قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 87

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 87
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 87

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تخلیق کاروں پر شراب نے بہت برے اثرات کئے۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ بڑی احتیاطی سے شراب پیتے ہیں وہ چالیس اور پنتالیس سال کی عمر کے دوران اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ اور اگر اس عمر سے آگے بڑھ جائیں تو پھر وہ طبعی موت مرتے ہیں ،ورنہ بیالیس اور چوالیس سال کے درمیان مرنے والوں کی لمبی فہرست ہے ۔ ان میں مجاز لکھنؤی بھی شامل ہیں جو اس عمر میں شراب کے ہاتھوں فوت ہو گئے ۔ گانے والوں میں کے ایل سہگل اسی عمر میں چلے گئے۔ میوزک ڈائریکٹر وں میں شام سندر اسی عمر کے دوران وفات پا گئے۔ اکتر شیرانی نے بھی اسی عمر میں وفات پائی۔ شاد امرتسر بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ لیکن یہ ایک لمبی فہرست ہے۔
جو پینے ولے اس عمر سے آگے بڑھ گئے ان میں سید عبدالحمید عدم، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری اوردوسرے شامل ہیں۔ یہ فہرست بھی بڑی طویل ہے ۔ ان میں جوش صاحب کچھ قاعدے سے پیتے تھے۔ ان تینوں شعراء نے بڑی لمبی عمر پائی۔ لیکن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بے اعتدالی سے پینے والے لوگ بیالیس اور چوالیس سال کی عمر کے دوران اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں اور اللہ کو کیا بلکہ شراب کو پیارے ہو جاتے ہیں۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 86  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شراب کے ذکر کے سلسلے میں ہم غور کریں تو مارشل لاء کے دوران ضیاء صاحب کے سلسلے کے اسلام میں شراب نوشی کے خلاف بہت زور دیا گیا اور اس کی ممانعت پر بھی زور دیا گیا۔ اگر شراب کی پاکستان میں بندش ہوئی تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کے حکم سے ہوئی۔ جب ان کا زوال آچکا تھا تو انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا دینے کیلئے جو دو چار قدم اٹھائے تھے اور جن میں ان کا مسلک شامل نہیں تھا ،ان میں سے ایک شراب پر پابندی بھی تھی ۔ لیکن ہم اس چکر میں پڑے بغیر کہ انہوں نے شراب بندی کیوں کی۔ یہ مان لیتے ہیں کہ مکمل شراب بندی بھٹو صاحب نے کی۔ اس پر بظاہر بہت عمل ہوتا رہا لیکن چند روز پہلے میں نے ’’نوائے وقت ‘‘ کا ایک نوٹ پڑھا جس میں لکھا تھا کہ ہمارے ملک میں جو شراب بنتی ہے اور جو غیر ممالک سے غیر قانونی طور پر سمگل ہو کر آتی ہے اس کے علاوہ ہماری حکومت نے دو کروڑ روپے کی شراب در آمد کی ہے ۔ میں یہ پڑھ کر حیرت میں نہیں
ڈوبا کیونکہ میں دورانِ پردہ باتیں جانتا ہوں کہ اس ملک میں شراب اسی طرح پی جا رہی ہے اور یہ شراب کون مہیا کرتا ہے یہ بھی سب جانتے ہیں۔ چھوٹے موٹے آدمی جن کا آگے پیچھے کوئی نہیں ہوتا وہ ضرور پکڑے جاتے ہیں لیکن استطاعت رکھنے والا حلقہ اسی طرح پیتا رہتا ہے ۔ یہ سب کچھ کیسے ہو رہا ہے یہ میرے بتانے کی بات نہیں۔
