تفہیمِ اقبال: تخلیقِ کائنات،شرفِ انسانی اور اقبال (2)

تفہیمِ اقبال: تخلیقِ کائنات،شرفِ انسانی اور اقبال (2)
تفہیمِ اقبال: تخلیقِ کائنات،شرفِ انسانی اور اقبال (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس موضوع پر پہلی قسط گزشتہ ہفتے (9مارچ بروز جمعہ) شائع ہوئی تھی۔ ارادہ ہے کہ تفہیمِ کلامِ اقبال کا یہ ہفتہ واری سلسلہ جاری رکھا جائے اور اقبال کے ان موضوعات پر قارئین کو آگہی دی جائے جو مارکیٹ میں دستیاب شرحوں میں اول توملتی نہیں اور اگر ملتی ہے تو صرف مختصراً کلامِ اقبال کا سلیس ترجمہ کر دیا جاتا ہے۔

بعض دوست کہیں گے کہ اقبال سے یہ شناسائی بھی غنیمت ہے۔ لیکن حضرتِ علامہ کی شاعری جس قدر ہمہ گیر اور ہمہ پہلو ہے اس کا تقاضا ہے کہ ان پہلوؤں پر بھی کبھی کبھی غور کر لینا چاہیے جو شارحین یا مترجمین نے بوجوہ نظر انداز کر دیئے یا لائق اعتناء نہ سمجھے ۔


تخلیقِ کائنات اور آدم کی پیدائش تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ یہ گویا ازل کا آغاز ہے اور اس کا انجام جب بھی ہوگا ابد کہلائے گا۔

ہم ازل اور ابد کے درمیانی دور میں سانس لے رہے ہیں اس لئے ہم پر لازم ہے کہ سب سے پہلے اپنے آغاز اور اپنی شروعات پر غور کریں۔ اقبال نے ایک اور شعر میں اسی پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے:


خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتداء کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
اس واقعہء تخلیقِ کائنات پر تمام آسمانی کتب میں کسی نہ کسی حجم اورپیرائے میں ذکر ضرور کیا گیا ہے۔ اوسط انسانی عقل و فہم یہ باور کرتی ہے کہ دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے خدا اور اس کی تمام مخلوق عرشِ اعظم پر رہتی تھی۔ خدا نے چاہا کہ اس مخلوق میں ایک اور تخلیق کا اضافہ کیا جائے۔ چنانچہ اس نے انسان کو پیدا کیاجس کا خمیر مٹی سے اٹھایا گیا۔ وہ اپنی فطرت میں نہ نوری ہے، نہ ناری ہے، صرف خاکی ہے۔

پھر نجانے کب تک حضرت آدم اور فرشتے عرشِ اعلیٰ پر اکٹھے مقیم رہے۔ ایک دن خدا نے پھر چاہا کہ اپنی تازہ تخلیق (انسان) کا امتحان لے۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو میلادِ آدم گویا ایک نیا خدائی تجربہ (Experiment) تھا۔ خدا نے ابلیس اور عرشِ اعظم کے تمام مکینوں کو طلب کیا اور انہیں حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ۔

ابلیس نے آدمِ خاکی کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور اس نافرمانی پر اس کو جنت سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد آدم کو کہا گیا کہ جس جگہ چاہو، گھومو پھرو لیکن فلاں درخت کے نزدیک نہ جانا۔ آدم نے جانتے بوجھتے ہوئے خدا کے حکم سے سرتابی کی یا ان کو شیطان نے بہکایا۔

لیکن انہوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا اور ان کو بھی خالقِ کائنات نے آسمان سے نیچے پھینک دیا۔۔۔ اسی جگہ کو زمین یا کرۂ ارض کہا جاتا ہے۔


حالیہ برسوں میں ایک مغربی فلاسفر اور ماہر ماحولیات (Environmentalist) نے میلادِ آدم کے بارے میں ایک نئی تھیوری پیش کی ہے(شائد 2012ء یا 2013ء میں) کہ انسان اس کرۂ ارض پر پہلے سے موجود نہیں تھا۔ جمادات، نباتات اور حیوانات وغیرہ موجود تھے مگر انسان نہیں تھا۔

پھر اچانک کسی اور دنیا سے ایک انسان کرۂ انسان پر آپہنچا۔ یہ کسی اور دنیا کی مخلوق تھا اس لئے اس فلاسفر نے اسے ایک نوارد (Alien) کا نام دیا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ یہ نووارد اس زمین کا باسی نہیں تھا بلکہ کسی اور زمین کا رہنے والا تھا جو ’بھولے‘ سے یہاں آ گیا اور پھر واپس نہ جا سکا۔ وہ جس دنیا سے آیا تھا وہ ہر لحاظ سے ایک Perfect اور کامل دنیا تھی۔ اس کی آب و ہوا، موسم، ماحول، باشندے، کاروبارِ حیات کے تقاضے وغیرہ تمام کے تمام مثالی تھے اور مرورِ ایام سے کاملیت (Perfection) کی حدوں تک پہنچ چکے تھے۔

