زندگی خواہشوں پر نہیں اپنے زور بازو سے گزارنے پڑتی ہے، اللہ آپ کیلئے جو راستہ متعین کر تا ہے وہی سب سے بہتر ہوتا ہے ہمیں سمجھ دیر سے آتی ہے

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:81
failure is a word unknown to me.۔عمر بھر یہ فقرہ مشکل اور ناکامی کی صورت میں مجھے ہمت اور آس دلاتا رہا۔
ابتداء میں مجھے ائیر فورس کا پائلٹ بننے کا جنون تھا لیکن آنکھ میں لگنے والی چوٹ نے میری اس خواہش اور اس باب کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا تھا۔ ویسے بھی زندگی خواہشوں پر نہیں اپنے زور بازو سے گزارنے پڑتی ہے۔ اللہ آپ کے لئے جو راستہ متعین کر تا ہے وہی سب سے بہتر ہوتا ہے گو ہمیں سمجھ دیر سے آتی ہے۔ میری یادداشت ہمیشہ ہی شاندار رہی۔ چھوٹی چھوٹی باتیں جو میری عمر کے بچوں کو یاد ہی نہیں رہتی مجھے آج بھی یاد ہیں۔ مجھے اپنا میٹرک اور کالج کا رول نمبر بھی یاد ہے۔میٹرک کا رول نمبر تھا34480 اور کالج کا 79673۔
سر پیچھے والا سن لیں؛
نویں جماعت میں میرا ایک ہم جماعت بڑے بڑے بالوں پر سرسوں کا تیل چوپٹر کر آنے اور خود کو بڑاہیرو سمجھنے والا رشید تھا۔ تھا۔ ایک روز ہمدانی صاحب نے اسے کہا؛”اما میاں!(اما میاں اُن کا تکیہ کلام ہوتا تھا) ذرا کل والا انگریزی کا سبق تو سناؤ؛“ اس نے جواب دیا؛”سر! کل والا نہیں آتا اس سے پچھلے والا سن لیں۔“ انہوں نے جواب دیا؛”اما میاں! وہی سناؤ۔“ اس نے سر کھجاتے کہا؛”سر! اس سے پچھلے والا سن لیں۔“جواب ملا؛”وہی سناؤ۔“ رشید اپنا فقرہ دھراتا رہا اور ہمدانی صاحب اپنی بات۔آخر ان سے نہ رہا گیا اور کہا؛”اما رشید! کتاب کا ٹائٹل پیج آ گیا چلو تم وہی پڑھ دو۔“وہ اسے بھی نہ پڑ ھ سکا۔ ہمدانی صاحب سخت ناراض ہوئے اور بولے؛”اما! تم باپ کا پیسہ ضائع کر رہے ہو۔ لمبے بال اور سرسوں کا تیل کسی کام نہ آئے گا۔ کچھ خیال کرو تیرا باپ غریب آدمی ہے۔ پڑھائی کرو ورنہ تم پاس نہیں ہوگے۔“ اس پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ میٹرک میں فیل ہوا،زندگی میں کتنا کامیاب ہوا معلوم نہیں۔ بابر بھی واجبی طالب علم تھا۔ اس کی زندگی میں دو چیزوں کی بہتات تھی۔ ہنسی، کھلنڈرا پن ااور دوستداری۔ وہ پاکستان رہ جاتا تو اتنا کامیاب نہ ہوتا۔ پہلے سویڈن اورپھر امریکہ چلا گیا۔خوب محنت کی۔ کامیاب ہوا اور اس کامیابی میں بھابھی توحیدہ کا بھی بڑا حصہ ہے۔ یہ امریکہ میں خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے۔ خوش رہو یار۔ حبیب یوسف کسٹم انسپکٹر ریٹائر ہوا۔ وہ ہاکی کا عمدہ کھلاڑی تھا اور اسی بنیاد پرکسٹم میں بھرتی ہوا اور کسٹم کی ہاکی ٹیم کا بھی ممبر تھا۔منیر نقشہ نویسی کرتے کرتے اپنی زندگی کا نقشہ ٹھیک نہ کر سکا تھا۔ عباس کسی عدالتی عملہ سے ریٹائر ہوا۔کالے خاں، فضل الرحمان واپڈا میں تھے۔ اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ نعیم گوہر انجینئر اور عامر ڈاکٹر بنا یہ دونوں اسلام آباد ہیں۔ وسیم اکرم کا سب سے بڑا بھائی نعیم اکرم بھی ہمارا ہم جماعت تھا۔ لاہور میں ہے اورadvertisement agency کا مالک ہے۔خرم لوہے کے خاندانی کاروبار سے منسلک رہا۔ بشیر سعودی عرب چلا گیا۔ بہت سال وہاں گزار کر اب نصیرآباد میں اپنا کاروبار کرتا ہے۔ جاوید کے بھائی کی ٹیلرنگ شاپ تھی جہاں بڑے بڑے نامی فلمی اداکاروں کے ملبوسات سلتے۔ اب یہ کام جاوید کرتا ہے۔ اداکاروں کے کپڑے تونہیں سلتے البتہ مجھے جیسوں کے لئے کپڑے تیار کرتا ہے۔ سلائی کا کام بھی وقت کے ساتھ ساتھ سمٹ گیا ہے کہ اب ریڈی میٹ ملبوسات کا زمانہ ہے۔ایک اور دوست گیلانی اب دنیا میں نہیں رہا۔ اس کے دل کا سوراخ اسے موت کی وادی میں لے گیا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