بنگلہ دیش میں محصور پاکستانی انتہائی کمپر سی میں زندگی بسر کر رہے ہیں ، احتشام نظامی

بنگلہ دیش میں محصور پاکستانی انتہائی کمپر سی میں زندگی بسر کر رہے ہیں ، ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)بنگلہ دیش میں 1971سقوط ڈھاکہ کے وقت متحدہ پاکستان کی حمایت کرنے والے محصور پاکستانی انتہائی کسمپرسی میں زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ بنگالی حکومت نے انہیں زندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا ہواہے ۔ان پاکستانیوں کی تعداد تقربیاً ڈھائی لاکھ کے قریب ہے ۔نجی ٹی وی چینل دنیا نیوزکے پروگرام نقطہ نظرمیں بنگلہ دیش میں بالخصوص محصو ر پاکستانیوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیم فرینڈز آف ہیومنیٹی کے سیکریٹری جنرل احتشام نظامی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بنگلہ دیش میں محصوراڑھائی لاکھ پاکستانی جو کہ کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی حالت انتہائی خراب ہے، ان کے پاس کھانے پینے اورپہننے کیلئے کپڑے بھی نہیں ہیں ،جن کیمپوں میں وہ رہتے ہیں وہ محض سات بائی آٹھ فٹ کے ہیں جس میں بیک وقت تین خاندان رہائش پذیر ہیں اور اسی میں ان کا باورچی خانہ بھی ہے،گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ سیدھا گزرنا بھی مشکل ہے اور اگر کوئی وفات پا جائے تو اس کا جنازہ بھی باہر سڑک پر لایا جاتاہے اور پھر اس کی تدفین کیلئے انتظامات کیے جاتے ہیں ۔احتشام نظامی کا کہناتھا کہ وہ گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش گئے تھے اور انہوں نے بنگالی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران ان سے درخواست کی کہ وہ ان کو حقوق دیں جس پر وہ کہتے ہیں کہ یہ بنگالی حکومت پر بوجھ ہیں اور پاکستان انہیں لے نہیں رہا جبکہ بنگلہ دیش میں پہلے ہی بہت غربت ہے ۔احتشام نظامی کا کہناتھا کہ اڑھائی لاکھ پاکستان میں سے 25فیصد ایسے ہیں جن کے کچھ بھائی اور رشتہ دار پاکستان میں ہیں جبکہ وہ وہاں کیمپس میں زندگی گزار رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں لینڈ مافیا ہے جو کہ وارڈ ز کے الیکشن بھی لڑتے ہیں ،انہوں نے اس کا حل نکالا کہ وہاں کیمپس کو ختم کرکے بلڈنگز بنا کر کمرشل کیا جائے اور اسی سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی کہ ان لوگوں کو ووٹ دینے کا حق دیا جائے جس پر سپریم کورٹ نے انتہائی مضحکہ خیز فیصلہ سنایا کہ جو سقوط ڈھاکہ کے بعد پیدا ہوئے انہیں ووٹ دینے کا حق ہے لیکن تاحال اس کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیاہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر نہیں شہریت مل گئی تو وہ اپنی پرانی زمینوں کو عدالتوں میں کلیم کر دیں گے جس کی وجہ سے حکومت کافی مشکل میں آ جائے گی ۔احتشام نظامی کا کہناتھا کہ پورے بنگلہ دیش میں 66 سے زائد کیمپس ہیں ،جہاں جہاں یہ لوگ رہتے تھے انہیں ان کے گھروں سے نکال کر میدانوں میں چھوڑ دیا گیا تھا جس کے بعد انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے انہیں کیمپس کی شکل دیدی ۔انہوں نے کہا کہ 1972ء میں پاکستان ،بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان سہ فریقی معاہدہ ہواتھا جس کے تحت ایک لاکھ 75ہزار غیر بنگالی پاکستان آئے تھے اور پاکستان میں جوبنگالی تھے انہیں بنگلہ دیش بھیج دیا گیا تھا ۔کچھ عرصے کے بعد ابھی مزید لوگوں نے آنا تھا کہ ایئر لیفٹنگ بند ہو گئی اور پھر وہ لوگ وہیں رک گئے ۔نوازشریف کے پہلے دور حکومت میں 1992ء میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان نئی دہلی میں معاہدہ ہواتھا جس پر نوازشریف اور خالدہ ضیاہ نے دستخط کیے تھے ،جس کے تحت انہیں پنجاب میں آباد کرنا تھا اور اس کیلئے میاں چنوں میں ایک ہزار گھر بھی بنائے گئے جو کہ آج بھی خالی پڑے ہیں اوربرباد ہو رہے ہیں ۔

مزید :

علاقائی -