ترقی یافتہ ممالک میں نمایاں شمولیت کی بے مثال خدمت
کسی بھی فلاحی ریاست میں عوام تک بنیادی ضروریات کی فراہمی حکمرانوں کے ذمہ ہوتی ہے۔عام شہری جب کسی امیدوار کو کامیاب کرنے کے لئے ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کر تے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ سوال دستک دے رہا ہوتا ہے کہ جس کو ووٹ ڈال کر کامیاب کررہا ہوں ،کیا یہ امیدوار ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے بعد ووٹر کے علاقے میں موجود محرومیوں کو ختم کرپائے گا؟کیا یہ امیدوار مقامی علاقے میں بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کا مقدمہ ایوان اعلیٰ میں لڑے گا؟کیا یہ امیدوار مقامی علاقے کی حقیقی معنوں میں ایوان میں نمائندگی کر سکتا ہے؟
2008ءمیں جب جمہوری حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ملک کو گھمبیر مسائل کا سامنا تھا۔ڈکٹیٹر کی حکومت نے ملک کو معاشی تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔ملک کو سنگین ، معاشی، سماجی، تعلیمی، انتظامی اور حفاظتی مسائل درپیش تھے۔نو منتخب قیادت پر ملکی مسائل حل کرنا بہت بھاری ذمہ داری تھی۔ان حالات میں ایسی مثبت حکمت عملی کی ضرورت تھی کہ مسائل پر تیزی سے قابو پایا جاسکے۔
وقت گزرتا گیا اور قوم نے ملکی سیاست اور حالات میں بہت نشیب و فراز دیکھے۔درحقیقت دیکھنا یہ ہے کہ کس سیاستدان اور سیاسی جماعت نے حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کئے اور پایہ تکمیل تک پہنچائے؟اگر ہم حکومت پنجاب کے ترقیاتی اقدامات پر نظر دوڑائیں تو دل سے احساس مطمئن کی آواز آتی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے جب وزارت اعلیٰ کا قلم دان سنبھالا تو صوبہ پنجاب کو بہت سے مسائل درپیش تھے۔گزشتہ حکومتی دور کے اقدامات بالکل ختم ہو کر رہ گئے تھے اور کوئی پرسان حال نہیں تھا۔حکمرانوں نے پڑھا لکھا پنجاب اور لاہور ، قصورروڈ جیسے پراجیکٹس سے اربوں روپے کی بدعنوانی سے جیبیں بھر لی تھیں۔انتظامی طور پر تقریباًپورا صوبہ مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔کرپشن عروج پر تھی۔رشوت ستانی اور قتل و غارت عام ہو چکی تھی۔خاد م پنجاب نے ان حالات کے باوجود اپنی مثبت حکمت عملی کا آغاز کیا اور ہر شعبے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے حالات و واقعات کا جائزہ لیا اور ضروری اقدامات کئے۔
وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے جہاں تعلیمی میدان میں دانش سکول سسٹم، رہائشی مسائل حل کرنے کے لئے آشیانہ ہا¶سنگ سوسائٹی، لیپ ٹاپس کی تقسیم اور کسانوں کے لئے گرین ٹریکٹر سکیم جیسے عظیم منصوبوں کا اجراءکیا،وہاں لاہور کے رہائشیوں اور اندرون و بیرون ملک سے آنے والے لوگوں کے لئے ایک شاہکار منصوبہ بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کا آغاز کیا، جو پاکستان کی تاریخ میں بے مثال منصوبہ بن چکا ہے.... 13سال قبل عوام کو ڈائیووکی صورت میں معیاری اور آرام دہ ٹرانسپورٹ کی فراہمی کا سہرا بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سر ہے اور اب13سال بعد بین الاقوامی معیار کی ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کر کے ایک مرتبہ پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ موٹروے کا منصوبہ بھی مسلم لیگ (ن) کے دور میں مکمل کیا گیاجو پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین منصوبوں میں شامل ہے۔ اس ویژن کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی پنجاب میں سڑکوں ، انڈرپاسز اور اوورہیڈ بریجز کا جال بچھا یا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں سی این جی بسوں کی فراہمی کے بعد نہ صرف اس کا دائرہ کار صوبے کے دیگر بڑے شہروں تک بڑھایا جا رہا ہے، بلکہ بس ریپڈ ٹرانزٹ کا منصوبہ شروع کر کے پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر دیا ہے۔
لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر اور ملک کا اہم ثقافتی مرکز ہے جہاں2010ءمیں آبادی 86لاکھ تھی ،جبکہ ایک تخمینے کے مطابق 2030ءتک شہر کی آبادی ایک کروڑ35لاکھ ہو جائے گی۔ لاہور پچھلے کئی برسوں سے اربنائزیشن کی شدید زد میں ہے۔1772مربع کلومیٹر علاقے میں پھیلے ہوئے لاہور شہر میں سڑکوں کی لمبائی2ہزار کلومیٹر ہے۔ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے لوگوں کو سہولتوں کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ لوگوں کو درپیش ٹرانسپورٹ کے مسائل کا حل بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم ہے ۔ بی آر ٹی ایس تیز رفتار، محفوظ، آرام دہ اور قابل اعتماد ذریعہ آمد ورفت ہے۔یہ ٹرانسپورٹ نظام اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے پوری دنیا میں مقبول ترین ذریعہ آمد ورفت سمجھاجاتاہے۔یہ سسٹم عام بسوں اور ذاتی سواری کے مقابلے میں زیادہ تیز سفر کی سہولتیں مہیا کرتا ہے۔ بی آرٹی ایس ایک وقت میں زیادہ لوگوں کو کم کرائے میں منزل مقصود تک پہنچاتاہے۔
بی آر ٹی ایس کے لئے لو فلور(Low Floor)بسیں استعمال کی جاتی ہیں۔ ابتدائی مرحلے مےں لاہور میں بی آر ٹی ایس منصوبے کے لئے فیروز پور روڈ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ 27کلو میٹر طویل ہوگا۔ بی آر ٹی ایس کے لئے سڑک پر دس میٹر لمبائی کی دو لین تعمیر کی جائیں گی۔ جہاں پر بی آر ٹی ایس سٹیشن ہوگا وہاں پر ان لینز Lanes کی لمبائی 16 میٹر ہوگی۔ فیروز پور روڈ پر شروع کی جانے والا بی آر ٹی ایس کا پہلا مرحلہ چونگی امر سدھو سے کلمہ چوک تک محیط ہوگا،پہلے فیز میں لمبائی 7.3کلومیٹر ہوگی، جبکہ لاگت 1467.14ملین روپے ہوگی۔ پہلے فیز میں چونگی امر سدھو، غازی روڈ، والٹن روڈ، اتفاق ہسپتال، نصیر آباد ، ماڈل ٹا¶ن موڑ اور کلمہ چوک پر بس سٹیشن تعمیر کئے جائیں گے۔ ابتدائی طور پر محکمہ خزانہ کی طرف سے پہلے مرحلے کے لئے 500 ملین روپے جاری کئے جاچکے ہیں۔ یہ منصوبہ استنبول کی کمپنی اولیسئم کی مدد سے تعمیر کیا جائے گا۔ اس کا ابتدائی ڈیزائن اولیسئم نے تیا ر کیا ہے۔ بس سٹیشن اور شیلٹر کے لئے ڈیزائن کی تیاری جاری ہے۔
یہ منصوبہ نیسپاک کی زیر نگرانی تعمیر کیاجائے گا ،جبکہ این ایل سی اس منصوبے کو تعمیر کرے گی۔ 7.3کلومیٹر طویل سڑک کے دونوں جانب13.5کلو میٹر لمبی سٹیل کی باڑ تعمیر کی جائے گی۔ اس منصوبے کی راہ میں بجلی ، ٹیلی فون کے کھمبے، سوئی گیس کے چیمبرز، ٹیوب ویل، واٹر فلٹریشن پلانٹ اور دیگر رکاوٹوں کو شفٹ کرنے کے منصوبے پر تقریباً 80ملین روپے خرچ کئے جائیں گے۔ منصوبے کی خوبصورتی کے لئے پنجاب حکومت کی جاری پالیسی کے تحت پی ایچ اے شجر کاری بھی کرے گا۔ بی آر ٹی ایس کے دوسرے مرحلے میں وزیراعلیٰ کی ہدایت کے مطابق اسے چونگی امر سدھو سے گجومتہ تک توسیع دی جائے گی، دوسرے مرحلے کی لمبائی 5.7کلو میٹر ہوگی۔ اس حصے میں چھ بس سٹیشن تعمیر کئے جائیں گے،بی آر ٹی ایس ڈپو کے لئے موضع کا چھا میں 120کنال زمین منتخب کی گئی ہے ۔
بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم نہ صرف ایک عظیم منصوبہ ہو گا ،بلکہ اس منصوبے کی تکمیل پر لاہور شہر چند میٹرو پولیٹن شہروں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔یہ منصوبہ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی مثبت حکمت عملی اور صوبہ پنجاب کو ترقی کی انتہا تک پہنچانے کا خواب سچ ہوتا دکھائی دے رہاہے۔ان تمام منصوبوں میں خرچ کی جانے والی خطیر رقم میں شفافیت کے باعث عالمی ترقیاتی اداروں نے مزید امداد بخوشی جاری کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ترکی پاکستان کا وہ برادراسلامی ملک ہے جو نیک دلی کے جذبے کے تحت پاکستان کی ترقی کا خواہاں ہے۔پاک ترک باہمی تعلقات انتہائی خوش آئند ہیں،جس طرح ترک حکومت نے صوبہ پنجاب میں ترقیاتی منصوبہ شروع کیا، وہ دن دور نہیں جب دونوں ممالک کی عوام یکساں ترقی کے دھارہ میں ہوں گے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاکستان کو محمد شہباز شریف جیسی عظیم قیادت بخش دے جو اس قوم کی قسمت کو بدل کر رکھ دے۔صوبہ پنجاب میں ہونے والی ترقی دوسرے صوبوں کے لئے قابل تقلید ہے،جس تیزی سے صوبہ پنجاب کی قسمت بدل رہی ہے، دوسری صوبائی قیادتوں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور اپنی کارکردگی درست کرنی چاہیے۔اگر پورے ملک کی قیادت محمد شہباز شریف کی مثبت سوچ پر عمل پیرا ہو جائے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کا نام ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو اور یہاں بسنے والے تمام شہریوں کو تمام تر بنیادی حقوق حاصل ہوں۔جہاں وہ اپنی زندگی بنیادی ضروریات استعمال کرتے ہوئے رواں دواں رکھیں۔ ٭