سانحہ اے پی ایس ،،،،،،،،،لمحہ بہ لمحہ

سانحہ اے پی ایس ،،،،،،،،،لمحہ بہ لمحہ
سانحہ اے پی ایس ،،،،،،،،،لمحہ بہ لمحہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن ) سانحہ اے پی ایس کو 10 سال ہو چکے، 16 دسمبر2014 کے واقعے نے پوری پاکستانی قوم کو یکجا کر دیا اور ہم نے من حیث القوم یہ تہیہ کر لیا کہ پاکستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور جنونیت کی کوئی جگہ نہیں، اگرچہ زخم بہت گہرے تھے لیکن پاکستانی قوم اور اداروں کا عزم اس سے کہیں بلند تھا۔
نجی اخبار دنیا کے مطابق 16 دسمبر 2014ءکا دن، ہمارے اذہان سے کبھی نہ محو ہونے والا ایک سیاہ ترین دن ہے، 1099 بچے اپنے روحانی رہنماو¿ں کے ساتھ اے پی ایس پشاور کی عظیم درس گاہ میں موجود تھے، صبح کے ساڑھے دس بج رہے تھے، جب چھ سفاک دہشت گردوں نے حملہ کیا، انہوں نے دہشت گردوں کا نام و نشان مٹانے میں پیش پیش افواج میں شامل ہونے والی نئی نسل سے جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔
دنیا کی تاریخ میں کسی بھی درس گاہ پر ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا، انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں نے سکول کی عمارت میں داخل ہوتے ہی بچوں اور اساتذہ کرام کو اپنے نشانے پر لے لیا، 8 سے 18 سال کے 132 معصوم طلباءسمیت 149 افراد شہید ہوئے، دنیا میں کہیں، کسی بھی ملک میں دہشت گردوں نے بھی سکول میں معصوموں کو نشانہ نہیں بنایا، یوں یہ واقعہ دہشت گردی کی تاریخ میں بھی بد ترین مثال بن گیا۔
واقعے کے مطابق اس روز سکول میں معمول کے مطابق کام جاری تھا، صبح کے 10:30 بج رہے تھے، اچانک 6 دہشت گرد ایک کار سے اترے، کار سے نکلتے ہی انہوں نے اسے آگ لگا دی تاکہ کوئی دہشت گرد واپس نہ جا سکے، اس کے بعد وہ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے، ان کے سینوں پر خود کش جیکٹیں صاف نظر آرہی تھیں۔
سب سے پہلے وہ آڈیٹوریم کی جانب بھاگے، یہ سکول کمپلیکس کے عین مرکز میں واقع ہے، وہاں اس وقت فرسٹ ایڈ کی تربیت کیلئے طالبعلم جمع تھے، حملہ آوروں نے اندر داخل ہوتے ہی فائر کھول دیا کیونکہ طالب علموں کو یرغمال بنانا ان کا مقصد نہ تھا، وہ تو زیادہ سے زیادہ بچوں کے خون سے ہاتھ رنگنے وہاں پہنچے تھے، آڈیٹوریم کا بیرونی دروازہ گراو¿نڈ کی جانب کھلتا ہے، انہوں نے وہاں سے آنے والے بچوں کو نشانہ بنایا۔
بچوں سے کہا کہ وہ ا پنے اساتذہ اور بھائیوں کی شہادت کا منظر دیکھیں، بار بار دیکھیں، سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بچوں کے آگے ڈھال بن گئیں، ”پہلے میری جان جائے گی پھر ننھی جانوں کو کچھ ہو گا“ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے انہیں شہید کر دیا، حکومت نے انہیں 2015ءمیں ستارہ شجاعت سے نوازا۔
