قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 105
محبوب اختر کے بڑے بھائی فضل الرحمان اشک اپنے زمانے میں ایک مختصر عرصے تک شاعری بھی کرتے رہے۔ اور ان کا ایک شعر تھا:
وہ لوگ رہ زیست میںیاد آئے ہیں اکثر
جن لوگوں نے دو چار قدم ساتھ دیا ہے
یہ راولپنڈی میں رہتے تھے اور ایشیا ٹک آپٹیکل کمپنی کے نام سے ان کا ادارہ تھا۔ باہر سے جو شاعر آتے تھے یہ گھر پر ان کی دعوتیں وغیرہ کرتے تھے۔ یہ محبوب اختر کی بات بہت مانتے تھے بلکہ ایک ایسا وقت بھی آیا جب پورا خاندان ان کی بات بہت مانتا تھا۔محبوب اختر کو فلم میں لکھنے کا شوق تھا۔ یہ پارٹیشن سے بہت پہلے ممبئی گئے اور وہاں کاردار سٹوڈیو میں ملازم ہوئے۔ جب فلم مغل اعظم کا پہلا ورشن شروع ہوا جو تھوڑا سا فلما کر ضائع ہو گیا تھا۔ اس میں پرتھوی راج ہیرو تھے اور اس فلم کے سینئر یورائٹر محبوب اختر تھے۔ پھر جب بعد میں ’’شاہجہاں ‘‘ فلم بنی تو اس میں بھی یہ سٹوری ڈیپارٹمنٹ میں تھے اور بالآخر پارٹیشن سے پہلے انہوں نے اپنی فلم پروڈکشن کی بنیاد ڈالیاور اس پروڈکشن میں امان اللہ نیازی بھی ان کے پارٹنر تھے جو آخر میں سیکرٹری ڈیفنس تھے اور ہارٹ اٹیک ہو جانے کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 104 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شاعروں کی قدرو منزلت تو محبوب اختر صاحب کے گھر میں تھی ہی ۔ انہیں پینے کی کچھ عادت تھی یہ پنڈی کلب کے ممبر تھے اور جب بھی کوئی دوست پنڈی جاتا تھا تو یہ اسے اپنے ساتھ کلب میں لے جاتے تھے۔ پینے کے بعد ان کی عادت تھی کہ یہ حاتم طائی بن جاتے تھے۔ اور جو نہ مانگو وہ بھی دوسرے کی جھولی میں ڈال دیتے تھے۔ اگر کسی نے کہا کہ مجھے کل دو سو روپے کی ضرورت ہے اور مجھے یہ پیسے ٹیکسلا سے جا کر ہی لانے پڑیں گے تو یہ جیب میں ہاتھ ڈال کر تین سو روپے نکال کر دے دیتے۔
کلب کے ممبر ہونے کی وجہ سے وہاں ان کے دستخط چلتے تھے اور نقد ادائیگی نہیں کرنی پڑتی تھی اس لیے یہ حاتم طائی بن سکتے تھے۔ احمد فراز ان کی بہت اچھی نقل کرتا ہے ۔ اور بتاتا ہے کہ ایک بار انہوں نے بیرے کو بلایا اور کہنے لگے کہ دیکھو بھئی یہ احمد فراز ہیں۔ بہت بڑے شاعر ہیں ۔ انہیں یاد رکھنا یہ میرے دوست ہیں ۔ اس لیے جاؤ اور پہلے تو ہمارے لیے ایک ایک بڑا گلاس لے کر آؤ باقی تمہیں پھر بتا ؤں گا۔ جب بیرا وہ لے آیا تو اس کے منیجر کو بلالیا۔ ان کا نام راجہ احسان تھا اور وہ ان کے دوست ہی تھے ۔ ان سے کہنے لگے کہ راجہ صاحب احمد فراز کو پہچان رکھئے یہ جب بھی اس کلب میں آئیں میرے اکاؤنٹ میں پی سکتے ہیں اس کے بعد ایک بڑا پیگ اور منگوایا ۔ اس طرح باتیں کرتے رہتے اور پیتے رہتے۔ قریب والے میز پر کوئی فارغ بیٹھا ہوتا تو اسے بھی بلوا لیتے اور اپنے اکاؤنٹ میں سے پلاتے اور دستخط کرتے رہتے۔
روزانہ صبح کے وقت دوکان پر بل منگوایا کرتے تھے۔ جب بل آتا تو کہتے کہ اتنا بل کیوں ہے۔ چنانچہ پہلے تو جا کر راجہ صاحب سے لڑتے تھے اور پھر اگلی شام کو دوبار ہ وہی سلسلہ شروع کر دیتے تھے۔ چنانچہ ان کی عادت تھی کہ پینے کے بعد یہ شاہ خرچ بن جاتے تھے اور جو جیب میں ہوتا تھا وہ بھی لٹا دیتے تھے اور جو ویسے مل جاتا تھا تو اسے بھی اپنے اکاؤنٹ سے پلا دیتے تھے۔
