’’حسین لوگ نظر کی کمائی ہوتے ہیں‘‘
گورنمنٹ فقیر محمد فقیر پوسٹ گریجوایٹ کالج میں ایک محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ پروفیسر آصف جاوید (پرنسپل)کی زیر سیادت اور پروفیسر بشارت علی فیضی (شعبہ اُردو) کی زیر نظامت ہونے والے اس عظیم الشان مشاعرے کی صدارت معروف شاعر، جانِ ادب جناب جان کاشمیری نے کی، جبکہ انتظامات میں پروفیسر مرتضیٰ گوندل،پروفیسر بے نظیر قاضی، پروفیسر احمد رضا یوسف،پروفیسر اشتیاق علی کے علاوہ کالج کی ’’بزم فروغ سخن ‘‘ کے ذیشان،اریض اور نعمان پیش پیش تھے۔اس عظیم الشان مشاعرے میں کالج کے طلباء کے علاوہ مُلک کے نامور شعرائے کرام نے اپنا اپنا کلام سنا کر حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔
کالج کے طلباء و طالبات کے علاوہ جن نامور شعرائے کرام نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین و ناظرین کیا ان میں سید عباس زیدی، ڈاکٹر سعید اقبال سعدی، قاضی اعجاز محور،عصمت نذیر، پروفیسر نائلہ بٹ، شاہد فیروز،افضل سراج، خبیبہ ارتقائی، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر انوار احمد اعجاز، عادل بادشاہ، اقصیٰ لیاقت، ڈاکٹر امین جان، یوسف کھوکھر،سعد احمد سعد، وحید انصاری، اجمل ہاشمی،ریحان اصغر اور فجر شامل تھے۔تمام شعرائے کرام کی جانب سے پیش کیا جانے والا کلام عمدہ اور قابلِ داد تھا۔ حاضرین نے دل کھول کر داد دی اورحظ اٹھایا۔
پرنسپل پروفیسر آصف جاوید نے اپنے خطاب میں کالج کی نصابی و علمی اور ادبی سلسلے میں کی جانے والی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کالج جو بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے نام سے منسوب ہے در اصل طلباء کے لئے یہ ایک پیغام بھی ہے کہ اگر آپ علم و ادب کے کسی بھی میدان میں مثالی خدمات سرانجام دیتے ہیں تو مُلک و قوم آپ کے نام کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیتی ہے، جس کی عمدہ ترین مثال یہ کالج ہے، جس کو ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی مثالی خدمات کے اعتراف میں ان کے نام کے ساتھ منسوب کر دیا گیا ہے۔ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے نواسے اور عزیزی سہیل احمد کے حقیقی بھائی پروفیسر اورنگزیب نے کہا کہ ہمارے نانا جی کو اپنی مادری زبان پنجابی سے خاص لگاؤ تھا۔ انہوں نے ساری زندگی اپنی ماں بولی کی آبیاری کی۔اس کی ترویج و ترقی کے لئے بے پناہ جدو جہد کی۔ پنجابی نثر کے علاوہ شاعری کے میدان میں بھی پنجابی کو نئے افکار اور جدت سے نوازا۔ شاعری میں ان کی پسندیدہ صنف نعت تھی۔
وہ نعتِ رسول مقبولؐ کو عبادت اور ذریعہ نجات سمجھتے تھے۔ ان کی نعتیں پڑھ کر آج بھی روح تازہ ہو جاتی ہے اور عشق بنیؐ کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ پروفیسر اورنگزیب نے یہ بھی بتایا کہ ان کے نانا بذاتِ خود بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ نعت پڑھتے تھے اور نعت پڑھتے پڑھتے ان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ جایا کرتا تھا۔ رسولِ خداؐ سے ان کی عقیدت ان کا سرمایہ حیات تھا۔
مہمان اعزاز تسنیم احمد چیمہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گورنمنٹ فقیر محمد فقیر پوسٹ گریجوایٹ کالج کو یہ منفر اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے طالب علموں کی تربیت ان خطوط پر کرتا ہے، جس کے بعد یہاں کا پڑھا ہوا طالب علم مستقبل کا ڈاکٹر فقیر محمد فقیر ہوتا ہے۔
انہوں نے پرنسپل پروفیسرآصف جاوید اور ان کی پوری ٹیم کو زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا، جنہوں نے نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نہایت مفید معاون نصابی سرگرمیوں کو بھی فروغ دے رکھا ہے، جن سے طلباء میں آگے بڑھنے اور نام پیدا کرنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیگر کالجوں کے پرنسپل صاحبان کو بھی ان کی تقلید کرنی چاہئے۔ محفل مشاعرہ میں تمام نامور شعراء نے اپنا اپنا کلام پیش کر کے خوب داد سمیٹی۔ جگہ کی قلت کے سبب سب کا کلام پیش کرنا ممکن نہیں، سو احباب سے معذرت ۔نمونہ کے طور پر مشاعرہ میں پڑھے گئے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
دیکھ لے جو بھی تجھے دل کو فدا کر بیٹھے
مَیں تو انسان ہوں فرشتہ بھی خطا کر بیٹھے
یہی تو ذاتِ خدا تک رسائی ہوتے ہیں
حسین لوگ نظر کی کمائی ہوتے ہیں
(جان کاشمیری)
مرا خیال تھا مَیں بے خیال بیٹھا ہوں
کہ ہر طرف سے خیالات مجھ پہ ٹوٹ پڑے
سو گڑ بڑا کے زمینِ ادب پر آتے ہی
قلم کی ناک جو رگڑی حروف پھوٹ پڑے
(سید عباس زیدی)
آخر میں اپنی پیش کردہ غزل کے دوشعر:
جاگا جو شہر یار تو حیرانیاں ملیں
اس کو تمام شہرمیں ویرانیاں ملیں
سنسان محل تھے کہ وہاں ڈھونڈنے سے بھی
راجے ملے کہیں، نہ کہیں رانیاں ملیں