بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی۔ اسلام میں سخت ناپسندیدہ عمل
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر چھ میں سے ایک 60سال کی عمر کے بزرگ کو کسی نہ کسی طرح بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے خواہ وہ بدسلوکی اہل خانہ کی طرف سے ہو یا معاشرے کی طرف سے۔عمررسیدہ افراد اس بدسلوکی پر احتجاج بھی نہیں کرپاتے۔اعدادوشمار کے مطابق کورونا وائرس کے دور میں بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کی شرح میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کے دوران ان کو شدید جسمانی و ذہنی نقصان کا خطرہ عام انسانوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کی روک تھام کا شعور بیدار کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سن2011ء میں ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت ہر سال 15جون کو بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 60سے 65 سال کی عمر کے افراد کا شمار معاشرے کے عمررسیدہ افراد میں ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ دہائیوں میں دنیا کی آبادی کی تشکیل میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی آئی ہے۔سن 1950ء سے 2010ء کے درمیان دنیا بھر میں متوقع عمر 46 سے 68 سال تک تھی جبکہ عالمی سطح پر سن 2019ء میں متوقع عمر 65 سال یا اس سے زیادہ ہوگئی،اس وقت ایسے افراد کی مجموعی تعداد 703 ملین تھی۔رپورٹ کے مطابق اگلی تین دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہونے کا امکان ہے جو سن 2050ء میں 1.5بلین سے زیادہ تک پہنچ جائے گی۔ دنیا بھر میں سن 2019ء اور 2050ء کے درمیان عمر رسیدہ افراد کی آبادی کے حجم میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔رپورٹ کے مطابق مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیاء میں عمر رسیدہ افراد کی تعدادبڑھے گی۔سن2019ء میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد 261ملین تھی، جو 2050ء میں بڑھ کر 573 ملین تک پہنچ جائے گی۔اسی طرح شمالی افریقہ اور مغربی ایشیاء میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافے کی توقع ہے جو 226 فیصد اضافے کے ساتھ سن 2019ء میں 29 ملین سے بڑھ کر سن 2050ء تک 96 ملین تک ہوجائے گی۔
پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق کل آبادی کا چار اعشاریہ دو فیصد حصہ بزرگ شہریوں پر مشتمل ہے۔ 2050ء تک یہ تناسب 15اعشاریہ آٹھ فیصد تک پہنچ جاہے گا۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں اوسط عمر ساڑھے 66 برس ہے اورپاکستانی خواتین کی اوسط عمر تقریباً 67 سال جبکہ مردوں کی اوسط عمر لگ بھگ 65برس کے برابر ہے۔اسلام میں بزرگوں کو اہمیت اور خاص مقام دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کو جھڑکنے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کو سخت نا پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرواور والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔اگر تمہارے سامنے دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بھی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہو، انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ نرم دلی وعجزو انکساری سے پیش آنا“۔اسی طرح نبی کریم ؐ نے نہ صرف بزرگوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرمائی، بلکہ عملی طورپر ایسا نمونہ بھی پیش کیا جو دنیا کے ہر فرد کے لئے ایک مشعل راہ ہے۔ایک بوڑھی عورت آپ ؐ پر روز کوڑا پھینکتی تھی، لیکن آپؐ نے کبھی اسے برا بھلا نہ کہا۔ایک دن جب وہ بوڑھی عورت بیمار ہو گئی اور کوڑا نہ پھینکا تو آپؐ اس کے گھر چلے گئے،اس کے گھر کو صاف کیا،پانی بھرا اور تیمارداری کی۔آپؐ کا حسن سلوک دیکھ کر وہ بوڑھی عورت مسلمان ہوگئی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیروبرکت ہے،پس وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی بے ادبی کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے۔“اسی طرح نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ”بڑوں کی تعظیم و توقیر کرو اور چھوٹوں پر شفقت کروگے تو تم جنت میں میری رفاقت پا لو گے“۔اسلامی معاشرے میں آج بھی بزرگوں کا ادب و احترام پایا جاتا ہے جسے مزید فروغ دینے کے لئے نوجوان نسل کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا،کیونکہ اگر آج ہم بزرگوں کا احترام کریں گے تو کل ہم بھی اسی عزت و احترام کے حقدار بن سکیں گے۔