دہشت گردوں نے سکول کی عمارت میں داخل ہوتے ہی ٹیلی فون لائنیں کاٹ دی تھیں، رابطے منقطع کر دیئے تھے تاکہ کسی کو خبر نہ ہو سکے مگر 15 منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ فضاءمیں ہیلی کاپٹر بھی پروازیں کر رہے تھے، ایس ایس جی کے کمانڈوز عمارت کے اندر تھے اور فوج کی ٹیمیں وہاں موجود تھیں کیونکہ بچوں کی جان پیاری تھی، دہشت گردوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کمانڈوز اتنی جلدی پہنچ جائیں گے ورنہ دہشت گرد تو سب کی جان لینے کے درپے تھے لیکن فوجی کمانڈوز کو یہ معلوم نہ تھا کہ دہشت گرد کہاں کہاں چھپے ہوئے ہیں، انہوں نے بچوں کو بھی بچانا تھا،کہیں کسی معصوم کو کچھ ہو نہ جائے چنانچہ سب سے پہلے سکول کی عمارت کو گھیرے میں لے لیا گیا پھر اندر پیش قدمی کی، چند منٹوں کے اندر اندر سکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کی کالیں پکڑ لیں۔
کمانڈوز کے گھیرے میں آنے کے بعد دہشت گرد ایڈمنسٹریشن بلاک میں چھپ گئے، کچھ بچوں کو ڈھال بنانے کی کوشش کی، اسی لمحے گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی، ایک دہشت گرد آڈیٹوریم کے قریب ہی بھاگتے ہوئے مارا گیا، دوسرا دہشت گرد کھڑکی سے فرار ہوتے وقت گولی لگنے سے موت کا نوالہ بن گیا ، باقی دہشت گرد ایڈمن بلاک میں چھپے ہوئے تھے۔انہیں وہیں موت نے آلیا، کمانڈوز نے تاک تاک کر نشانے باندھے اور چاروں دہشت گرد مارے گئے، یوں 960 بچوں اور عملے کے ارکان کو بچا لیا گیا۔
بعدازاں (سابق)آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے باتیں کرتے ہوئے نونہالوں نے کہا کہ ”آپ ہمیں بچہ نہیں زخمی فوجی سمجھیں، ہمارے ملک سے ایک ایک دہشت گرد کا خاتمہ کر دیں“، بچوں کا عزم و حوصلہ قابل دید تھا۔
ہماری کامیابیاں کب دنیا کو بھاتی ہیں، کامیاب آپریشنز کے بعد پاکستان کو کبھی ”فیٹف“ تو کبھی آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسانے کی کوشش کی گئی تو کبھی مشرقی و مغربی سرحدوں پر مسائل پیدا کئے گئے، کبھی بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو ہوا دی گئی تو کہیں سندھو دیش کے نعرے لگوانے کی کوشش کی گئی، کہیں ذاتی مفادات کی خاطر اداروں کو نشانے پر رکھا گیا تو کہیں اے پی ایس واقعے پر سیاست کھیلنے کی کوشش کی گئی، آج بھی ملک دشمن قوتیں پاکستان میں بدامنی پھیلانے کیلئے کوشاں ہیں۔
اے پی ایس کا واقعہ یقیناً ایک قابلِ افسوس اور انتہائی غمناک واقعہ ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ریاست نے دہشت گردوں کے خلاف کامیابی حاصل کی یا ریاست نے انتہا پسندی کے خلاف گھٹنے ٹیک دیئے، تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو یقیناً مورخ لکھے گا کہ پاکستانی قوم اور افواج ِ پاکستان نے تمام تر چیلنجز کا جس بہادری سے مقابلہ کیا اور ان کی یہ کاوشیں اپنی مثال آ پ تھیں۔
اے پی ایس ہی کی مثال لیجئے، سکیورٹی فورسز پر الزام لگایا کہ یہ شاید ان ہی کی کارروائی ہے! حالانکہ اس واقعہ میں 51 بچے اور سٹاف ممبرز فوج ہی کے شہید ہوئے، کبھی یہ الزام لگایا گیا کہ حکام کا کہنا ہے کہ اگر اے پی ایس کے بچے شہید ہوگئے ہیں تو اور پیدا کر لو، جو کہ سراسر بے بنیاد، اخلاقیات اور تمام اقدار کے منافی ہے۔ ایسا بیان نہ کبھی دیا گیا اور نہ کوئی دینے کا سوچ سکتا ہے، کیا پریڈ لین میں فوجی اور فوجیوں کے بچے شہید نہیں ہوئے، کیاسینکڑوں آپریشنز میں ہزاروں فوجی نہیں شہید ہوئے، کیا فوجیوں اور ان کے خاندانوں نے قربانیاں نہیں دیں؟ تو پھر یہ تفریق پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟
