گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 51
اکتوبر ۱۹۴۰ء میں بمباری کافی زور پکڑ گئی تھی۔ جرمنی کے طیارے بلندی پرپرواز کرتے ہوئے آتے تھے اور کچھ دن بعد تو یہ ہوا کہ ہم ان کی آوازہی سے اندازہ لگالیتے تھے کہ یہ دشمن کے طیارے ہیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ان طیاروں کے پائلٹ کسی فنی طریقے سے اتنی کرخت اور گونجدار آواز پیدا کرتے ہیں تاکہ زمین پر معین دفاعی عملہ سراسیمہ ہو جائے۔ میرے مکان کے قریب ہی زبردست بمباری ہوئی تھی ، لیکن خوش قسمتی سے میرامکان بچ گیا۔ میں نے یہ طے کیا کہ بمباری کی بدترین صورت حال سے بچنے کے لیے انڈیا ہاؤس میں منتقل ہو جاؤں۔ کنکریٹ اور سیمنٹ کی یہ عمارت میں ۲۵فٹ گہرا تہ خانہ بھی تھا عملہ کی ایک خاصی بڑی تعداد نے بھی وہیں پناہ لی تھی ۔ وہاں میں ایک سفیر چار پائی پر سوتا تھا۔ ایک بار ایک بہت بھاری بم کوئی ساٹھ گز کے فاصلے پر آکر گرا۔ اتنے زور کا دھماکہ ہوا کہ میری چارپائی سیمنٹ کے فرش سے اُچھل پڑی اور جب گری تو جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی ۔ لیکن عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ ایک اور بم ہماری عمارت کی چار دیواری سے کوئی دس گز دور ’’شارٹس وائن سیلر ‘‘ پر گرا۔ اس سیلر ’تہ خانہ ‘ میں شراب کی بوتلیں بھری ہوئی تھیں۔ تمام بوتلیں ٹوٹ گئیں اور تہ خانے سے شراب کو پمپ کے ذریعے نکالنا پڑا۔ بہت سے لوگوں کو یہ صدمہ تھا کہ اتنی اچھی چیز کتنی بُری طرح ضائع گئی ہے۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 50 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک دن میں انڈیا آفس میں نہا رہا تھا کہ ایک بم بالکل قریب آکر گرا۔ پوری عمارت ہل گئی اور مجھے یوں لگا جیسے آخری وقت بس آہی گیا ہے ۔ ذرا دیر بعد میں نے یہ دیکھنے کے لیے آنکھیں کھولیں کہ زندہ ہوں یا مردہ۔ لیکن ہر چیز معمول کے مطابق نظر آئی ۔ میں غسل خانہ سے نکلا، ڈریسنگ گاؤن پہنا اور عمارت میں یہ دیکھنے کیلئے گھومنے لگا کہ اس کے کسی حصہ کو نقصان تو نہیں پہنچا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہر طرف خیریت ہے ۔ حکومت نے رات میں پہرہ داری کی ایک سکیم رائج کی تھی۔ اس وقت تک چونکہ آتش گیربم خاصی تعداد میں گر چکے تھے اس لیے حکومت کی نگرانی کا بندوبست کرے میں نے بھی اپنے دفتر میں رات کی پہرہ داری کا انتظام کیا۔ میرا قرعہ اپنے اردلی کے ساتھ نکلا جس کا نام ہف تھا۔ ہم دونوں چھت پر پہرہ دینے کیلئے پہنچے۔ صرف دو گھنٹہ کی پہرہ داری تھی لیکن ہم نے طے کیا کہ اکٹھے چار گھنٹہ پہرہ دیں گے تاکہ بعد میں بے فکری کے ساتھ سوسکیں۔ ہمارے اس فیصلے پر دوسرے لوگ بھی رضامند ہو گئے تھے۔ ہم چھت پر گئے ہی تھے کہ بمباری شروع ہو گئی۔
بڑی بھیانک رات تھی۔ دشمن کے طیارے ہمارے سروں سے گزر رہے تھے اور لندن کی بندرگاہ پر بم برسارہے تھے۔ ایک آتش گیربم ہماری عمارت کے سامنے آکر گرا تھا۔ چار گھنٹہ کی پہرہ داری کے بعد جب ہم نیچے اُترے تو سب اچھا کا سائرن سنائی دیا۔ اس کے بعد تو ہر شخص نے اعلان کر دیا کہ صرف دو گھنٹہ کا پہرہ دوں گا ، چار گھنٹہ کا ہر گز نہیں۔
ایک دن کوئی پانچ بجے تھے کہ بیٹھے بیٹھے اکتاہٹ سی محسوس ہوئی اور نے چہل قدمی کے لیے باہر نکلنے کا ارادہ کیا۔ لوہے کی ٹوپی سر پر رکھی اور مسٹر ینڈ سے ہوتا ہوا ٹرافلگر سکوائر کی طرف چل پڑا۔ خیال تھا کہ وہاں سے سیدھا ہائیڈ پارک کی طرف جاؤں گا۔ لیکن ابھی بمشکل سوگز کا فاصلہ طے کیا تھا کہ سڑک کی دوسری جانب ایک دکان کے پیچھے دو بم آکر گرے۔ لوگوں میں بھگڈر مچ گئی اور وہ قریب ہی جوتوں کی ایک دکان میں چھپنے کے لیے گھس پڑے لیکن دکان کے مالک نے کہا کہ ایک پناہ گاہ ملحقہ دروازے کے اندر ہی ہے چنانچہ میں بھی وہاں پہنچا۔ لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ نیچے اُترنے کیلئے اس قدر زینے طے کرنے پڑیں گے۔ نیچے ، اور نیچے اور نیچے اُترتا ہوا بالآخر دریا کے کنارے تک جا پہنچا ۔ اگلے وقتوں میں سامان دریا کے راستے لاتے تھے۔ اور لوگوں کو شہر میں لے جانے کے لیے یہ زینوں والا راستہ استعمال کیا جاتا تھا۔ ہر طرف اندھیرا تھا اور فضا نمانک تھی۔ میں نے یہاں سے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو میری نظر ایک بوڑھے اور بڑھیاں پر پڑی جو اینٹوں کے فرش پر اخبار بچھارہے تھے اور بوڑھا کہہ رہا تھا۔’’جانم ، آج کی رات یہیں گزرے گی‘‘ اسی لمحہ مجھے کلام پاک کی وہ آیت یاد آئی جس میں کہا گیا ہے ’’اے محمد ! ایمان والوں سے کہہ دو کہ انہیں رات کے اندھیرے سے ، بادلوں کی گھن گرج اور بجلی کے کوندنے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ باری تعالیٰ کی رضا کے بغیر تو یہ بجلی انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
اس آیت مبارکہ کو یاد کرتے ہوئے میرے دل کو بڑی تقویب پہنچی میں سرنگ سے باہر نکلا اور ہوائی حملہ کے باوجود اس چہل قدمی سے نہایت لطف اندوز ہوا۔ رات کو پناہ حاصل کرنے کیلئے عام لوگ زمین دوز ریلوے سٹیشن کے باہر جوانڈیا ہاؤس کے قریب تھا چارہی بجے سے قطار باندھ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ میں ایک بار مانچسٹر سے ٹرین میں رت گئے لندن پہنچا تو ٹیکسی نہیں ملی۔
مجھے اپنا سوٹ کیس اٹھا کر اسی زینے اُترنا پڑا۔ تب میں پلیٹ فارم پر پہنچا جہاں ایک خلقت کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ عورتیں ، بچے اور مرد پلیٹ فارم کے فرش پر برف میں جمی ہوئی مچھلیوں کی طرح اکڑے ہوئے سو رہے تھے۔ ایک ریلوے ملازم نے مجھے بتایا کہ لوگوں کا یہ ہجوم ضابطے کے منافی ہے لیکن جب ضرورت لاحق ہو اور ضابطے عوام کے مفاد ہیں نہ ہوں تو انہیں نظر انداز کر دینا ہی اچھا ہے۔ کاش مشرق کے لوگ بھی اس فقرے کی بصیرت کا اندازہ کرتے۔ اس کے بعد جنگ کے دوران میں ٹیوب سٹیشنوں پر لوگوں کو پناہ دینے کے مستقل انتظامات کر دیے گئے تھے۔
لندن کے شہر یوں کا جذبہ نہایت شاندار تھا ۔ صرف ایک مثال کافی ہو گی چمنی صاف کرنے والی ایک عورت کا بیٹا ہلاک ہو گیا تھا ۔ لیکن وہ معمول کے مطابق علی الصباح اپنی ڈیوٹی پر موجود تھی۔جب میں نے یہ خبر اخبار میں پڑھی تو دل میں کہا کہ حب الوطنی اور جرأت مندی کی یہی وہ صفات ہیں جن سے یہ قوم عظیم ہوئی ہے ۔ وہ ایک غریب مزدور عورت تھی لیکن اس کی جرأت اور جذبہ دیدنی تھا ۔
ایک موقع پر لوگوں نے بینکوں سے اپنی رقمیں نکلوانی شروع کر دیں، کیونکہ ان کے بقول ہٹلر کی فوجیں برطانیہ اُترنے والی تھیں اور ان کا مقصد لندن پر قبضہ کرنا تھا۔ لیکن میں نے بینک سے ایک پینی بھی نہیں نکلوائی ۔ کیونکہ مجھے اس بات کا پختہ یقین تھا کہ اللہ وحد لا شریک کی بزرگ و بالا ہستی ہماری محافظ ہے۔
اور وہ نازیوں کو ہرگز فتح مند ہونے نہیں دے گی۔ میں اکثر یہ سوچ کر حیران ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے آخر دنیا میں جنگ کرنے کی اجازت کیوں دی ۔ جس سے کہ ناقابل بیان مصائب پیدا ہوتے آئے ہیں ۔ اس غورو فکر کے دوران میں مجھے ایک تاریخی واقعہ یاد آیا۔ ایک سکھ گروجنھوں نے مغل شہنشاہ کے خلاف بغاوت کر دی تھی بالآخر گرفتار کر لیے گئے اور انہیں شہنشاہ کے روبرو پیش کیا گیا۔شہنشاہ نے پوچھا کہ تمہارا رویہ شیطانی کیوں ہے؟ اس کے جواب میں گرو نے کہا’’ اس لیے کہ خدا کو ایک شیطان کی ضرورت تھی تاکہ وہ شہنشاہ جیسے شیطان کا خاتمہ کر سکے۔‘‘
شاید جنگ بھی انسانوں کو سزا دینے کا ایک طریقہ ہے ۔ ان جنگوں کی وجہ سے مذاہب کا احیا ہوتا ہے۔ ان دنوں ملحد بھی اپنے قریب گولے پھٹتے دیکھ کر ’’یا اللہ ‘‘ پکار اُٹھتے تھے۔ ممکن ہے کہ کبھی کبھی یہ سزائیں اقوام کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلانے کے لیے دی جاتی ہوں۔ یہاں مجھے نواب مبارزخاں کے بارے میں ایک واقعہ یاد آگیا۔ وہ ایک دن پہلی جنگ عظیم کے زمانہ میں ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کے لیے گئے۔ انگریز افسر نے ان سے پوچھا کہ جنگ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ نواب صاحب نے جواب دیا کہ میرے خیال میں آپ اورآپ کے دوسرے لوگ کمر کمر تک پانی میں کھڑے ہیں ۔ میں تو چاہوں گا کہ یہ پانی آپ لوگوں کو تھوڑی تک آجائے لیکن فی الحال مجھے آپ سب کی جان بخشی منظور ہے کیونکہ آپ اچھے لوگ ہیں اور آپ میں ایسی کوئی بات ضرور ہے ، جو مجھے پسند آئی ہے۔ اس لیے مجھے آپ کی تباہی سے سخت اذیت ہو گی۔ انہوں نے نواب صاحب سے پوچھا کہ آخر آپ کیوں چاہتے ہیں کہ پانی انگریزوں کی تھوڑی تک پہنچ جائے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ’’تم یورپی لوگ دوسرے انسانوں کے ساتھ برابر کا سلوک نہیں کرتے۔ تمہارے دماغ غرور و نخوت سے غباروں کی طرح پھولے ہوئے ہیں اور ان میں ذرا سوئی چبھونے کی ضرورت ہے اور یہ مقصد مصائب و مشکلات کے ذریعہ پورا ہوگا ،،
میرے ذہن میں اس بات کا خفیف سا بھی شائبہ نہ تھا کہ خدا تعالیٰ ہٹلر اور مسولینی کو کامیاب کرے گا۔ اگر وہ فتح یاب ہو گئے ہوتے تو فراعنہ کی طرح خدائی کا دعویٰ کر دیتے اور تمام افریشیائی اقوام کو دائمی غلامی کی چکی میں پیس کر رکھ دیتے۔ان جنگوں نے یورپی اقوام کو کمزور کر دیا ہے اور افریشیائی اقوام کو اُبھرنے کا موقع دیا ہے ، جن کا خام مال اور افرادی قوت جنگ آزماطاقتوں کے لیے بہت بڑا سرمایہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی اقوام کچھ اپنے ضعف کی بنا پر اور کچھ اشترا کی ملکوں کے دباؤ کے تحت اپنی نو آباد یات کو آزادی دینے کی طرف مائل ہوئی ہیں۔ اگر مشرق اور مغرب کے ملکوں میں مفاہمت پیدا ہو جائے تو مشرق وسطی کے حوالے سے مالٹا کی طرح کا کوئی المیہ آیندہ رونما نہیں ہو گا۔امریکہ اور سویت روس آپس میں مفاہمت کر لیں اور سرد جنگ ختم ہو جائے تو وہ بہت سے ملک، جو آج امریکہ کی گائے کو روسی اشتراکیت کے ریچھ سے ڈراکر خوب مزے سے دوہ رہے ہیں اس نعمت سے محروم ہو جائیں گے۔(جاری ہے)