آج بھی ہمارے قدموں تلے زمین تھرتھرا رہی ہے، معیشت، سیاست، جمہوریت کا کیا حال ہے ۔۔؟سینیٹر عرفان صدیقی نے منظر کشی کر دی

آج بھی ہمارے قدموں تلے زمین تھرتھرا رہی ہے، معیشت، سیاست، جمہوریت کا کیا ...
 آج بھی ہمارے قدموں تلے زمین تھرتھرا رہی ہے، معیشت، سیاست، جمہوریت کا کیا حال ہے ۔۔؟سینیٹر عرفان صدیقی نے منظر کشی کر دی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد ( خصوصی رپورٹ ) پانامہ سے اقامہ کشید کرنے  والے تمام کرتب کار آج بھی کامرانی کے احساس سے سرشار اپنی پُرتعیش آسائش گاہوں میں آسودگی بخش زندگی کے مزے لے رہے ہیں لیکن پاکستان اتنے بڑے ریکٹرا سکیل کے زلزلے کی تباہ کاریوں کی زد میں آیا کہ ملبہ سمیٹنے میں نہیں آ رہا۔ آج بھی ہمارے قدموں تلے زمین تھرتھرا رہی ہے۔ معیشت، سیاست، جمہوریت، کسی کی بے قراری کو قرار نہیں آ رہا۔سینیٹر عرفان صدیقی نے سیاسی حالات کی منظر کشی کر دی ۔

"جنگ " میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان "ارتعاشِ مابعد‘ کی زد میں آیا ایوانِ بالا" میں  عرفان صدیقی نےلکھا کہ پانامہ سے اقامہ کشید کرنے، نوازشریف کو اپنی ’’خُودسر‘‘بیٹی کے ہمراہ جیل میں ڈالنے اور 2018ء میں آر۔ٹی۔ایس کی گردن دبوچ کر پروجیکٹ عمران خان کو پایۂِ تکمیل تک پہنچانے والے تمام کرتب کار آج بھی کامرانی کے احساس سے سرشار اپنی پُرتعیش آسائش گاہوں میں آسودگی بخش زندگی کے مزے لے رہے ہیں لیکن پاکستان اتنے بڑے ریکٹرا سکیل کے زلزلے کی تباہ کاریوں کی زد میں آیا کہ ملبہ سمیٹنے میں نہیں آ رہا۔ ارتعاشِ مابعد (After Shocks) کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ لاکھ ہاتھ پائوں مارنے کے باوجود معاملات، معمولات میں نہیں ڈھل رہے۔ صوبائی نگران حکومتوں کا نوے دن کے بجائے کم وبیش ایک سال اور وفاقی نگرانوں کا لگ بھگ 6 ماہ تک کاروبارِ ریاست کی نگہبانی کرنا، انہی ارتعاشاتِ مابعد کا کرشمہ تھا۔ آج بھی ہمارے قدموں تلے زمین تھرتھرا رہی ہے۔ معیشت، سیاست، جمہوریت، کسی کی بے قراری کو قرار نہیں آ رہا۔

کالم میں عرفان صدیقی نے مزید لکھا کہ انہی ارتعاشاتِ مابعد، کے مابین، بالآخر پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینٹ) کی سانسیں بھی بحال ہوگئیں جو 12مارچ سے 9اپریل تک، مسلسل 27 دن، وینٹی لیٹر پہ پڑا رہا۔12 مارچ سے 9 اپریل تک کے 27 دن، سینٹ کی تقویم سے خارج ہوگئے۔ ان گئے دِنوں کا سراغ لگانے کی نہ کسی کو فرصت ہے نہ ضرورت۔ ’’ارتعاشاتِ مابعد‘‘ کے اثرات بہت دیر تک جاری رہیں گے۔ 6برس بعد سینٹ کا کلینڈر 12مارچ سے نہیں، 9اپریل سے شروع ہوا کریگا۔ کیا سینٹ کا مزاج بھی بدلے گا؟ کیا قانون سازی کے عمل کو سنجیدگی سے لیا جائیگا؟ کیا جمہوری اقدار کے احترام اور اختلافی آوازوں کو برداشت کرنے کی روایت بحال ہوگی؟ کیا قائمہ کمیٹیاں مؤثر طورپر کردار ادا کرپائیں گی؟ کیا پھیپھڑوں کو پھاڑ دینے والی کوہ شگاف آوازوں کے بجائے، دھیمے، متین اورسنجیدہ لہجے میں کلام کرنے کی روایت جڑ پکڑ سکے گی؟

کالم کے آخر میں عرفان صدیقی نے لکھا کہ صادق سنجرانی، جس بھی اجرام فلکی کا سیارہ اور نوبت خانے کا نقارہ تھے، بلا کے منصوبہ ساز اور غضب کے ہنرکار بھی تھے۔ ایوان پہ جو گزری سو گزری انہوں نے نہ کبھی اس کی باگیں ڈھیلی چھوڑیں، نہ ایوان کو خود پہ حاوی ہونے دیا۔ اقلیت اور اکثریت سے قطع نظر، وہ ہر معرکےمیں فاتح رہے، چاہے وہ انتخاب کا تھا یا عدم اعتماد کا۔ سید زادۂِ ملتان، سید یوسف رضاگیلانی سَرتا پَا ایک سیاسی شخصیت ہیں۔ ساری عمر اسی دَشت کی سیاحی میں گزاری اور بہت سی اُجلی روایات کے امین ہیں۔ شاید اُن کا چیمبر، آستانہ عالیہ کا تقدس حاصل کرلے، لیکن سنجرانی جیسی کھُلی ڈُلی، قہقہہ بار چوپال نہیں بن سکے گا۔ حکومت ہی نہیں، اپوزیشن کو بھی اُن سے ’’پیرانہ دست شفقت‘‘ کی ڈھیروں توقعات ہیں۔