انقلابِ شام
گزشتہ اتوار یعنی تقریباً آٹھ دس دن پہلے شام میں انقلاب برپا ہو گیا۔وہاں کا حکمران بشارالاسد بھاگ کر ماسکو چلا گیا جہاں روس کے صدر نے اس کو پناہ دے دی ہے۔ اب شام ایک سیال حالت میں ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ وہاں کیاہو رہا ہے۔ہم پاکستانیوں کو وہی خبریں ملتی ہیں جو بین الاقوامی میڈیا دے رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا کا سورس شام کا پاکستانی سفارت خانہ تھا، اس نے سب سے پہلے ان پاکستانیوں کو وہاں سے بحفاظت نکالنے کی سفارش کر دی جو وہاں کے مذہبی مقامات کی زیارتوں کو گئے ہوئے تھے یا وہ لوگ تھے جو تلاشِ روزگار میں وہاں مقیم تھے۔ ان کی تعداد 385 بتائی جاتی ہے جن کو وہاں سے بحفاظت نکال کر پاکستان لایا جا چکا ہے۔ وہاں کے موجودہ حالات اس وقت تک منظرِ عام پر نہیں آئیں گے جب تک انقلاب کی گرد بیٹھ نہیں جائے گی۔
انقلابِ شام کی وجوہات اور واقعات پر ہمارے میڈیا میں وہی کچھ آ رہا ہے جو غیر ملکی ذرائع ابلاغ دے رہے ہیں۔
ایک عام پاکستانی کے لئے شام کے سیاسی حالات جاننا شاید ضروری نہ تھا۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ایک تو وہ ملک ہم سے دور ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے ہمسایوں کی ان خبروں کو دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں جو ہمیں دکھائی یا پڑھائی جاتی ہیں۔ شام کا جغرافیائی محل وقوع ایک عام پاکستانی کے لئے کوئی زیادہ قابلِ توجہ نہیں۔صرف وہاں ایک خاص مذہبی فرقے کی زیارات ضرور ہیں جو اس فرقے کے پاکستانی مقلدین کو وہاں لے جاتی اور پھر واپس لے آتی ہیں۔
قارئین کی اکثریت شام کے موجودہ سیاسی حالات سے اب تک واقف ہو چکی ہے۔ لیکن یہ اسلامی ملک بری طرح بین الاقوامی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ مثلاً یہ دیکھئے کہ اس کے شمال میں ترکی ہے۔ مشرق میں عراق ہے، مغرب میں بحراوقیانوس ہے اور جنوب میں اردن کا تھوڑا سا علاقہ ہے۔ اس کی آبادی تقریباً اڑھائی کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر (90%) سنی عرب ہیں۔ باقی 10% میں دو فرقے موجود ہیں جن کو دروزی اور علاوی کہا جاتا ہے۔ علاوی خاندان کے ایک فرد نے 1970ء میں اس کے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ بھی شام کی بہت بڑی بدقسمتی تھی کہ اس پر 54برس تک اسی علاوی فرقے کی حکمرانی رہی۔ 1971ء میں علاوی فرقے کے حافظ الاسد نے دمشق پر قبضہ کرلیا۔ 2000ء میں اس کی وفات ہو گئی اور اس کے بعد اس کا ایک بیٹا الاسد، دمشق پر قابض ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ علاوی فرقہ حضرت علیؓ کو خدا مانتا ہے اور اس حوالے سے ایران سے قربت کا دعویدار رہا ہے۔
تقریباً 24برس سے دمشق پر چار بڑی طاقتوں کا تسلط اور غلبہ رہا ہے جن میں روسی، امریکی، ترکی اور ایرانی طاقتیں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
