غلطیاں ہماری ضد ہیں 

  غلطیاں ہماری ضد ہیں 
  غلطیاں ہماری ضد ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ”غلطیوں سے سبق نہ سیکھنا بھی سب سے بڑی غلطی ہے“ اِس جملے میں کتنی بڑی سچائی موجود ہے۔اس پر چنداں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، یہ جملہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے پشاور میں خیبرپختونخوا کے سیاسی قائدین سے ملاقات کرتے ہوئے کہا۔ حقیقت یہ ہے ہماری 77سالہ تاریخ ایسی غلطیوں سے بھری پڑی ہے جو ہم نے غلطیوں کو تسلیم نہ کر کے کیں۔غلطیاں تسلیم کر لی جائیں تو مزید غلطیوں کا احتمال نہیں رہتا،مگر جب غلطی مانی ہی نہ جائے تو اُس جیسی مزید کئی، غلطیاں ہمارا مقدر بن جاتی ہیں۔اِس ملک میں بار بار مارشل لاء آتے رہے۔ظاہر ہے کچھ تو ایسی غلطیاں ہوئی ہوں گی جن کی وجہ سے جمہوریت رخصت اور آمریت آتی رہی۔کہتے مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا،مگر ہم تو ڈسے جاتے رہے ہیں یہ بار بار ایک ہی بات کا رونما ہونا کوئی چیز تو نہیں۔ہم نے غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے کی سنچری بنا رکھی ہے،اسی لئے کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں، آگے بڑھنے کی توفیق نہیں ہو رہی۔تاریخ کی ایک بڑی اور تواتر سے دہرائی جانے والی ایک غلطی تو یہ ہے ہم نے سبق نہیں سیکھا۔کسی ملک میں سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایسی لڑائی نہیں ہوتی جو بڑے تنازع کی شکل اختیار کر لے،اتنے بڑے تنازع کی کہ ملک کا ایک حصہ ہی جدا ہو جائے،مگر ہمارے ہاں ہوئی۔اب اس کے بعد ضرورت اِس امر کی تھی، اس عظیم سانحے سے سبق سیکھا جاتا۔اُن باتوں سے اجتناب کیا جاتا جو ہمیں اندر  سے کھوکھلا کر رہی ہیں۔ملک کی معیشت اور سیاست کی مضبوطی کے لئے سب ایک ہو جاتے،سیاست کو بازیچہ ئ اطفال بنانے کی روش ترک کر دی جاتی۔ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے سب ادارے اپنا کردار ادا کرتے۔ نیچا دکھانے یا اپنی ماورائے آئین حیثیت منوانے کی روش ترک کر دی جاتی، مگر ایسا نہیں ہوا۔غلطیاں پھر دہرائی جانے لگیں۔ مفادات کی آگ نے پھر سے بھڑک کر وہی صورتِ ہنگامہ پیدا کئے رکھی جو پاکستان میں کبھی استحکام نہیں آنے دیتی۔یہ کہنا ہے تو بہت آسان کہ غلطیوں سے سبق نہ سیکھنا بھی سب سے بڑی غلطی ہے،مگر اس ملک میں کوئی ایک مثال تو ڈھونڈی جائے کہ جس میں غلطی کو تسلیم کیا گیا ہو۔معافی مانگی گئی ہو اور قوم کے سامنے اقرار کیا گیا ہو،یہ غلطی کی گئی اور اس کا ملک کو نقصان ہوا،جس معاشرے کے گلی محلوں میں بھی لوگ اپنی غلطی نہ مانتے ہوں،اپنی بات پر ڈٹ جاتے ہوں،نوبت قتل و غارت گری تک لے آتے ہوں۔وہاں اعلیٰ سطحی پر غلطی مان کے آگے بڑھنا ایک معجزز ہی ہو سکتا ہے،جہاں سیاسی پولرائزیشن اتنی زیادہ ہو کہ سیاستدان ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کے روا دار نہ ہوں، نام تک سننا گوارا نہ کرتے ہوں، وہاں یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔وہ غلطیوں کو تسلیم کریں گے۔ہاں البتہ ایسے واقعات ضرور ہوئے جہاں سیاسی ضرورتوں کے تحت غلطیوں کو تسلیم کیا گیا۔مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی میں سیاسی اتحاد ہوا تو اُن بیانات پر معذرت کی گئی جو گریبان پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے حوالے سے دیئے گئے۔ یہ کہا گیا ایسے بیانات درست نہیں تھے۔ان کی وجہ سے سیاست میں اشتعال آیا،غیر شائستگی نے جنم لیا۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے غلطیوں سے سبق سیکھنے کی یہ بات کس تناظر میں کی ہے؟ اس کا مخاطب کون ہے؟ کیا وہ اس حقیقت کو اسٹیبلشمنٹ پر بھی منطبق کرتے ہیں؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم انہوں نے یہ اہم بات ایک ایسے دور میں کی ہے جب ملک میں انتشار ہے اور سیاسی یکجہتی مفقود نظر آتی ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں اِس وقت سوچ اور عوام کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں،ماضی کے کچھ واقعات ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے ایسا کرنے والوں کو کچھ آمدنی ہو رہی ہے۔ آرمی چیف عاصم منیر کا یہ کہنا درست ہے کہ عوام اور فوج کا خاص رشتہ  ہے تاہم اس رشتے میں کچھ غلطیوں، کچھ فیصلوں کی وجہ سے اگر کمزروی آئی ہے تو اسے دور کرنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔یہ ایک اہم ترین بات ہے کہ ریاست ہے تو سیاست ہے، لیکن بعض اوقات کمزور فیصلوں کی وجہ سے ریاست اپنا اثر کھونے لگتی ہے۔ ریاست کو ماں جیسا ہونا چاہئے جب اس کا یہ کردار اثر کھونے لگتا ہے تو تباہی جنم لیتی ہے جس سے بچنے کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ آئین کی حدود سے تجاوز کرنے کی غلطی نہ کی جائے۔ایک آئین ہی ہے جو ریاست کو ماں بناتا ہے۔ہماری بڑی غلطیوں میں سے ایک غلطی یہ بھی رہی ہے کہ ہم نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ مارشلاؤں میں تو آئین کو پس ِ پشت ڈالا جاتا ہے، سول حکمرانوں  نے بھی آئین میں سے اپنے مطلب کے معانی نکال کے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی، جس کا خود انہیں نقصان ہوا، بات چلتے چلتے یہاں تک پہنچی کہ آئین میں ترمیم کر کے ایک آئینی بنچ بنانا پڑا جو آئینی معاملات میں رہنمائی فراہم کرے،حالات کا جب بہت کچھ دکھاتا۔ اس ملک نے اپنی 77 سالہ زندگی میں بہت کچھ دیکھا۔ اتنے تجربات کے بعد تو ایک انسان بھی سنبھل جاتا ہے، سدھر جاتا ہے مگر ہم نے قوم سنبھلنا گوارا نہیں کیا۔آج بھی اس بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ آئین سپریم ہے یا پارلیمنٹ جبکہ کچھ ادارے بھی خود کو آئین سے بالا سمجھتے ہیں۔

کتنا اچھا ہو کہ ملک کے سیاستدان سب اختلافات بھلا کر ایک جگہ مل بیٹھیں اور کھلے دِل سے اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے ملک کو سیاسی طور پر مستحکم بنانے کا عزم کریں۔ ریاست کے دیگر اسٹیک ہولڈرز اُن کا ساتھ دیں، صرف اقتدار کی خاطر ملک کو انتشار کی طرف دھکیلنا ایک گھٹیا عمل ہے،سب سے پہلے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کو سیاسی لحاظ سے مستحکم بنانا ہے،کیونکہ سیاست میں استحکام آئے گا تو باقی سب مسائل حل ہو جائیں گے۔دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جس نے سیاسی استحکام کے بغیر ترقی کی ہو،جبکہ ہماری سیاست کا مطمع نظر ہی یہ رہا ہے کہ استحکام پیدا نہیں ہونے دینا۔اس منفی سوچ کی وجہ سے پاکستان آج بھی معاشی، سیاسی اور سلامتی کے حوالوں سے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ہم تو اس دائرے کو بھی نہیں توڑ سکے جو ایک کے بعد دوسرے سابق وزیراعظم کو جیل پہنچاتا ہے  ناعالم بالا پہنچا دیتا ہے۔نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنا غلطی تھی تو تسلیم کیا جانا چاہئے،عمران خان کو ہٹانا  بھی ایک سیاسی غلطی تھی، جس کی وجہ سے ہم اب تک ایک بے یقینی اور بے چینی کی زد میں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت جس میں تمام اسٹیک  ہولڈرز شامل ہوں،مگر اس کا اُس  وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہو گا، جب تک ہر کوئی اپنی ماضی میں کی گئی غلطی تسلیم نہیں کرتا، غلطیوں سے سبق سیکھنا تبھی ممکن ہے جب آپ انہیں غلطی تسلیم کریں، پاکستان میں کوئی بھی عقلِ کل یا اَن داتا نہیں۔ ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی دوڑ بھی ایک بڑی غلطی ہے۔ہر ایک کو اپنی آئینی حدود میں رہنا پڑے گا، تب کہیں جاتے ہم اُس منزل کی طرف گامزن ہوں گے جو مستحکم ”جمہوری“ نظام عادل کی حامل اور خوشحالی کے ثمرات سے بہرہ مند ہو گی۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -