بجلی کمپنیوں پر شور شرابا اور خاموشی
میڈیا پر کچھ چیزیں ایک دم سے سامنے آتی ہیں اور پھر ہر طرف ان کے حوالے سے ایک کہرام برپا ہو جاتا ہے۔ مختلف لوگوں کے لیے میڈیا کے دروازے اچانک کھلتے ہیں اور وہ ان پر کھل کر بولنا شروع کر دیتے ہیں،ٹاک شوز کے میزبان اور سوشل میڈیا پر سیاسی ایشوز پہ بات کرنے والے ایک دم سے ایکٹو ہو جاتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں جیسے آناً فاناًسامنے لائی جاتی ہیں اسی طرح اچانک غائب بھی ہو جاتی ہیں۔ اب عام لوگوں کو بھی محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ مقاصد کارفرما ہوتے ہیں، کچھ امور پر پریشر بلڈ اپ کرنا ہوتا ہے اور جب وہ حاصل کر لیاجائے تو خبریں بھی اچانک سے غائب ہو جاتی ہیں۔ بجلی بنانے والی کمپنیز کے حوالے سے جس طرح شور برپا ہوا اور بڑے بڑے نام اس میں میڈیا کے ذریعے سامنے لائے گئے کہ یہ لوگ دراصل ان کمپنیوں کے بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں جو حکومتی ایوانوں میں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں اور ان ہی کے سبب یہ کمپنیاں کچھ کام کئے بغیر بے لگام معاہدوں کے تحت اربوں روپیہ کماتی چلی جا رہی ہیں۔انھی خبروں سے معلوم ہوا کہ یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے اور قوم کا قیمتی سرمایہ یہ کمپنیاں بغیر بجلی پیدا کیے ہڑپ کرتی چلی جا رہی ہیں اور ان میں بیشتر وہ لوگ ہیں جو آج بھی بڑے عہدوں پر موجود ہیں۔عام لوگ میڈیا کی ان رپورٹس کے ذریعے کیسی کیسی ہوشربا کہانیوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور چند دن تو ایسا لگتا ہے کہ اب یہ مسئلہ حل ہو کر ہی رہے گا۔ لیکن کہانی کا دوسرا رخ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے کہ جس میں ایک دم سے ہی یہ خبریں میڈیا، سوشل میڈیا اور اخبارات سے ایسے غائب کر دی جاتی ہیں جیسے یہ کبھی کوئی معاملہ تھا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی اب میڈیا کے اس گھناؤنے کردار سے بھی اکتا چکا ہے کہ جہاں حقیقی مسائل کو بھی چند مذموم مقاصد کے لیے کسی غیبی اشارے پر ابھارا جاتا ہے اور پھر ایسے ہی کسی اشارے پر اسے ایسے غائب کر دیا جاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ بجلی بنانیو الی کمپنیوں کے حوالے سے ہوشربا انکشافات نے سچی بات ہے کہ ایک بار تو ہر ذی شعور پاکستانی کو ہلا کر رکھ دیا کہ کیسے قوم کا پیسہ عرصہ دراز سے ان مافیاز کی جیبوں میں جا رہا ہے جو ایک طرف ملک کے وسائل اور اختیارات پر بھی قابض ہیں اور دوسری طرف قوم کا قیمتی سرمایہ بھی ان لوگوں کی دسترس میں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اب بجلی کا بل ادا کرنا اچھے خاصے مڈل کلاس کی پہنچ سے بھی باہر ہو چکا اور اس سبب اس کی چوری بھی پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے کہ لوگ اب اس کو بھی جائزسمجھنے لگے ہیں کیونکہ کل آمدن سے بھی زیادہ بجلی کے بل لوگوں نے گھروں کی چیزیں بیچ کر ادا کئے۔ اس سے بھی اگلی تباہ کن صورت حال یہ ہے کہ ان سے جان چھڑانے یا اس کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔پنجاب حکومت کی طرف سے صوبے کے عوام کو دو ماہ کے بلوں میں ریلیف کا اعلان کیا گیا ہے جو بہت خوش آئند ہے لیکن اس معاملے کا کوئی کوئی مستقل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو ایک عفریت کی صورت اس قوم کو چمٹ چکا ہے۔ اس معاملے میں دیا جانے والا ریلیف لائق تحسین سہی لیکن یہ سٹریچر پر پڑے مریض کو مصنوعی آکسیجن لگانے کی طرح ہے جس سے چند سانسیں تو بحال ہو سکتی ہیں لیکن زندگی کا پہیہ رواں نہیں ہو سکتا۔اس معاملے میں چند سوال بہت اہمیت کے حامل ہیں جو ہر باشعور پاکستانی کے دل میں موجود ہیں کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے بجلی جیسی بنیادی ضرورت کے لیے بجلی پیدا کرنے کے ذرائع پر کام کرنے کی بجائے قوم کا مستقبل ان کمپنیوں کے ہاتھ میں دے دیا جو اب عام آدمی کے لئے گلے کا پھندا بن چکی ہے۔اس کے بعد اگر یہ بن بھی گئیں توصورت حال کا ادراک ہوتے ہوئے بھی کسی حکومت یا دیگر قوتوں نے ان کے راستے میں بند نہیں باندھا اور اب صورت حال قابو سے باہر ہونے سے بھی آگے گزر چکی ہے تب بھی یہ کمپنیاں اپنی جگہ پر قائم و دائم ہیں۔ اس دوران ہر سیاسی جماعت کی حکومت آئی یا کسی نہ کسی سب حکومت کا حصہ رہے لیکن کسی نے اس پر آواز نہیں اٹھائی جس کا مطلب ہے کہ سب کہیں نہ کہیں اس ساری صورتحال کی سنگینی کے ذمہ دار ہیں۔اس دوران ہماری ساری انڈسٹری تباہ ہو گئی، ایکسپورٹ ختم ہو گئیں، سینکڑوں کی تعداد میں کارخانے صرف بجلی کے ریٹ کی وجہ سے بند ہو گئے اور ان سے منسلک ہزاروں ورکرز بے روزگار ہوئے۔گھریلو استعمال کی بجلی کے بل کو ادا کرنا مڈل کلاس آدمی کے لیے بھی ڈراؤنا خواب بن چکا ہے تو کارخانے کیسے رواں ہو سکتے ہیں۔ہر دور میں حکومتی ذرائع بین الاقوامی کمپنیوں کے اعداد وشمار کو بنیاد بنا کر اپنی کارکردگی عوام کے سامنے رکھتی ہیں جوسرا سر ناانصافی ہے۔ اب بین الاقوامی اعداد و شمار پیش کرنے والے اداروں کی رپورٹس سے باشعور اور حالات کی چکی میں پسے پاکستانیوں کو مطمئن کرنا ممکن نہیں رہا بلکہ اب زمینی حقائق کو سامنے رکھ کے بات کرنا ہو گی۔ جب تک آئی پی پیز کے معاملے کو حل نہیں کیا جاتا اور ان کمپنیوں کے ساتھ کئے جانیو الے قوم دشمن معاہدے ختم نہیں ہوتے، انڈسٹری اور کارخانے آباد نہیں ہو جاتے، بجلی کے ٹیرف کے مطابق بدلتے ریٹ کا ظالمانہ سسٹم تبدیل نہیں ہو جاتا، مفت بجلی استعمال کرنے والوں کی مراعات ختم نہیں کی جاتیں کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے۔