جب کوئی اقلیت، ملک کی اکثریت پر غلبہ پا جاتی ہے تو اکثریت بے دست و پا ہونے کے سبب مزاحمت کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ لیکن یہ مزاحمتی تحریک لاکھ بے دست و پا سہی، اندر اندر سلگتی ضرور رہتی ہے۔شام میں ایسا ہی ہوا۔وہاں کی اکثریت کوبڑے بڑے ممالک نے مسلح کر دیا۔ ظاہر ہے دمشق کی مرکزی حکومت نے اس اکثریت کو ختم کرنے کی طرف اقدام کرنا ہی تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ دمشق کی حکمران اقلیت میں،فوج بھی علاوی فرقے سے تھی اور عدلیہ بھی اسی فرقے سے تعلق رکھتی تھی۔ حافظ الاسد نے اپنے دورِ اقتدار (1971ء تا2000ء) کے 30برسوں میں انتظامیہ،عدلیہ اور سیکیورٹی فورسز میں علاویوں کو بھرتی کرکے اقلیت کو اکثریت پر غالب کر دیا۔ تاہم اس کے بیٹے الاسد نے لاکھ کوشش کی کہ سٹیٹس کو برقرار رکھا جائے لیکن اندرونی اور بیرونی علاقائی صورتِ حال نے اس کی راہ میں کانٹے بچھا دیئے۔
شام کے جنوب مغرب میں لبنان واقع ہے اور ایک چھوٹا سا حصہ اسرائیل سے بھی ملحق ہے۔ ایران اور اسرائیل کی دشمنی پر کچھ زیادہ کہنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ایران کے مغربی ہمسائے عراق پر ایرانیوں کا تسلط بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وہاں سے ایرانی اسلحہ جات اور ایرانی گوریلا فورسز دمشق میں جاتی رہیں، وہاں سے لبنان اور لبنان سے اسرائیل کے علاقوں پر حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ان حملوں کی تفصیل بہت پرانی بھی ہے اور بہت دل شکن بھی ہے۔
ذرا اس سوال پر بھی غور کیجئے کہ شام میں روسی، ترکی، امریکی اور ایرانی غلبہ کیوں تھا۔ اسی غلبے نے شام کے 90% سنی عربوں کو الاسد حکومت کے حق میں (اور اس کے خلاف بھی) کر دیا۔ روس نے تو باقاعدہ یہاں اپنی چھاؤنیاں اور بندرگاہیں بنا لیں، الاسد کی حمایت کرنی شروع کر دی اور ترکی نے بھی اس بندر بانٹ میں اپنا حصہ لینا شروع کر دیا۔
تقریباً 13برس تک (2011ء تا 2024ء) شام میں خانہ جنگی کا عالم طاری رہا جس کا خاتمہ ابھی دس روز پہلے سقوطِ دمشق کی صورت میں نکلا۔ کسی کو بھی خبر نہ تھی کہ الاسد کی حکومت کے آخری ایام آن پہنچے ہیں ……
انقلاب جب بھی کہیں آتا ہے اس کی کوئی ”کٹ آؤٹ“ تاریخ متعین نہیں کی جا سکتی۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب کسی ملک میں خانہ جنگی کا آتش فشاں سلگ رہا ہو تو اس کا لاوا کسی بھی طرف نکل کر پھیل سکتا ہے…… شام کے آتش فشاں کا یہ لاوا حلب (Aleppo)سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے حمص اور پھر دمشق تک جا پہنچا۔
اب الاسد کو دمشق سے نکالا جا چکا ہے۔ اس پر بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں جن کا جواب فی الحال نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً روس نے الاسد کو پناہ کیوں دی؟ ”ہیت التحریر الشام“ نامی گروپ یکایک دمشق پر کیوں قابض ہو گیا؟ امریکہ نے شام کو کیسے یہ اجازت دی کہ یہ انقلاب کامیاب ہو جائے؟ ”التحریر الشام“ کے لیڈروں کے آئندہ عزائم کیا ہیں؟ اور بعض لوگ تو پاکستان میں یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ کیا انقلابِ شام کی تقلید پاکستان میں بھی کی جا سکتی ہے؟…… ان تمام سوالوں کا جواب فی الحال نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن شامی حالات کو پاکستانی حالات کے مماثل قرار دینا کسی بھی حوالے سے انتہائی لغو اور غلط ہے۔ ہم پاکستانیوں کو شام کے حالات سے باخبر رہنے کی ضرورت تو ہے لیکن یہ ضرورت صرف اکتسابِ معلومات کی حد تک ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