وہ لوگ جو شراب سے ڈر گئے تو وہ اب ہیروئن کی طرف چلے گئے ۔ یہ ایک ایسی خبر ہے جو یقینی طور پر انسان کو قتل کر کے رکھ دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیروئن اور شراب سے بڑھ کر جس چیز کے خلاف مہم چلانی چاہئے وہ تمباکو نوشی ہے ۔ ہیروئن تو اکثر بھٹکے ہوئے لوگ پیتے ہیں اور یہ بہت مہنگی چیز ہے ۔ اس طرح شراب بھی ایک مہنگی چیز ہے اور اس کا عام طور پر شام کا وقت ہوتا ہے ۔ لیکن سگریٹ تو لوگ صبح بیدار ہونے سے لے کر رات سونے تک پیتے رہتے ہیں اور یہ وہ ہلکا زہر ہے جوآہستہ آہستہ پورے جسم میں سرایت کرتا رہتا ہے ۔ یہ زہر کبھی تپ دق پر منتج ہوتا ہے تو کبھی کینسر پر ۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو سگریٹ نوشی اعصاب کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے اور بینائی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔
میں نے کبھی کسی مسجد میں کسی مولوی کو سگریٹ کے خلاف تقریر کرتے نہیں دیکھا بلکہ صوبہ سرحد میں تو کچھ مولوی حضرات منہ میں نسوار رکھ کر تقریر کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر میں عالم دین ہوتا مگر مولوی نہیں تو یہ برحق ہے کہ قرآن مجید میں شراب کی شدید ممانعت کا ذکر آیا ہے مگر میں اپنے کام کا آغاز سگریٹ نوشی کے خلاف بات سے کرتا کیونکہ اس کے حلقہ اثر میں زیادہ لوگ ہیں اور پھر تمباکو جتنی قاتل چیز ہے شراب نوشی اتنی مہلک نہیں۔ اور پھر ہیروئن کو میں تمباکو نوشی کے بعد دوسرے نمبر پر کھتا اور شراب کے خلاف ان دونوں کے بعد ہی بات کرتا ۔
آج پاکستان میں جس رفتار سے ہیروئن اور سگریٹ نوشی بڑھ رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ آئندہ دس پندرہ برس میں ہمارا ہیروئن بنانے والا طبقہ ہیروئن سمگل کرتے ہوئے اپنے ملک کی کثیر آبادی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو اس برے وقت سے بچائے ۔ جس چیز کو کچھ جرائم پیشہ افراد نے اپنا ذریعہ معاش بنا رکھا ہے مجھے ڈرلگتا ہے کہ وہ کہیں اس قوم کیلئے ذریعہ موت نہ بن جائے۔ ہمارے شاعروں میں کچھ مثالیں موجود ہیں۔ ساغر صدیقی مرحوم چرس سے شروع ہوئے تھے اور مشاعروں میں سے کچھ آمدن بھی تھی جس سے چرس خرید لیتے تھے لیکن یہ چرس بڑھتے بڑھتے مارفیا پر منتج ہوئی۔ اور ہر وقت ان کے ہاتھ میں سرنج رہنے لگی۔ وہ مارفیا کا ٹیکہ لگواتے رہتے تھے ادھر ان پر ازخود رفتگی کا دورہ شروع ہو گیا اور مشاعروں سے بھی غیر حاضر رہنے لگے۔ فلم میں بھی گیت نگاری میں ان کی بڑی اچھی شہرت تھی مگر ادھر بھی نہیں گئے اور آخر یہ ہوا کہ انہوں نے تکیہ پکڑ لیا۔ کالے کپڑے پہن لیے اور مارفیا تک پہنچے ۔ اس وقت چونکہ ہیروئن نہیں تھی اس لیے وہ مارفیا تک پہنچے ۔ اگر آج وہ ہوتے تو ہیروئن تک پہنچتے مگر ہمارے مذہبی حلقوں میں اس وقت بھی مارفیا کا کوئی ذکر نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔
شراب سے مرادشراب ہی نہیں بلکہ ہر وہ نشے والی چیز جو انسان کی بربادی کا باعث بن سکتی ہے وہ بھی شراب ہے اور جس طرح ہم شراب کو حرام سمجھتے ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم باقی چیزوں کو بھی اسی طرح حرام سمجھیں۔ مارفیا، چرس ، ہیروئن اور سگریٹ سب ایک جیسی ہی چیزیں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سگریٹ بے ہوش نہیں کرتا لیکن اس کے پورے مضر اثرات کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ دوسرے نشوں سے کم نہیں ہے۔
اب صاحب منبر کو چاہئے کہ ان چیزوں سے بھی وہی سلوک کریں جو وہ شراب سے کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جس چیز کا ذکر قرآن مجید میں موجود نہیں ہے اور جو اس زمانے میں موجود نہیں تھی اسے یہ مضر چیزوں سے خارج کردیں۔ یقیناًیہ بھی سب شراب ہی کے قبیل کی چیزیں ہیں۔ بلکہ شراب سے بھی زیادہ مضر چیزیں ہیں۔(جاری ہے )

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 88 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں