سولہ دسمبر۔۔۔۔ کیا سبق سیکھا؟
سولہ دسمبرملک کی تاریخ میں ایک المناک دن ہے جو اپنے اندر دوہرا المیہ سموئے ہوئے ہے.پہلا المیہ۔1971 میں اس دن کا جب ملک کے دو ٹکڑے ہوئے اور دوسرا المیہ 2014 میں اسی دن آرمی پبلک اسکول پشاور میں 150زندگیوں کی شہادت کا جس میں 134طلبا بھی شامل تھے۔ان دو واقعات کا جو ایک دوسرے سے 43 سال کے فاصلے پر ہیں بجز اس تاریخ کے جس کو یہ رونما ہوئے آپس میں بظاہر کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ لیکن اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوگا کہ ان میں ایک اور قدر مشترک بھی ہے۔۔۔ وہ ہے دین کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال جسے سمجھنے کے لِِئے درکار مندرجہ ذیل حقائق اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ1971 میں ہم بنگالیوں کو اسلام پڑھانے کی کوشش کررہے تھے اور 2014 میں مذہبی انتہا پسندوں کا ایک گروہ ہمیں اسلام کا سبق دے رہا تھا۔۔۔ ان دو معاملات میں سے پہلے مشرقی پاکستان کے معاملے کو لیتے ہیں جہاں 1971 میں اپریشن سرچ لائٹ کے عنوان سے جو کارروائی کی گئی اس کا ایک مضحکہ خیز مذہبی جواز بنایا گیا تھا جو یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی 80 فیصد مسلمان آبادی وہاں آباد 20 فیصد ہندو آبادی کے زیرِاثر آکر اسلام سے دور اور پاکستان کے خلاف ہوگئی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ اس بیانیے کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اس مذہبی سیاسی جماعت کے سپرد کی گئی جو قیام پاکستان کے خلاف زور وشور سے سرگرم عمل رہی تھی۔ یہ بیانیہ دراصل مغربی پاکستان کی آبادی کی حمایت حاصل کرنے اورحقائق کو ان کی نظروں سے اوجھل رکھنے کے لئے گھڑا گیا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ بنگالی 1956 میں باہمی رضامندی سے تیارکئے گئے آئینِ پاکستان کی مارشل لا کے ذریعے تنسیخ پر بے حد بدظن تھے اور اپنے جمہوری حقوق سلب کئے جانے پراحتجاج کرتے چلے آرہے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ بنگالیوں کو آئین کی تنسیخ کا اس لئے بھی افسوس تھا کہ اگرچہ آبادی کے تناسب سے ایوانِ نمائندگان میں ان کی نمائندگی کا حق 56 فیصد بنتا تھا لیکن ملک کے اعلیٰ تر مفاد میں انہوں نے پچاس فیصد نمائندگی قبول کرلی تھی۔
یہی نہیں بلکہ وہ آبادی کے تناسب سے مغربی پاکستان کی تمائندگی کا حق جو 44 فیصد بنتا تھا پچاس فیصد تک بڑھانے پر راضی ہوگئے تھے۔ اس طرح انہوں نے نمائندگی کے مجموعی حق میں 12 فیصد قربانی دی تھی۔ 1956 کا آئین پچاس فیصد مساوی نمائندگی کے اسی توازن کی بنا پر تیار کیا گیا تھا جسے سات سال کی محنت کے بعد آخری شکل ان قابل اور تجربہ کار سیاستدانوں نے دی تھی جو تحریک پاکستان میں پیش پیش رہے تھے۔ ان میں خواجہ نآظم الدین اور حسین شہید سہروردی جیسے اعلی پائے کے سیاستدان بھی شامل تھے۔ بنگا لیوں نے انگریزوں سے جنگ کی تھی جس کے نتیجے میں وہ زیرِعتاب رہے تھے۔انہیں دبانے کے لئے انگریزوں نے اپنے مطلب کا جاگیرداری نظام وضع کیا تھا جس کے تحت وہ اپنے سعادتمندوں کو نوازا کرتے تھے۔ چنانچہ آزادی حآصل کرنے کے بعد بنگا لیوں نے سب سے پہلے اپنے ہاں جاگیر داری نظام کو ختم کیا۔۔اس مقصد کے لئے مشرقی بنگال کی اسمبلی میں قانون کا مسودہ وزیر اعلیٰ خواجہ ناظم الدین نے پیش کیا تھا جو بعد میں پاکستان کے گورنر جنرل اور پھروزیر اعظم بنے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغربی پاکستان کا مراعات یافتہ طبقہ جس کی پرورش مختلف اشکا ل میں انگریزوں نے کی تھی اور جس کا تحریک پاکستان میں کوئی قابل ذکر کردارنہیں تھا ایوان میں بنگا لیوں کی پچاس فیصد نمائندگی کو بھی اگر تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ اس طبقے کا یہ خدشہ بھی بے بنیاد نہیں تھا کہ انگریزوں کی عطا کر دہ جا گیروں اور دیگر مراعات کو ممکن ہے پورے پاکستان میں ہی ختم کردیاجائے۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ 1956 کے آئین نے اس خدشے کے حقیقت کا روپ دھارنے کے امکانات کافی حد تک بڑھا دئیے تھے۔
بنگالیوں کی اکثریت سے پیدا ہونے والی اس صورت حال سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ انہیں ان کے جمہوری حق سے محروم کرنے کے لئے جمہوریت کا ہی بوریا بستر لپیٹ دیا جائے کہ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔ چنانچہ مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ نہ صرف مشرقی پاکستان کے وسائل سے ہونے والی آمدنی بلکہ بیرون ملک سے آنے والی امداد بھی مراعات یافتہ طبقے کے مکمل تصرف میں آکر مغربی پاکستان میں بے دریغ استعمال ہونے لگی۔ مغربی پاکستان کی طرف سرمائے کے اس غیر معمولی بہاوکا مظہر وہ بائیس خاندان تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے وجود میں آئے اور جن میں ایک کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے نہیں تھا۔ اس ببانگ دہل ناانصافی کے خلاف مشرقی پاکستان کے عوام احتجاج ہی کرسکتے تھے جو انہوں نے کیا۔ 16 سال کے عرصے میں یہ احتجاج بڑھتے بڑھتے اس نہج پر جا پہنچا کہ انہوں نے صوبائی خود مختاری سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر چھ نکات کی صورت میں اپنا چولھا ہی الگ کرنے کا مطالبہ کردیا جسے ملک دشمنی کا نام دیا گیا۔ بنگالیوں کی آواز کو دبانے کے لئے ایک دفعہ پھر مارشل لا کے نفاذ اور ان کے احتجاج کو کچلنے کے لئے طاقت کے استعمال نے انہیں بلآخر ہندوستان کی گود میں دھکیل دیا جو بڑے عرصے سے ہماری ایسی ہی کسی حماقت کا منتظر تھا۔
مشرقی پاکستان کا باب ختم ہونے کے بعد زخم چاٹنے کی مدت کے دوران ملک کے باقی حصے میں کچھ عرصے کے لئے جمہوریت کو سر اٹھانے کا موقع دیا گیا جس کے دوران سویلینز کو بھی اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ جمہوری حکومت نے سب سے پہلے ملک کے دفاع پر توجہ دی اور ایٹمی منصوبے کی داغ بیل رکھ کراسے ناقابل تسخیر بنا دیا۔ ملک کی معیشت اورعالمی پیمانے پر ملک کی ساکھ بھی جسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے شدید دھچکا لگا تھا خصوصی توجہ کی متقاضی تھی۔ایٹمی منصوبے کی طرح یہ بھی بہت بڑا چیلنچ تھا جس میں کامیابی حاصل ہونے پر جب د نیا میں پاکستان کا نام عزت سے لیا جانے لگا اور سرکاری خزانہ ایک دفعہ پھر بھر گیا تو جمہوریت کو چلتا کردیا گیا۔ اس دفعہ مراعات یافتہ طبقے کا نصب العین پنجاب کے پسے ہوئے عوام سمیت چھوٹے صوبوں کی سرکوبی تھی جنہوں نے جمہوریت کے دوران سر اٹھا کرچلنے کی کوشش کی تھی۔ مارشل لائی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے مذہبی عناصر ایک دفعہ پھر سر گرم ہو گئے بلکہ طرہ یہ ہوا کہ وہ مذہبی سیاسی جماعت جس نے ملک کے دو ٹکڑے کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا ملک کے باقی حصے کو بھی اسی منزل تک پہنچانے کے لئے نیا بیانیہ لے کر آگئی جس کے مطابق اس نے پاکستان کواپنی مرضی کا ایک نیا مطلب دے دیا جسے مراعات یافتہ طبقے کی سرپرستی میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔
اس بیانیے سے پیدا ہونے والے ماحول نے سارا کھیل انتہا پسندوں کے ہاتھ میں دے دیا جو آئینِ پاکستان کو ہی ماننے کے لئے تیار نہیں تھے اور جنہوں نے مسلسل غارت گری کا ماحول برپا کرکے قوم کو ستر ہزار شہریوں اور دو جرنیلوں سمیت چھ ہزار فوجی جوانوں اور افسروں کی شہادت کا تحفہ دیا۔۔۔ یہ وہی عناصر تھے جو 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دلدوز سانحہ کا سبب بنے۔ اس سانحے کا زخم ہرسال جب 16 دسمبر کو ہرا ہوتا ہے تویہ بھی سننے میں آتا ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ورنہ اے پی ایس پشاور کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔ کیا ہوتا اور کیا نہیں ہوتا اس بارے میں تو وثوق سے توکچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ بیان درست نہِیں کہ ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے تجربے نے پہلے سے سیکھا ہوا ہمارا سبق اور بھی پختہ کردیا کہ ملک رہے نہ رہے اس میں جمہوریت نہیں رہنی چاہئے کیونکہ اس سے مراعات یافتہ طبقے کے مفادات پر ضرب کاامکان پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔ اس کے علاوہ ایک نیا سبق بھی سیکھاکہ بیرونی امداد یا کسی اور وجہ سے اگرجمہوریت کا مکمل طور پر تدارک نہ ہوسکے تو دھونس دھاندلی یا لالچ کا ہر ممکن طریقہ استعمال کرکے ایسی جمہوریت کو فروغ دینا چاہئے جس میں پرورش پانے والے پستہ قد سیاستدان ہماری مرضی کے طابع ہوں اور پبلک بھی انہی میں سے کسی کو منتخب کرنے پر مجبور ہو۔۔۔
ایسی تمام کاروائی کا سہرا عموما فوج کے سر باندھ دیا جاتا ہے جو اس لحاظ درست نہیں کہ فوج عدلیہ کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی اور بیوروکریسی اگر پسر جائے تو ایک دن بھی نظام حکومت نہیں چلایا جاسکتا۔ بیورو کریسی کو صنعتکاراور جاگیردار پالتے ہیں جو میڈیا کو بھی جائز و ناجائز سرمایہ کاری کیذریعے سیدھے راستے پر رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔باہم مربوط یہ عناصرہی وہ مراعات یافتہ طبقہ تشکیل دیتے ہیں جو اپس میں رشتے داریوں سے خود کو مضبوط تر بنانے میں مصروف رہتا ہے۔ رشتہ داریوں سے مال غنیمت کی تقسیم میں بھی آسانی رہتی ہے۔ہاں البتہ مال غنیمت کی تقسیم پر کبھی کبھی آپس میں جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں جن میں پبلک کی دلچسپی اسے مصروف رکھنے اور آصل مسائل سے اس کی توجہ بٹائے رکھنے میں کام آتی ہے۔