بھارت میں شہریت کا نیا قانون نافذ
مودی حکومت نے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل مودی سرکار نے مسلمانوں کے خلاف ایک اور اقدام کرتے ہوئے متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ نافذ کر دیا۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کا نفاذ بی جے پی کے 2019 کے انتخابی منشور کا لازمی حصہ تھا۔ قانون کے تحت بھارت کے پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر مسلموں کو بھارت کی شہریت دی جائیگی جو31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آئے تھے۔
مسلمان گروپوں، انسانی حقوق تنظیموں، سول سوسائٹی نے قانون کو مسلم دشمن قرار دیا ہے۔ مسلمان گروپوں کے مطابق قانون بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیلئے نافذ کیا گیا ہے۔ حکومت اس کے مسلم مخالف ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ مسلمان اکثریتی ملکوں میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی اقلیتوں کی مدد کے لیے اس قانون کی ضرورت ہے۔مودی حکومت نے 2019 میں شہریت کے متنازع قانون کی منظوری دی تھی۔ متنازع بل کی منظوری کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے، جن میں درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔مسلم گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون، شہریوں کی ایک مجوزہ قومی رجسٹریشن کے ساتھ مل کر، بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ، جو دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، تعصبانہ سلوک کر سکتا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ حکومت کچھ سرحدی ریاستوں میں ان مسلمانوں کی شہریت ختم کر سکتی ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔
شہریت قانون بل بھارت کی پارلیمانی تاریخ کے متنازع ترین قوانین میں سے ایک ہے۔ وزیرِ داخلہ امت شاہ نے 9 دسمبر 2019ء کو بھارت کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں لوک سبھا میں شہریت ترمیمی بل پیش کیا تھا۔ جسے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔ اس کے خلاف بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہے ہوئے، جس کا سلسلہ بھارت کے کچھ حصوں میں سال بھر تک جاری رہا۔ مظاہروں اور فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد اس پر عمل درآمد کے ضابطے تشکیل نہیں دیے تھے۔
شہریت کے اس ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے تحت ان ہندو، پارسیوں، سکھوں، عیسائیوں اور بودھ اور جین مت ماننے والوں اور دوسروں کو بھارت کی شہریت دی جا سکتی ہے جو 31 دسمبر 2014 سے قبل مسلم اکثریتی ملکوں، افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے فرار ہو کر ہندو اکثریتی ملک بھارت میں آئے ہوں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے شہریت قانون کو نافذ کرنے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے، جب ملک بھر میں رمضان کا آغاز ہو چکا ہے اور کچھ ہی دنوں میں عام انتخابات کا اعلان بھی متوقع ہے۔
مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالا تھا جس کے بعد سے ترقی، معاشی بہبود، انفراسٹرکچر کے فروغ اور جارحانہ ہندو قوم پرستی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔
بھارت کی مسلم تنظیموں نے شہریت سے متعلق نئے قانون کے نفاذ کو ’امتیازی سلوک‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ، ”سی اے اے، مساوات اور انصاف کے بنیادی اصولوں کو مجروح کرتا ہے۔ ہم عام انتخابات کے اعلان سے عین قبل شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے نفاذ کی شدید طور پر مذمت کرتے ہیں۔“اس درخواست میں بھی یہی دلیل دی گئی ہے کہ سی اے اے ”غیر آئینی اور امتیازی“ ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ہے۔
یہ قانون اس تصور کی بنیاد پر مذہبی اقلیتی باشندوں کو بھارتی شہریت دیتا ہے کہ انہیں ان تینوں مسلم اکثریتی ممالک میں اپنے مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا رہتا ہے۔ اس ایکٹ میں مذہبی وابستگی کی بنیاد پر مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا، جو بھارتی آئین کے تحت مساوات اور سیکولرزم کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہے۔ یوں اس قانون کے ساتھ مساوی سلوک کا اصول بھی مجروح ہوتا ہے۔ یہ امتیازی قانون سازی ملک کے سماجی تانے بانے کے لیے خطرہ ہے، جو شمولیت اور تنوع کے بنیادی اصولوں کو ختم کر رہی ہے۔“
ملکی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی اور دیگر علاقائی پارٹیوں نے بھی اس قانون کے نفاذ پر شدید تنقید کی ہے اور اس اقدام کو ”عام انتخابات سے قبل عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش“ کا نام دیا ہے۔جنوبی ریاستوں کیرالہ، تامل ناڈو اور مغربی بنگال کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان یونین ریاستوں میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کی اجازت نہیں دیں گے۔
یہ قانون اس تصور کی بنیاد پر مذہبی اقلیتی باشندوں کو بھارتی شہریت دیتا ہے کہ انہیں ان تینوں مسلم اکثریتی ممالک میں اپنے مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا رہتا ہے۔ابتدا سے ہی اس قانون پر سخت تنقید ہوتی رہی ہے اور اسے جانبدارانہ قرار دیا گیا۔ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں زبردست مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ حکومت نے تاہم ان مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں ڈال دیا تھا، جن میں سے متعدد اب بھی قید میں ہیں۔