کیا اے پی ایس شہدا کی داد رسی کی گئی؟ سوال تو یہ ہونا چاہئے، تحقیق سے پتا چلا کہ جی ہاں داد رسی کی گئی، اگرچہ کوئی بھی مالی فائدہ کسی جان کا مداوا نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی حتی الوسع کوشش کی گئی کہ لواحقین کی ہر ممکن مدد کی جائے، ان کو نہ صرف پلاٹس دیئے گئے بلکہ نقد رقوم بھی دی گئیں۔ متاثرین اور ورثاءکیلئے تاحیات علاج معالجے کی سہولت، بچوں کی مفت تعلیم و تربیت کے علاوہ اللہ کے گھر کا طواف کا بندوبست بھی کیا گیا۔
مجموعی طور پر وفاقی و صوبائی حکومتوں اور پاک فوج کی جانب سے ابتک 1545 ملین روپے سے زائد رقم شہدا کے لواحقین اور متاثرین کی داد رسی کیلئے خرچ کی جا چکی ہے، آج بھی ریاست ان کی ہر ممکن داد رسی کیلئے تیار ہے، وزیر اعظم سے لے کر آرمی چیف تک تمام لوگ دل و جان سے ان کے دکھ کا مداوا کرنا چاہتے ہیں۔
دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ کیا اے پی ایس کے حوالے سے کوئی انکوائری ہوئی اور کیا ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایکشن کیا گیا؟ تو اس حوالے سے سپریم کورٹ نے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا، جس نے 30 جون 2020ءمیں اپنی رپورٹ جاری کی، جوڈیشل کمیشن نے تمام متعلقہ لوگوں سے انکوائری کے بعد پھر فیصلہ دیا کہ سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی، جس کیلئے افواج کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
جوڈیشل کمیشن نے یہ بھی کہا کہ جب حملہ آوروں کے معاون گھر میں ہی موجود ہوں تو د نیا کی کوئی طاقت حملے نہیں روک سکتی اور یہی بات بار ہا باور کرائی جاتی رہی ہے کہ جب تک سلیپر سیلز کی صورت دہشت گردوں کی اندرونی معاونت کا سدِباب نہیں کیا جاتا، دہشت گردوں کا خطرہ رہے گا، جوڈیشل کمیشن نے واضح طور پر سیکیورٹی فورسز کو APS سانحہ کے متاثرین کی بھرپور داد رسی کرنے پر خراجِ تحسین پیش کیا۔
اس وقت بھی حکومت پاکستان کی کابینہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو شہداءکے لواحقین سے مل کر ان کی داد رسی کی ہر ممکنہ کوشش میں مصروف ہے، فوج کے اندر بھی محکمانہ انکوائری کے نتیجے میں ان ذمہ داران کو جو مطلوبہ اقدامات اٹھانے سے قاصر رہے یا کوتاہی برتی، ان کے خلاف زبردست تادیبی کارروائی کی گئی، ان میں ملنے والی سخت سزاﺅں میں سروس سے برخاستگی بھی شامل ہے۔
سکیورٹی فورسز پاکستان کو ایک پر امن پاکستان بنانے کیلئے دِن رات کوشاں ہیں، ہمیں ان کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے اور ہر اس کوشش کو ناکام بنانا ہوگا جس سے معاشرے میں انتشار اور بد امنی پھیلنے کا اندیشہ ہو، آئیے اپنے حصے کی شمع جلائیں۔
اے پی ایس کے ملزمان کا انجام؟اس حملے میں 27 افراد کے ملوث ہونے کا پتہ چلا، جنہیں ایک ایک کر کے قابو کر لیا گیا، ان کا ایک ساتھی سجاد جان خیبرپختونخوا میں آپریشن کے دوران 26 دسمبر 2014ء کو مارا گیا، سکیورٹی اداروں نے جلد ہی ان کے 4 ساتھی دہشت گردوں کی گردن دبوچ لی، جنہیں 2 دسمبر 2015ء کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا، ایک حملہ آور کا ایک ساتھی سپریم کورٹ میں گیا، وہاں سے اپیل مسترد ہونے کے بعد اسے بھی 2016ء میں سزائے موت دی گئی۔
دہشت گرد قتل عام کے دوران غیر ملکی ٹیلی فونز کی مدد سے افغانستان میں عمر خراسانی سے رابطے میں تھے جو ملا فضل اللہ سے ہدایات لے رہے تھے، پاکستان نے اس مسئلے پر افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا، حملے کا ماسٹر مائنڈ عمر خراسانی افغانستان میں 18 اکتوبر 2017ءکو ڈرون حملے میں مارا گیا۔
پاکستان نے افغانستان میں موجود دہشت گرد ملا فضل اللہ کی گرفتاری کیلئے امریکا اور افغان حکومت سے رابطے کئے، 14 جون 2018ءکو افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں یہ دہشت گرد بھی مارا گیا، یوں اے پی ایس پشاور میں معصوموں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے تمام کردار ایک ایک کر کے جہنم میں چلے گئے۔
سانحہ کے بعد اٹھائے گئے اقدامات:اس سانحہ کے بعد پوری قوم نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کیساتھ مل کر ایک ایسے آپریشن کا آغاز کیا کہ جس کا ہدف ایک ایسا پاکستان تھا جہاں ریاست ہی کو طاقت کے استعمال کا حق حاصل ہو، آپریشن ردالفساد میں قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی کمین گاہوں کو ختم کیا گیا۔
قبائلی علاقوں کے بیشتر حصے پر حکومتی عملداری قائم ہوئی، اس آپریشن میں فوج کے کئی جوانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، یہ زیادہ د±ور کی بات نہیں کہ جب 2007ءاور 2008ءمیں قبائلی علاقوں میں ریاست کی عملداری نہیں تھی، آج قبائلی علاقے ریاستِ پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی عملداری تمام علاقوں میں ہے۔
دہشتگردی کیخلاف کامیاب جنگ میں 46 ہزار مربع کلو میٹر کا ایریا کلیئر کیا گیا، 18 ہزار سے زائد دہشت گرد مارے گئے، 250 ٹن سے زائد بارود قبضے میں لیا گیا، 75ہزار اسلحہ ریکور کیا گیا۔
50 بڑے آپریشن جبکہ ڈھائی لاکھ سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے گئے اور 1200 سے زائد چھوٹے اور بڑے آپریشن کئے گئے۔
پاکستان نے جہاں 2611 کلو میٹر بارڈر فینسنگ کا بیڑا اٹھایا، وہیں بارڈر فورٹس اور ٹرمینل بھی قائم کئے، پاکستان کے بروقت اقدامات کے باعث افغانستان کے اندر کے حالات و واقعات کے اثرات سے پاکستان محفوظ رہا۔
بلوچستان میں ہندوستان کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا گیا اور کراچی کو پر امن بنایا گیا، پنجاب سے چھوٹو گینگ سمیت دیگر دہشت گردوں کا خاتمہ اور NAPکے تحت 60 سے زائد تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا۔