اس لئے اس دنیا میں کوئی جسمانی، ذہنی یا نفسیاتی عوارض نہیں پائے جاتے تھے۔ وہ دنیا ہر اعتبار سے مثالی تھی اس لئے اس کے باشندے بھی ہر لحاظ سے مثالی تھے۔

وہاں کسی بیماری کا کوئی وجود نہ تھا۔ ہر طرف خیر ہی خیر تھی اور شرکا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ حتیٰ کہ موت بھی نہیں تھی۔۔۔ ان قابلِ رشک حالات میں وہاں کی زندگی ایک ابدی حقیقت بن چکی تھی۔


یہ حالات تھے جب اس کامل دنیا کا ایک باشندہ اتفاقاً کرۂ ارض پر آ نکلا۔ وہ فلاسفر یہ بھی کہتا ہے کہ اس کو شائد سزا کے طور پر ایک ’’جیل خانے‘‘ میں پھینک دیا گیا ۔

یعنی یہ ہماری دنیا ایک ’’جیل‘‘ تھی! وہ یہ بھی کہتا ہے کہ یہ دنیا ابھی معرضِ تکمیل میں تھی اس لئے جونہی وہ اجنبی (Alien) زمین پر اترا، اس کو ان تمام عوارض و مشکلات کا سامنا ہوا جو اس ہنوز ناتمام دنیا کے ماحول میں موجود تھیں۔

اس سے یہ بھی ہوا کہ یہ ’’ماحول‘‘ یہیں رک گیا اور ابد تک رکا رہے گا۔ یہاں ہر قسم کی مشکلات، تکالیف، عوارض اور مصائب انسان کو گھیرے رہیں گے اور اس کی زندگی کا سائیکل نامعلوم اور غیر معینہ رہے گا۔ پتہ نہیں اس نے کب مرنا ہے اور کب پیدا ہونا، جوان ہونا اور بوڑھا ہو کر اسی زمین میں دفن ہو جانا ہے۔


مغرب کے وہ لوگ جو قرآنِ حکیم میں بیان فرمائی گئی میلادِ آدم کی کہانی سے نابلد تھے،ان کے لئے اس فلاسفر کی یہ تھیوری بڑی انقلاب انگیز تھی اور اس کا بہت چرچا ہوا۔

اس فلاسفر کا نام Dr Elliis Silver ہے اور اس کے بارے میں جو قاری چاہیں وہ انٹرنیٹ پر جا کر اس کی مزید تفصیلات دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔


لیکن یہ تمام کہانی، قصہ ء آدم و ابلیس کے عنوان سے قرآن حکیم میں آج سے 14سو سال پہلے مرقوم کر دی گئی ہے۔ اس کے کئی پہلو ہنوز تشنہ ہیں لیکن قرآن میں اس تشنگی کا علاج بھی بیان فرما دیا گیا ہے۔۔۔۔تاہم ہم اس موضوع کو یہیں چھوڑیں گے کہ اس کی تفسیر و تعبیر کرنے والے کئی علماء حضرات الحمد للہ اسلامی دنیا میں موجود ہیں۔

قرآن میں بیان کی گئی تخلیقِ کائنات اور پیدائشِِ آدم کی تمام جزئیات پر ایمان لانا ہم مسلمانوں پر فرض عین ہے۔ لیکن اقبال نے اس واقعہ کو جس انداز میں نظم کیا ہے اور اس میں شرفِ انسانی کو جس طرح اجاگر کیا ہے وہ دنیا کے کسی اور فلاسفر یا دانشور کے نصیب میں نہیں آیا۔۔۔


مثلاً یہی دیکھئے کہ جب آدم کو جنت سے نکالنے کا حکم دیا جاتا ہے اور خدا اس سے ناراض ہو جاتا ہے تویہ آدم، ابلیس کے علی الرغم فوراً اپنے گناہ کی معافی مانگتا ہے۔

وہ معافی اس کو دے دی جاتی ہے لیکن فردوس سے نکالنے کا فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا۔ اور نہ ہی وہ پوچھتا ہے کہ مجھے معاف کر دینے کے بعد فردوس سے کیوں نکالا؟۔۔۔ وہ ایک ایسے کرۂ ارض پر پھینک دیا گیاجو ہنوز معرضِ تشکیل میں تھا اور ابھی تک مکمل نہیں ہوا تھا۔ اس لئے اس میں حضرت آدم کو اَن گنت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور یہ آزمائشیں اس کی تقدیر بنا دی گئیں۔


لیکن آسمان پر فرشتے جب یہ سنتے ہیں کہ ان کا وہ قابل احترام گرائیں جس کو ان سب نے سجدہ کیا تھا، یہاں سے نکال کر کسی اور دنیا میں بھیجا جا رہا ہے تو ان کو یقین سا ہے کہ وہ دنیا اس کے شایانِ شان ہوگی۔۔۔ چنانچہ آسمان کے فرشتے اکٹھے ہو کر آدم کو فردوس سے رخصت کرتے ہیں۔۔۔ ذرا دیکھئے اقبال نے اس منظر کو کس ڈرامائی انداز میں صرف پانچ شعروں میں نظم کر دیا ہے:


عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بے تابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی

سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے، لیکن
تری سرشت میں ہے کو کبی و مہ تابی

جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے
ہزار ہوش سے خوش تر تری شکر خوابی

گراں بہا ہے ترا گریہ ء سحر گاہی
اسی سے ہے ترے نخلِ کہن کی شادابی

تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر
کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی


ویسے تو یہ مختصر سی نظم اردو میں ہے اور کسی تشریح کی چنداں ضرورت نہیں، پھر بھی درج ذیل پہلو قابلِ غور ہیں:


1۔ فرشتے یہ سمجھتے ہیں کہ آدم کی ’’بے تابی‘‘ اس کا عظیم ترین سرمایہ ہے جو کسی فرشتے یا حور و غلماں کو میسر نہیں۔ ان کو ہرگز معلوم نہیں کہ یہ انسان (بشر) خاکی ہو کر بھی پارے کی طرح ہمہ وقت بے قرار اور بے تاب کیوں رہتا ہے۔ اقبال نے اسی مضمون کو ایک اور جگہ مزید وضاحت سے بیان کیا ہے:


متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی


2۔ دوسرے شعر سے لے کر آخری شعر تک فرشتے انسان کی خوبیوں اور اس کے اوصافِ حمیدہ کا قصیدہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ اور اسے رخصت کرتے ہوئے مخاطب کرکے کہتے ہیں: ’’سنا ہے کہ تو اگرچہ خاک سے پیدا ہوا ہے لیکن تیری فطرت میں خاک سے اوپر اٹھ کر چاند ستاروں تک بلکہ ان سے بھی اوپر پہنچ جانا ہے۔۔۔‘‘ ۔۔۔پھر کہتے ہیں کہ : ’’اگر تمہیں خواب میں بھی معلوم ہو جائے کہ تو اتنا خوبصورت اور حسین ہے تو تُو کبھی ہوش میں نہ آئے اور سوتا ہی رہے۔۔۔‘‘۔۔۔ ایک اور خوبی یہ بھی گنوائی جا رہی ہے کہ انسان رات کے پچھلے پہر جب رو رو کر اللہ کے حضورت اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو اس سے اس کی عظمت مزید بڑھ جاتی ہے (حضرت آدم نے اللہ کریم کی سرتابی کا جو گناہ کیا تھا، فرشتے اس کا حوالہ اسی ’’گریہء سحر گاہی‘‘ میں دے رہے ہیں۔۔۔) ۔۔۔اور آخری شعر میں تو ساکنانِ فردوسِ بریں نے انسان کی فطرت کے اس راز سے یکسر پردہ اٹھا دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی نواؤں سے زندگی کے پوشیدہ ممکنات (Potentials)بے پردہ ہو گئے ہیں۔ حضرتِ آدم کے زمین پر پاؤں دھرنے سے پہلے اس کائنات میں زندگی بالکل خاموش اور بے آواز تھی لیکن انہوں نے نہ صرف اس کرۂ ارض پر بلکہ زمین سے تابہ افلاک ہر شے میں زندگی کا تحرک اور حرکیت (Mobility) دوڑا دی ہے۔۔۔ اور یہی تحرک دراصل مقصودِ کائنات بھی ہے!


اقبال نے یہ نظم کہنے کے بعد اگلی نظم میں ان امکانات (Opportunities) کی طرف اشارہ کیا ہے جو یہ زمین کہ جس میں وہ پھینکا گیا ہے اس کو آفر (Offer) کر سکتی ہے۔۔۔ قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ جب خدا، حضرت آدم کو سزا کے طور پر بہشت سے نکال دیتا ہے تو فرشتے اس کو باقاعدہ ایک ظہرانہ (یا عشائیہ) دیتے ہیں اور اس ’’انسان‘‘ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں جس کے سامنے سب نے جھک کر سجدہ کیا تھا اور جب وہ بہشت سے رخصت ہو جاتا ہے تو جس زمین پر اس نے باقی زندگی گزارنی ہے وہ بھی اس کا استقبال بڑی آن بان سے کرتی ہے۔ اقبال نے اپنی اس دوسری نظم کا عنوان رکھا ہے:’’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘۔۔۔


یہ نظم بھی حد درجہ ڈرامائی تاثر کی حامل ہے۔ اگر آپ بلند آواز سے اس کی قرات کریں گے تو معلوم ہوگا کہ آپ گویا ایک ڈرم / نقارہ پیٹ رہے ہیں۔ نظم کا صوتی زیرو بم اور آہنگ ہر سامع پر وجد کی سی کیفیت طاری کردیتا ہے۔ اس کا پہلا بند آپ نے شائد بارہا پڑھا ہو گا لیکن اس پس منظر میں ایک بار پھر اس پہلے بند کو پڑھیں اور دیکھیں کہ اس کا صوتی طمطراق کیا ہے:


کھول آنکھ ،زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اِس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
آئینِ جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو، معرکہ ء بیم و رجا دیکھ
(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -