قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 104
انہی دنوں میں نے ایک فلم شروع کی جس کا نام تھا ’’اک لڑکی میرے گاؤں کی ‘‘۔ ہر چند کہ میرے استاد احمد ندیم قاسمی اعلیٰ درجے کے سٹوری رائٹر تھے لیکن میں پاشا صاحب کا احسان چکانا چاہتا تھا۔ کہانی میں نے پاشا صاحب سے لکھوا نے کا فیصلہ کیا ۔ میرے ذہن میں یہ بھی تھا کہ یہ فلم کی تکنیک کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں ۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے پہلے تو یہ بات کی کہ آپ مجھے شراب کے خلاف سمجھایا کرتے تھے تو میں تو آپ کے سامنے بیٹھا ہوں۔ اصل میں کوئی چیز بھی حواس کو اعتدال میں رکھ کر نہ کریں تو خرابی کے پہلو نکل ہی آتے ہیں۔
ان کے ایک منیجر حسین شاہ ہوتے تھے۔ وہ کھاتے بہت تھے اور پیٹ کافی بڑھ گیا تھا۔ اور دل کی تکلیف بھی ہو گئی تھی۔ ان سے میری بے تکلفی تھی۔ میں نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ دیکھئے کھانا زیادہ کھانے کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کا پیٹ اتنا بڑھا ہوا ہے۔ اگر یہ حساب سے کھانا کھاتے تو ان کا پیٹ بڑھا ہوا نہ ہوتا۔ اسی طرح اگر آپ میری طرح پیتے تو آپ کا یہ حال نہ ہوتا۔ دیکھئے میں اب بھی ٹھیک ٹھاک ہوں۔ میں گیت نگار سے پروڈیوسر بن گیا ہوں اور آپ پروڈیوسر سے صرف سٹوری رائٹر بن گئے ہیں ۔ خیر وہ میری باتیں سن لیتے تھے۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 103 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پوچھنے لگے کہ کیسے آئے ہو۔ میں نے کہا کہ میں اتفاق سے پروڈیوسر بن گیا ہوں اور آپ سے اپنی فلم کی کہانی لکھوانا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے کہ ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کو کیا نذرانہ پیش کروں ۔ کہنے لگے کہ میں آ پ سے پیسے نہیں لوں گا۔ میں نے کہا کیوں آپ مجھے پیسے نہیں دیتے تھے۔ بلکہ آپ تو مجھے پانچ سو کی بجائے چھ سو روپے دیتے تھے۔ میں نے پوچھا کیا پیش کروں۔ وہ چونکہ اس وقت آؤٹ آف مارکیٹ تھے اور جب آدمی کی مانگ نہ ہو تو وہ پیسے بتاتا ہوا ہچکچاتا ہے کہ کہیں دوسرا فریق بھاگ نہ جائے یا بوجھ محسوس کر کے انکار نہ کر دے حالانکہ میں ان کا معتقد اور احسان مند بھی تھا۔ انہوں نے ڈر کے کہا کہ سات کا ہندسہ بڑ ابرکت والا ہوتا ہے۔ اس لیے سات ہزار روپے ٹھیک ہیں۔ میں نے کہا پاشا صاحب یہ طاق ہندسے والا معاملہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ راؤنڈ فگر ہی بہتر ہوتا ہے ۔ اس لیے آپ یہ معاملہ مجھ پر چھوڑئیے ۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو دس ہزار روپے دوں گا اور یہ پانچ ہزار روپے آپ ایڈوانس رکھ لیجئے ۔ اب آپ مجھے کہانی کا آئیڈیا سنا دیں اور جب کہانی مکمل کریں گے تو باقی پیسے بھی لے لیں۔ لوگ تو عام طور پر صرف ایک ڈیڑھ ہزا ر روپے ایڈوانس دیتے ہیں اور پھر چکر لگواتے رہتے ہیں لیکن میں تو ان کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک آئیڈیا سنایا جو مجھے پسند آیا کیونکہ وہ بہر حال ایک اعلیٰ درجے کے لکھنے والے تھے۔
