وزیر’’اطلاعات ومعافیات‘‘ پنجاب

وزیر’’اطلاعات ومعافیات‘‘ پنجاب
 وزیر’’اطلاعات ومعافیات‘‘ پنجاب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کرکٹ ٹیم کے شیر جو دوبئی میں رنز کا ڈھیر لگا دیتے تھے وہ ساؤتھ افریقہ میں ڈھیر ہو گئے ، ساؤتھ افریقہ کی طرف سے کئے گئے اس کلین سویپ پر پاکستان کرکٹ بورڈ ایک کمیٹی بنائے گا جو شکست کی وجوہات تلاش کرے گی ، مثال کے طور پر اگر وجوہات کا پتا چل بھی جائے تو کیا پاکستان کی شکست واپس ہو جائے گی یا وہ شکست فتح میں بدل جائے گی ۔ پاکستان کے مختلف اداروں میں ہونے والی کوتاہیوں کو سمجھنے کے لئے کمیٹیاں بنتی ہیں اور اُن کے ممبرز میں وہ لوگ شامل کئے جاتے ہیں جن کا اُس موضوع سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ جس موضوع پر کمیٹی بنائی جاتی ہے ۔

اِسی طرح پاکستان کے اسٹیج کو ’’ گندہ ‘‘ کس نے کیا ؟ فحش اور ذو معنی جملوں اور ڈائیلاگ کا سلسلہ کیوں شروع ہوا ؟ اسٹیج پر ڈرامہ کم اور ’’ مجرے ‘‘ کی کیفیت زیادہ نظر آئی اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ اسٹیج ڈرامہ دیکھنے کے لئے کچھ ایسا کیا جائے کہ جس سے فیملیز کا رجحان ڈرامہ کی طرف ہو اور وہ بلا جھجھک بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر ڈرامہ دیکھ سکیں ۔اِن موضوعات پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے ممبران کا شو بز سے تعلق کم ہی نظر آتا ہے ۔

صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات فیاض الحسن چوہان جو آئے دن کبھی اسٹیج اداکاروں ، صحافیوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے معافیاں مانگتے نظر آتے ہیں انہوں نے انتہائی عجلت میں اسٹیج کا گند صاف کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ۔اس کمیٹی کے ممبران کی تعداد 34ہے کمیٹی کے چیئر مین انس اسلم دولہ ، وائس چیئر مین ایم عاطف چوہدری ، ڈائریکٹر آرٹ ذوالفقار علی زلفی،ایگزیکٹو ڈائریکٹر ثمن رائے ، نوید بخاری ڈپٹی ڈائریکٹر ، صغریٰ صدف ، سعدیہ سہیل رانا ایم پی اے اور اسی طرح کچھ اداکاروں کو بھی کمیٹی کا ممبر بنایا گیا ہے ۔

حیران کن بات یہ ہے کہ کمیٹی میں وہ اداکار بھی شامل ہیں جنہوں نے اسٹیج کو ذو معنی فقروں اور بیہودہ ڈانس سے گدلا کیا ہے ۔اسٹیج کی قتالہ اداکارہ میگھا کہ جس کو وزیر اطلاعات موصوف انسان بنانے کا دعویٰ کر بیٹھے تھے اور کہا تھا کہ میں اسے سیدھا کر دونگا ، اُسی میگھا سے معافی بھی مانگی اور اب میگھا کو کمیٹی کا ممبر بھی بنا دیا گیا ہے ، حالانکہ اسٹیج کی تاریخ گواہ ہے کہ تھیٹر میں میگھا نے ہی پہلا ڈانس کیا تھا اور وہ ڈانس ایک طوائف کے کردار میں تھا اب وہی ’’ میگھا ‘‘ بیہودہ ڈانس کو کیسے کنٹرول کرے گی ؟