خورشید انور ہندو پاک میں ایک ایسا نام ہے جس سے پرانے اور نئے سبھی لوگ واقف ہیں ۔ وہ لاہور کے ایک بہت بڑے وکیل خواجہ فیروز دین کے صاجزادے تھے اور اپنے خاندان کے سب سے زیادہ ہونہار فرد تھے۔ ان کے دادا ڈپٹی کمشنرریٹائر ہوئے تھے اور باقی خاندان بھی اچھے عہدوں پر تھا۔ ان کے بھائیوں میں سے بھی جو جہاں ہے نامور ہے۔ آگے اولاد بھی ماشاء اللہ لائق نکلی ہے۔ جس وقت مسلمان پرائمری پاس نہیں ہوتے تھے خورشید انور نے اس زمانے میں ایم اے کیا تھا۔ اور گولڈ میڈلسٹ کہلوائے۔ جس دن گولڈ میڈل ملنے والا تھا یہ اپنے استاد سے میوزک کی تعلیم لے رہے تھے۔ اور گولڈ میڈل لینے نہیں گئے ۔ اس سے ان کی موسیقی کے جنون کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہ پانچ وقت کے نمازی تھے ۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ کب سے نمازیں ادا کر رہے تھے لیکن میرا جب ان سے واسطہ ہوا تو یہ نمازیں ادا کیا کرتے تھے۔ یہ پارٹیشن کے بعد کی کی بات ہے ۔ انہوں نے ’’انتظار فلم کے لیے مجھے بلایا اور میں نے ان کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اس دوران میں نے نوٹ کیا کہ پانچ وقت کی نماز، ایک وقت کی شراب اور صبح کی تلاوت ان کا روزمرہ کا معمول تھا۔ ڈائریکشن میں انہیں بہت زیادہ ملکہ حاصل تھا لیکن میوزک میں نئے نئے تجربے کرنے کے شائق تھے۔ یہ خود بھی کسی زمانے میں شاعر رہے تھے اور فیض صاحب کے کلاس فیلو رہے تھے۔ اس وقت فیض صاحب کو موسیقی کا شوق ہوتا تھا اور انہیں شاعری کا ۔ پتہ چلا کہ فیض صاحب کا جب شروع میں کسی لڑکی پر دل آیا ہوا تھا تو اسے جو خط لکھا کرتے تھے ان میں سے ایک خط انہوں نے خورشید انور کو کہا ہوا شعر لکھ کر بھیجا تھا۔ یہ بات مجھے خورشید صاحب نے بتائی تھی اور جب میں نے فیض صاحب سے اس کی تصدیق کی تو انہوں نے بھی کہا کہ یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ اس وقت میں شاعر نہیں تھا۔ یہ شاعرتھے۔
میں نے دو آدمیوں کو ایک جیسی شراب پیتے دیکھا ۔ ان میں سے ایک جوش ملیح آبادی تھے اوردوسرے خورشید انور۔ جوش صاحب کو تو پینے کا بڑا اہتمام ہوتا تھا اور وہ عین سورج غروب ہونے کے وقت شراب پینی شروع کر تے تھے اور چاندنی وغیرہ سجا کر بیٹھتے تھے ۔ پھر گھڑی سامنے رکھی ہوتی تھی اور نہ ایک منٹ ادھر ہونے دیتے تھے نہ ادھر۔ ان کا اپنا شعر ہے۔
جب مہرِ مببیں غروب ہوتا ہے
پیمانہ بکف طلوع ہوتا ہوں میں
جوش صاحب دن میں نہیں پیتے تھے اور شام کے وقت گھڑی رکھ کر تین پیگ سو ا دو گھنٹے میں ختم کرتے تھے ۔ خورشید صاحب بھی تین ہی پیگ پیتے تھے اور ایک کوارٹر منگواتے تھے کیونکہ اگر زیادہ شراب پڑی ہوتی تو ادھر ادھر سے لوگ آکر جھپٹ پڑتے تھے۔ یہ اپنے دفتر میں بیٹھ کر پیتے تھے۔ ایک کوارٹر میں ساڑھے تین پیگ ہوتے ہیں۔ یہ اس میں سے تین پیگ پی کر آدھا پیگ چھوڑ دیتے تھے اورکوئی کام کرنے والا لڑکا اپنا شوق پورا کر لیتا تھا۔
پینے کے بعد ان کی عادت تھی یہ مذہب پر بات کرتے تھے۔ ان کے دوست مسعود پرویز بلانوش تھے۔ دونوں قرآن کے بہت اچھے قاری تھے اور انہوں نے بڑی گہرائی سے قرآن مجید کا مطالعہ کیا تھا۔ چنانچہ جب یہ پی لیتے تو دونوں مذہب کے بارے میں بڑی تفصیلی گفتگو کرتے اگر مسعود پرویز نہ ہوتے اور کوئی اور بیٹھا ہوتا تو یہ فن پر ایسی ایسی باتیں بتاتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی کہ ایک وہ شخص جسے اہل موسیقی عطائی کہتے ہیں ۔وہ موسیقی کے بارے میں کیا کچھ جانتا ہے۔ یہ اس کا ثبوت بھی دے گے اور انہوں نے ’’آہنگ خسروی ‘‘ کے نام سے ای ایم آئی کے لیے ریکارڈنگ کی۔ ان کے تقریباً بیس ایل پی ہیں جن میں انہوں نے تقریباً سوراگنیاں تحقیق کر کے اچھے گویوں سے گوائیں اور اصلاح بھی کی۔ جہاں جہاں کوئی غلط گا رہا تھا اس کی اصلاح کی اور انہوں نے مانا کہ یہ اصلاح واقعی ٹھیک ہے ۔ انہوں نے ان راگنیوں کے ساتھ ساتھ NARRATION بھی دی ۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 106 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں