ارشد ندیم اور 14 اگست
ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں پاکستان کے لیے انفرادی تمغہ 14 اگست سے محض چند روز پہلے حاصل کیا، جس سے ہمارے جشنِ آزادی کی خوشیاں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گئیں۔ یہ خوشیاں بنتی بھی ہیں کہ پاکستان نے کم و بیش چالیس سال بعد اولمپکس مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ سوچ اور فکر کا بھی مقام ہے کہ ہم زوال کی کن ڈھلوانوں پہ آ کھڑے ہوئے ہیں کہ ایک زمانے میں کرکٹ، ہاکی اور سنوکر کا بیک وقت عالمی چیمپئن رہنے والا پاکستان چالیس سال اولمپک تمغے کو ترستا رہا۔ پاکستان نے آخری مرتبہ 1984ء میں فیلڈ ہاکی میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔ ارشد ندیم نے جیولن تھرو (Athletics Javelin Throw) میں اولمپکس کا 118 سالہ ریکارڈ توڑا ہے۔ ارشد ندیم اس سے پہلے بھی عالمی سطح کے کھیلوں میں کئی تمغے جیت چکا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اولمپکس مقابلوں کا تمغہ ایک الگ حیثیت اور اہمیت رکھتا ہے۔ یوں تو جیولن تھرو عرصے سے اولمپکس گیمز کا حصہ ہے لیکن 1986ء، جب جیولن کو دوبارہ ڈیزائن کیا گیا تھا، سے اب تک ارشد ندیم سمیت دنیا بھر کے صرف 24 ایتھلیٹس ہی اس 90 میٹر ایلیٹ کلب کا حصہ بن پائے ہیں۔ ان 24 ایتھلیٹس نے 125 مرتبہ 90 میٹر کی حد پار کی، اور ان میں سے صرف تین تھروز اولمپکس میں ہوئی ہیں، جن میں سے دو ارشد ندیم کی ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کے لیے 15 کروڑ روپے جبکہ ان کے کوچ کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔ چودہ اگست سے ایک رات پہلے وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ارشد ندیم کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اسلام آباد میں ایف نائن اور ایف ٹین کی درمیانی سڑک کو ارشد ندیم سے موسوم کرنے کا اعلان کیا۔ شہباز شریف نے بتایا کہ پیرس اولمپکس میں پاکستان کے گولڈ میڈل جیتنے کے بعد انہوں نے صدر مملکت سے ارشد ندیم کو ہلال امتیاز دینے کی سفارش کی تھی۔ انہیں ہلال امتیاز دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے میاں چنوں میں اولمپین ارشد ندیم کے گھر جا کر انہیں 10 کروڑ روپے اور کار کا انعام دیا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ حکومت ایک ارب روپے سے سپورٹس انڈوومنٹ فنڈ قائم کرے گی جس سے کھلاڑیوں کی مالی مدد کی جائے گی۔ یہ خبریں پڑھ کر اور ٹی وی پر دیکھ کر جسم میں سیروں خون بڑھ جاتا ہے اور سینہ ایسے تن جاتا ہے جیسے یہ کارنامہ ارشد ندیم نے نہیں بلکہ ہم نے سرانجام دیا ہو۔
یوم آزادی پر ہونے والے جشن کو جشن سے زیادہ ہُلڑ بازی کہنے کو جی چاہتا ہے، اور ہلڑ بازی اس لیے کہ 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب سے شروع ہونے والی ہنگامہ آرائی 14 اگست کو رات گئے تک جاری رہی۔ نوجوان اور بچے، لڑکیاں اور لڑکے سڑکوں پر نکل کر اودھم مچاتے رہے، اونچی آواز میں گانے گاتے اور ڈیکوں پر بجاتے رہے، سائیلنسر نکال کر گروہ کی صورت میں موٹر سائیکلیں چلاتے رہے، ون ویلنگ کرتے رہے، قریب سے گزرتی ہوئی فیملیوں اور خواتین پر آوازے کستے رہے، اور سب سے تکلیف دہ معاملہ یہ رہا کہ اونچی آواز میں ایک عجیب سا بے ہنگم آواز والا باجا بجاتے رہے۔ رہی سہی کسر اس بارکریکرز نے پوری کر دی۔ اس شیطانی کھیل پر دنیا کے متعدد ممالک میں اس لیے پابندی لگ چکی ہے کہ بچوں میں اگر لڑائی ہو جائے تو اس سے وہ ایک دوسرے پر حملے کرتے تھے، علاوہ ازیں کریکرز کھیلتے یا بجاتے ہوئے بچوں کے زخمی ہونے کی بھی خبریں آئیں، لیکن پاکستان میں اب اس کا ایک بار پھر آغاز ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا والدین کو یہ ساری ہنگامہ آرائی، یہ ساری ہلڑ بازی نظر نہیں آئی، اور یہ جو باجے ملک بھر میں صوتی آلودگی اور اعصابی تناؤ کا باعث بن رہے ہیں، کیا یہ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کہیں بن گئے تھے، اور پھر انتظامیہ کی نظروں سے اوجھل کہیں فروخت ہوتے رہے؟ در حقیقت یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم نے بطور والدین اور بطور انتظامیہ اپنے نوجوانوں کی کبھی مناسب تربیت کی کوشش ہی نہیں کی، ورنہ انہیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جشن آزادی بے ہنگم باجے بجانا نہیں ہوتا، سائلنسرز نکال کر گروپ کی صورت میں موٹر سائیکلیں چلانا نہیں ہوتا، فیملی اور خواتین پر آوازے کسنا نہیں ہوتا، ہوائی فائرنگ کرنا نہیں ہوتا۔ جشن آزادی دوسرے ممالک میں بھی منایا جاتا ہے، لیکن وہاں سے کبھی ایسی ہلڑ بازی کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ یہ صرف ہم ہیں جنہوں نے لاکھوں قربانیوں سے حاصل کی گئی آزادی کو تماشہ بنا کے رکھ دیا ہے۔
ہر نوجوان توانائی سے بھرپور ہوتا ہے، ہر نوجوان میں کوئی نہ کوئی ٹیلنٹ ہوتا ہے، کوئی نہ کوئی اچھی بات چھپی ہوتی ہے جس کو ڈسکور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اس ٹیلنٹ کو اجاگر کرنے پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ اگرچہ کم رہ گئے ہیں، لیکن آج بھی ہمارے ملک میں کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جنہوں نے تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا، اور پھر اس ملک کو بنتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ہمارے لوگوں نے ہجرت کے وقت کیا کیا قربانیاں پیش کی تھیں، کن کن مسائل کا سامنا کیا تھا۔ ان سے پوچھیں کہ آزادی کیا ہوتی ہے اور جشنِ آزادی کسے کہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ہم ان قربانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے، اس جدوجہد کو سامنے رکھتے ہوئے اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے نوجوانوں کو اخلاق سکھاتے، انہیں ایک اچھا شہری بننے کی تربیت دیتے، ان کے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے۔ درج بالا سطور میں،میں نے ارشد ندیم کا ذکر کیا، اس کی کامیابیوں کا حوالہ دیا۔ ماضی میں ارشد ندیم ایک گمنام بندہ تھا، ایک عام آدمی تھا لیکن جب اس نے اپنے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو تلاش کیا اور اس پر محنت کی تو آج دیکھیں وہ پوری دنیا میں شہرت حاصل کر چکا ہے، اور پاکستان کا وقار بن چکا ہے۔ پہلے بھی عرض کیا کہ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کرکٹ، ہاکی اور سنوکر کا عالمی چیمپین ہوتا تھا، یعنی ان کھیلوں میں ہماری ٹیمیں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہوتی تھیں، اور آج یہ صورت حال ہے کہ ہمیں کوئی گولڈ میڈل جیتے کوئی ٹرافی حاصل کیے زمانہ بیت چکا ہے۔ اپنے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بے ہنگم آوازوں والے باجے تھمانے کے بجائے، انہیں ون ویلنگ کرنے کی اجازت دینے کے بجائے، سائلنسر نکال کر گروپ کی صورت میں موٹر سائیکلیں چلانے پر آنکھیں بند کر لینے کے بجائے ان پر توجہ دینے، ان کے اندر چھپے ٹیلنٹ کواجاگرکرنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم اس معاملے میں تھوڑی سنجیدگی اختیار کر لیں تو آنے والے زمانے میں ایک نہیں کئی ارشد ندیم اس ملک اور اس قوم کا وقار بلند کرتے نظرآئیں گے۔