اب میں اس بات کو ان کی عادت پر لا کر ختم کرتا ہوں۔ ان کی یہ عادت تھی کہ یوں تو تھوڑا سا مبالغہ کرتے تھے لیکن پینے کے بعد انتہائی طور پر گپ ہانکتے تھے ۔ جب میں انہیں اس وقت ملا ہوں جب یہ پیئے ہوتے تو کہتے کہ اچھا آپ کو میرا پیغام نہیں ملا۔ حالانکہ انہوں نے کوئی پیغام نہیں بھیجا ہوتا تھا۔ میں کہتا کہ کیا پیغام بھیجا تھا۔ کہتے کہ میں چار فلمیں شروع کرنے والا ہوں اور ایک ہفتے کے بعد ایک ساتھ ہی چاروں کا افتتاح کرنا ہے اور آپ ان چاروں کا ایک ایک گانا لکھ کر دیں گے۔ پھر کہتے لکھ لیں گے نا۔ میں کہتا کہ میوزک ڈائریکٹر کون ہے۔ کہتے کہ آپ جسے کہیں گے اسے ہی رکھ لیں گے۔ جھوٹ اس بات سے ہی کھل جاتا تھا کہ فلموں کا افتتاح کرنا ہے لیکن ابھی تک میوزک ڈائریکٹر رکھا ہی نہیں ۔ لیکن میں چپ ہو جاتا تھا۔
ان کی یہ عادت تھی کہ وہ پی کر ایک ایسی گپ ہانک دیتے تھے جس سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا تھا لیکن بہر حال گپ ان کی اعلیٰ درجے کی ہوتی تھی۔ چونکہ پڑھے لکھے بھی تھے اور اس وقت ایم ایس سی پاس تھے۔ پھر پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق تھا اور حکیم احمد شجاع کے بیٹے تھے۔ وراثت میں انہیں گفتگو کا سلیقہ اور علمیت کا پسی منظر ملا ہوا تھا۔ اس لیے اگر کبھی محسوس کرتے کہ سننے والے کو اس گپ کا یقین نہیں آرہا تو دلائل سے اسے منانے کی کوشش کرتے۔
ان کے فوت ہونے سے ایک ماہ پہلے میں ان سے ملا تھا ۔ ان کا ایک بیٹا امریکہ گیا ہوا ہے۔ حکیم صاحب جو اثاثہ چھوڑ گئے تھے اس میں مکان وغیرہ شامل تھا۔ اسی مکان میں اب بھی رہتے تھے لیکن اپنے مالی حالات درست نہ تھے۔ میں آخری بار جب ان سے ملا تو کہتے تھے کہ میرا بیٹا امریکہ سے سٹوڈیو کا پورا سامان لے کر آرہا ہے ۔ لیبارٹری کلر ہو گی اور پھر اپنے سٹوڈیو میں اپنی فلمیں بنایا کریں گے ۔ مجھے کہنے لگے کہ آپ کا تو میں نے یہ کیا ہے کہ آپ میوزک کے شعبے کے مکمل انچارج ہوں گے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ یہ وہ خواہشیں ہوتی ہیں کہ جب آدمی بڑے اونچے مقام سے نیچے آکر گرتا ہے۔تو اس کی ناتمام حسرتیں اور آرزوئیں سامنے آجاتی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ یہ مکمل ہو جائیں۔ چنانچہ وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہے ۔ اور اپنے آپ کو فریب دینے کیلئے ایسی باتیں کرتا ہے ۔ یہی حال کچھ پاشا صاحب کا تھا۔
محبوب اختر میرے ان دوستوں میں سے ہیں جنہیں میں بہت ہی عزیز سمجھتا تھا اور جو میرے بہت ہی قریب تھے۔ فلم لائن میں بھی مجھے وہی لے کر گئے جبکہ میرا فلم کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ پھر بھی انہیں مجھ پر اعتماد تھا کہ یہ اچھا کام کرے گا۔ میں نے پارٹیشن سے پہلے ان کی فلم کیلئے دو گانے لکھے اور ان کی مجھ سے جو توقعات تھیں وہ پوری بھی ہوئیں۔ لوگ پوچھتے تھے کہ یہ گانے لکھے ہوئے کس کے ہیں۔ شاعر کو داد اسی وقت ملتی ہے جب گانا ریکارڈ ہو رہا ہو اور کوئی خاص طور پر پوچھے کہ گانا لکھاہوا کس کا ہے ۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 105 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں