ ہوں تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرشکوے لے کر نہیں بیٹھ جاتے کوئی کنوا ں کھودا جاتا ہے اور زمین سیراب کی جاتی ہے۔
حکمران اپنے عہد میں جیتا ہے اور اسی کا ذمہ دار ہے ۔گزرے وقتوں کا نوحہ کرکے حالات میں تبدیلی ممکن نہیں ۔حسد و انتقام کی آبیاری سے فصل گل نہیں اُگے گی،نفرت کی جھاڑیا اور دمبی سٹی ہی ملیں گی،جنہوں نے کمانا ہو وہ دوسروں کی کام چوری اور فراغت کا بہانہ نہیں بناتے،بلکہ کدال پکڑ کر محنت کا آغاز کرتے ہیں۔عشق رستے میں پہاڑ جیسی مشکلات دیکھ کر واویلا نہیں شروع کر دیتا ،پہاڑ کھود کر رستہ بنا لیتا ہے۔
کپتان کو اب اندازہ ہوگیا ہوگا کہ لیڈر کو وہی کہنا چاہئے جو قابل عمل ہو۔لیڈر کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ قوم کو مشکلات سے نکلنے کا اصل رستہ بتائے اور انہیں ذہنی طور پر تیار کرے۔ ہوائی قلعے قائم کرنے اور غیر منطقی بیانات دے کر قوم کو جھوٹی امیدیں دلانے سے بہت جلد قوم کی یہ امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں اور لیڈر خود اپنے بیانات سے انحراف پر مجبور ہوتا ہے۔اصل مسئلہ جو آج حکومت کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ کپتان نے قوم کو غیرمنطقی ،غیر سنجیدہ اور جھوٹی امیدوں سے مسائل کا حل چٹکی بجاتے ہی کرنے کا پختہ یقین دلا رکھا تھا جیسے کہ اقتدار میں آئیں گے تو بیرون ملک آباد پاکستانی ڈالروں کی بارش کردیں گے،آئی ایم ایف کے پاس جانے سے خود کشی بہتر ہوگی ،بجلی و گیس سستی ہو جائے گی،ٹیکس نیٹ ورک اتنا بڑھ جائے گا کہ معیشت خود بخود سنبھل جائے گی یہ سب باتیں اس چیز کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ سوشل و اکنامکس معاملات پر ماہریں سے مشاورت نہیں کی جاتی تھی اور نہ ہی اصل معاملات سے مکمل آگاہی تھی بس یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ اقتدار ملتے ہی معجزے رقم ہوں گے اور ہر کام راتوں رات ٹھیک ہو جائے گا، جبکہ لیڈر کا ذہن مکمل طور پر واضح ہونا چاہئے اور کسی بھی قسم کا ہیجان یا معلومات کی کمی ساری قوم کومایوس کر سکتی ہے۔
قوم کو معجزاتی اور کرشماتی خواب دکھانے بھی بجائے حقیقت بتانے سے ہی قوم ترقی کے رستے پر قدم بہ قدم یکسوئی سے چل سکتی ہے۔ رات سے دن کے عمل پر اگر کسی سے پوچھا جائے تو کم فہم آدمی یہی کہے گا کہ رات ہمارے سونے سے کٹ جاتی ہے اور ہماری آنکھ کھلنے سے سویرا ہوتا ہے، لیکن جودانشمند ہو گا وہی ایسی بے تکی نہیں ہانکے گا، بلکہ منطق سے بات کرے گا اور حقیقت بیان کرتے ہوئے بتائے گا کہ رات کی تاریکی اُجالے میں یونہی نہیں بدلتی سورج رات سے لڑ کے اُجالا کرتا ہے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں صبح یونہی ہوتی ہے
تیرگی کے دامن پر دِل لہو اُگلتا ہے
لیڈر معاشرے کا دانشمند ترین انسان ہوتا ہے اسے ہمیشہ منطق اور دلیل سے بات کرنی چاہئے، کیونکہ اس کی رہنمائی میں قوم نے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ غلط رستہ غلط منزل کی طرف گامزن کرسکتا ہے، جس کا خمیازہ آنے والی کئی نسلوں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