سینئر اداکار عرفان کھوسٹ بھی کمیٹی کے ممبر ہیں ، اور کہا جا رہا ہے کہ انہیں اس کمیٹی کا چیئر مین بنایا جائے گا ، یہ فیصلہ یا خیال بھی یقیناً غلط ہے کیونکہ عرفان کھوسٹ کافی عرصہ ہوا سے اسٹیج سے دُور ہیں وہ موجودہ اسٹیج کی حالت کے بارے میں یا اسٹیج کے ماحول کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے معلومات نہیں رکھتے ، چیئر مین اُس اداکار کو بنایا جانا چاہیئے جو موجودہ دور میں اسٹیج پر کام کر رہا ہو اور جس نے اپنی مزاحیہ اداکاری کے جوہر ہمسایہ ملک ہندوستان میں دکھائے ہوں اور وہاں پاکستان کا جھنڈا گاڑا ہو ، میری مراد’’ نسیم وکی ‘‘سے ہے وہ موجودہ دور کا اچھا ہدائیتکار، مصنف اور ایکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اداکاری کے تمام رُموز سے واقفیت رکھتا ہے ایسے اداکار کو کمیٹی کا چیئر مین بنایا جانا ضروری ہے چونکہ نسیم وکی وہ واحد ڈرامہ نگار ، ہدائیتکار اور اداکار ہے جس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ ایسا ڈرامہ پیش کرے جسے فیملیز بھی پسند کریں اور وہ اس کام میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے ، نسیم وکی جیسے صلاحیتوں کے مالک افراد کو ایسی کمیٹیوں کے ذریعے سامنے لایا جائے تو شائد اسٹیج اور تھیٹر پر تبدیلی نظر آ جائے ۔

وزیر اطلاعات و نشریات موصوف کو چاہیئے کہ وہ اسٹیج پر ڈانس کو درست کرنے یا ڈانس کے حوالے سے مشورے لینے کی بجائے ڈانس کو اسٹیج پر بند کرنے کے احکامات صادر فرمائیں ، ذو معنی جملوں کی بجائے حکومتی ادارے از خود ڈرامہ کے سکرپٹ کا مطالعہ کریں اگر وہ غیر معیاری ہو تو اُسے فوری طور پر منسوخ کرکے اُس کی جگہ اچھا اور تعمیری سکرپٹ لکھوایا جائے اور اُسے ڈرامے کی صورت میں پیش کیا جائے ۔

ڈرامے کا ٹائم ٹیبل درست کیا جائے ، سردیوں اور گرمیوں کے اوقات علیحدہ علیحدہ ہوں ، ہال میں غل گپاڑہ کرنا ، نشے کی حالت میں جانا اور لڑائی جھگڑے کی ممانعت ہونی چاہیئے ، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اداکاروں کا تحفظ یقینی بنایا جائے ، کیونکہ آج کل جس کا جی چاہتا ہے وہ اداکاروں کی تذلیل کرنے میں کوئی جھجھک یا ڈر محسوس نہیں کرتا ، لاکھوں روپے کمانے والے اداکار صرف اسٹیج کے گندے ماحول کی وجہ سے بدنام ہیں اور ماحول کی گندگی کی بڑی وجہ ڈراموں میں ہونے والے مجرے ہیں ۔پنجاب بھر کے تھیٹرز میں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ٹکٹ پر جو ٹیکس وصول کرتا ہے اُس میں بھی خرد برد ہوتی ہے جس سے حکومتی خزانے کو بیش قیمت نقصان پہنچ رہاہے ، کیونکہ اگرایک لاکھ روپے کے ٹکٹ فروخت ہو ں تو اُس میں جو ٹیکس کی شرح بنتی ہے وہ ٹھیک طریقے سے وصول نہیں کی جاتی اور ہال کے مالکان ، ڈرامہ پروڈیوسرز ٹیکس لگانے والے آفیسرز کے ساتھ مل کر قومی خزانے میں جانے والی ٹیکس کی رقم میں ہیر پھیر کرکے کم ٹیکس وصول کرتے ہیں ، پنجاب بھر میں 50 کے لگ بھگ تھیٹرز ہیں اگر ہر تھیٹر کا ایک شو ایک لاکھ کا سمجھ لیا جائے تو کل رقم 50لاکھ بنتی ہے حالانکہ کئی تھیٹرز میں ایک شو پانچ سے آٹھ لاکھ کا بھی ہوتا ہے ، اب ان لاکھوں روپوں کے ٹکٹس پر جو ٹیکس کی رقم بنتی ہے وہ رقم اگر صحیح طریقے سے قومی خزانے میں جائے تو حکومت کا خاطر خواہ فائدہ ہو سکتا ہے ، چاہیئے تو یہ کہ ٹیکس چوری پکڑی جائے لیکن وزیر اطلاعات و نشریات فیاض الحسن چوہان نے اسٹیج پر ڈانس ٹھیک کرنے کا بیڑہ اُٹھا لیا ہے ، اب بھی وقت ہے وزیر موصوف کو چاہیئے کہ وہ آؤ کمیٹی کمیٹی کھیلیں والا پروگرام بند کریں اور تھیٹرز کو فیملیز کے لئے مختص کرنے اور ٹیکس کی چوری میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا کوئی ’’دوا دارو ‘‘ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بار وزیر اطلاعات و نشریات کو ایک اداکارہ یا صحافیوں کی بجائے سارے پنجاب سے معافی مانگنی پڑے ۔

مزید :

رائے -کالم -