سندھ کا 12کھرب 18ارب روپے کا بجٹ پیش ، تنخواہوں اور پنشن میں 15فیصد اضافہ
کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک،این این آئی)سندھ کے آئندہ مالی سال 2019-20کا12کھرب 18ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے۔ نئے مالی سال میں بورڈ آف ریونیو کو وصولیوں کا ہدف 145ارب مقرر کیا گیا ہے جبکہ 835ارب روپے وفاق سے محصولات کی مد میں وصول ہوں گے جو مجموعی بجٹ کا 74فیصد ہے۔بجٹ میں ترقیاتی فنڈز کی مد میں 283.5ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ترقیاتی فنڈز میں ضلع اے ڈی پی کے 228ارب بھی شامل ہیں۔ حکومت سندھ نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ 15فیصد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امن و امان کیلئے 110 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پولیس میں 3690سپاہی اور 4500افسربھرتی کیے جائیں گے۔ ایچ آئی وی اور خون کے امراض کی تحقیقات کیلئے ایک ارب مختص کیے گئے ہیں۔وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے جمعہ کو آئندہ مالی سال-20 2019کےلئے 1217ارب کا صفر خسارے بجٹ پیش کیا جس میں انہوں نے بورڈ میں 15فیصد تنخواہ اور پنشن اضافہ کیا ہے۔ بجٹ میں پیپلز پرامس پروگرام جوکہ چیئرمین پیپلز پارٹی نے اپنے انتخابی مہم کے دوران غربت کے خاتمے کےلئے ایک پروگرام کا اعلان کیا گیا تھا رکھا گیا ہے۔
آئندہ مالی بجٹ میں بجٹ کے تخصیص کے لحاظ سے پہلی ترجیح تعلیم ، صحت اور پھر امن و امان کو دیا گیا ہے۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے وفاقی ٹرانسفرز کے 665.085 بلین روپے کے بجٹ تخمینہ سے 631.543 بلین روپے کی منظوری دی ہے، لیکن اس طرح کے دعوے گمراہ کن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت اپنی مالی حیثیت کا جائزہ لینے میں ناکام رہی اور غلطی سے دو دن کے معاملات میں نظر ثانی شدہ وفاقی ٹرانسفارمرز کے دو مختلف اعداد و شمار کو مطلع کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 11 ماہ میں، سندھ کو فیڈرل ٹرانسفرز کے حساب سے صرف 492.135 بلین روپے وصول ہوئے اور یہ متوقع ہے کہ مالی سال کے اختتام تک یہ کمی 117.527 بلین روپے تک پہنچ جائے۔سندھ اسمبلی میں صوبائی بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے کہا کہ لگتا ہے کہ وفاقی حکومت نے کچھ اور ہی فیصلہ کیا ہوا ہے اپنی نا اہلی اور کام نہ کرنے کے رجحان کے ساتھ وفاقی حکومت نے جانتے بوجھتے پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود کوخطرے کے نشان پر رکھ دیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی تمام تر توانائیاں لوگوں کی خدمت کرنے پر صرف کر دی ہیں۔
انھوں نے بتایاکہ موجودہ وفاقی حکومت کی کام میں عدم لچسپی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنی محصولات کی وصولی کے اہداف کے حصول میں متواتر نا کام ہورہی ہے۔ 11 ماہ میں 447 ارب روپے کی ریکارڈ کی کے ساتھ ایف بی آر کی کارکردگی گزشتہ سال کے دوران کم ترین سطح پررہی ہے نتیجتاً سندھ کو اس کے حصہ سے محروم رکھا گیا ہے اور وفاقی حکومت سے ہی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے ہمیں 117.5 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔
وزیراعلی سندھ نے کہا کہ در حقیقت رواں مالی سال وفاقی حکومت نے اپنے سالان ترقیاتی پروگرام (ADP) میں سندھ کو مکمل نظر انداز کیا ہے سندھ کے لئے صرف 50 اسکیمیں رکھی گئی ہیں ہمیں ADP کا3.5 فیصد مل رہا ہے وفاقی حکومت کی سندھ اور اس کے عوام کے ساتھ کھلی دشمنی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس حکومت سندھ نہ صرف محصولات وصول کر رہی ہے بلک محصولات کی وصولی کے اہداف کوبھی عبور کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت کے اداروں اور وہ جو دیگر صوبوں میں ہیں کے برعکسSRBواحد محصولات وصول کرنے والا ادارہ ہے جو تواتر کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ 11-2010 کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکس وصولی فقط 16.6 ارب روپے تھی لیکن سندھ حکومت نے رفتہ رفتہ این ٹیکس وصولیوں اضافہ کیا اور سال 18-2017 کے دوران ہم نے 100 ارب روپیلس وصول کیا جبکہ آئندہ مالی سال 20-2019 کے لئے ہم نے ٹیکس وصولی کا ہدف 145.0 ارب روپے مقرر کیا ہے۔
وزیراعلی سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے نشاندہی کی ہے کہ وفاقی متقلوں کے بجیٹری تخمینہ 665.085 ارب روپے پرنظرثانی کر کے 631.543 ارب روپے کر دیا گیا ہے لیکن تمام دعوے گمراہ کن ہیں۔ وفاقی حکومت اپنی مالی حالت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہی ہے اور کچھ ہی دنوں میں غلطی سے دو مختلف نظر ثانی شدہ متقلوں سے متعلق اعدادوشمار سے صوبوں کو مطلع کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 11 ماہ میں سندھ نے وفاقی منتقلیوں کی مد میں صرف 492.135 ارب روپے وصول کئےہیں۔ رواں مالی سال کے اختتام پر وفاقی منتقلیوں میں شارٹ فال 117.527 ارب روپے تک متوقع ہے۔ وفاقی حکومت آمدن بڑھانے میں ناقص کارکردگی کا الزام فیڈرل بورڈ آف ریونیو پر عائد کر رہی ہے لیکن یہ بالکل عیاں ہے کے ڈھانچے میں اصلاحات لا نا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کو اشیا پرسیلز ٹیکس وصول کرنے کی پیش کش کی تھی کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ اشیا پرسیلز ٹیکس صوبوں کو متتقل کرنے سے گوشواروں میں بلند ترین اضافہ ہوسکتا ہے جیسا کہ خدمات پرسیلز ٹیکس کے معاملے پر کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے تو میں مالیاتی ایوارڈ پراتفاق رائے پیدا کر نے کا کوئی حقیقی ارادہ نہیں کیا۔ ایوارڈ کے اعلان میں تاخیرصوبوں کے حقوق کی قیمت پر کی گئی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبائی آمدن کے اہداف 243.082 ارب روپے سے نظر ثانی کر کے 240.746 ارب روپے کردیئے گئے ہیں اس کے نتیجے میں تخمینہ شدہ کٹر کی رقم 1.123 ٹریلین روپے کے مقابلے میں رواں مالی سال میں نظر ثانی شدہ وصولیاں 940.777 ارب روپے تک رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وصولیوں میں کمی کے باعث ہم نے اپنے ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی ہے جو کہ رواں مالی سال میں 172.941 ارب روپے تک رہے ہیں۔ یہ ہمارے اہداف حاصل کرنے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔متعددتر قیا تی منصوبوں جو کہ مل کئے جا سکتے تھے، تم کی عدم موجودگی کے باعث تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں۔ انھوں نے مزید کہاکہ اسی طرح رواں آمدن کی مد میں تخمینہ 773.237 ارب روپے پرنظر ثانی کر کے 751.752 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ رواں آمدن کی مد میں کی بنیادی طور پر انتہائی سادگی کے اقدامات اور تخت مال نظم و ضبط کے بنا پر ہوئی ہے۔ مالی سال 19-2018 کے دوران انتظامی اخراجات میں کمی کی گئی ہے۔ محکموں کی مرتی اور دیکھ بھال کے اخراجات کی بجٹ میں خاطر خواہ کی کر کے 30 . 8 ارب روپے سے 26.8 ارب روپے کر دی ہے۔
انتظامی امور کے اخراجات کی مد میں چوھی سہ ماہی کے بجٹ کا جزوی حصہ جاری کیا گیا ہے۔ تمام مالی مشکلات کے با و جو ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کوشش کی ہے کہ صحت او تعلیم کی سہولیات کیلئے خاطر خواہ بجٹ مختص کی جائے۔ ہم نے سماجی شعبہ کے اداروں کی گرانٹس میں بڑی کھی کرنے سے گریز کیا ہے ہم نے ایس آئی یو ٹی (SIUT)، انڈس ہاسپٹل، ہیڈز (HANDS)،امن فانڈیشن اور سندھ ایجوکیشن فانڈیشن وغیرہ جیسے اداروں کی بہتری کیلئے اقدامات کئے ہیں۔ ان اقدامات کے باعث ہم اپنے اخراجات کے تخمینے پر نظر ثانی کرنے کے قابل ہوئے اور 1 . 144ٹریلین روپے پر نظر ثانی کر کے 956.779 ارب روپے گئے ہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ اس کے نتیجے میں رواں مالی سال میں متوقع خسارہ 20 .457 ارب روپے کے مقابلے میں 16 ارب روپے رہے گا۔ میں ایک مرتبہ پھر اس بات کا اظہار کر رہا ہوں کہ بروقت اخراجات میں کی اور سادگی کے اقدامات اپنانے کی وجہ سے ہم خسارہ کم کرنے کے قابل ہوئے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ 2019-20میں صوبے کی وصولیوں کا تخمینہ 1.218ٹریلین روپے ہے جبکہ اخراجات کا تخمینہ1.217 ٹریلین روپے ہے۔ وفاقی منتقلیوں کے طور پر صوبے کو 835.375 ارب روپے وصولی کی توقع ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ہونے والی وصولیاں کل وصولیوں کا 74 فیصد ہیں۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ تعلیم سے کسی بھی فرد، معاشرے اور ریاست کی مجموعی ترقی کو جانچا جاتا ہے۔ یہ وہ بنیادی چٹان ہے جس پر خوشحالی اور انسانی ترقی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے تعلیم انسانوں کو اعلی ظرف بنائی اور برداشت، رواداری ،سماجی انصاف اور جمہوری رویوں کوفروغ دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے لئے وسائل مخت کرتےوقت اسے تمام دیگر شعبوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔اگلے مالی سال20-2019 کے لئے اسکول ایجوکیشن میں غیر ترقیاتی بجٹ سال 19-2018کے170.832 ارب روپے سے بڑھا کر 178.618 ارب روپے کیا جارہا ہے۔ جبکہ تر قیاتی اخراجات کی مد میں اے ڈی پی 20-2019 کے لئے 15 .15 ارب روپے کئے گئے ہیں۔