سموگ کا مستقل حل درکار ہے
پنجاب حکومت نے سموگ کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہیلتھ ایمرجنسی کے علاوہ دونوں شہروں میں جمعے، ہفتے اور اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن ہو گا، دونوں شہروں میں ہفتے سے آئندہ اتوار تک تعمیرات پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ہیلتھ ڈیسک اور ہسپتالوں میں سٹاف کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں جبکہ محکموں کو ادویات وافر مقدار میں مہیا کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔سینئر وزیر نے درخواست کی کہ شہری موٹر سائیکل پر ایمرجنسی کے سوا باہر نہ نکلیں اور ماسک کا استعمال کریں۔ سینئر وزیر کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت سموگ کی روک تھام کے لئے ہر ممکن اور دن رات کوشش کر رہی ہے،زِگ زیگ ٹیکنالوجی پر نہ آنے والے بھٹے مسمار کیے جا رہے ہیں تاہم اِس پر قابو پانا ایک لانگ ٹرم پراسیس ہے جس کے لئے 10سالہ پالیسی دے دی ہے، فی الحال اِس پر قابو پانے کے لئے تین ماہ کے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں،آئندہ چند روز کا ڈیٹا دیکھ کر مزید فیصلے کریں گے، ابھی سکول مزید ایک ہفتے تک بند رہیں گے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسز ہوں گی،ریسٹورنٹس کو ”ڈائن اِن“ کے لئے شام چار بجے تک کا وقت دیا گیا ہے اور ٹیک اوے رات آٹھ بجے تک کھلا رہے گا۔دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ میں بھی سموگ کے حوالے سے درخواست کی سماعت ہوئی، جس میں پنجاب حکومت کو سموگ کے خاتمے کے لئے 10سال کی پالیسی بنانے کی ہدایت کی گئی۔سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں الیکٹرک بسیں چلانے کے لئے بجٹ مختص کردیا ہے، آئندہ سال جون سے قبل یہ الیکٹرک بسیں سڑکوں پر ہوں گی جبکہ صوبائی حکومت فوڈ سکیورٹی سے متعلق اقدامات بھی کر رہی ہے۔اُنہوں نے مزید کہا کہ سیلاب کی صورتحال سے نبٹنے اور بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے لئے بھی اقدامات کر رہے ہیں،زمینی سطح کا درجہ حرارت بڑھنے سے روکنے اور اربن فاریسٹ پر کام کیا جا رہا ہے،مارچ میں عدالت کو اس کی رپورٹ دیں گے۔ عدالت نے ”بیجنگ ماڈل“ کو دیکھ کر معاونت کرنے کی ہدایت بھی کی۔ عدالت ِ عالیہ نے حکومتی اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے پر پابندی لگائے، زیر زمین پانی محفوظ کرنے والے پودے کو زیادہ سے زیادہ لگایا جائے، حکومت10 مرلہ گھروں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا لازمی قرار دے۔ عدالت نے آئندہ ہفتے سموگ کے تدارک کے اقدامات پر عمل درآمد کی رپورٹ دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔
اِس وقت پنجاب کی صورتحال خاصی مخدوش ہے، صوبائی محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں گزشتہ ماہ سموگ کے باعث 19 لاکھ سے زائد افراد کو ہسپتال کا رُخ کرنا پڑا، شہریوں میں سانس اور دمے کی بیماری کے ساتھ ساتھ فالج اور دِل کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق اکتوبر میں 19 لاکھ 34 ہزار سے زائد سانس کی بیماری کے کیس رپورٹ ہوئے،ایک لاکھ 19 ہزار سے زائد دمے کے مرض کا شکار ہوئے، 13 ہزار 773 افراد دِل کے امراض میں مبتلا سامنے آئے جبکہ پانچ ہزار سے زائد فالج کے کیس رپورٹ ہوئے۔
حکومت ہنگامی اقدامات تو کر رہی ہے لیکن اِن سب کا سموگ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑ رہا، ایک ہفتے سے سکول بند ہیں لیکن پھر بھی جمعتہ المبارک کو لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرِفہرست تھا اور ائیر کوالٹی انڈیکس انتہائی مضر تھا، ملتان اور رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ موسم کی بدلتی صورتحال کے باعث یہاں دُھند بھی پڑنا شروع ہو گئی ہے جو کہ حد ِ نگاہ کو کم کر رہی ہے اور اِس وجہ سے نہ صرف موٹر وے کے مختلف سیکشن بند رہے بلکہ فضائی آپریشن بھی متاثر ہوا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب میں دُھند کی وجہ سے مختلف ہوائی اڈوں کا فلائٹ آپریشن شدید متاثر ہے، 11 پروازیں منسوخ کر دی گئیں جبکہ تین کو متبادل ائیرپورٹس پر اتارا گیا، لگ بھگ 53 پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں۔ کہا جا رہا ہے کہ لاہور اور راولپنڈی کے علاوہ پنجاب کے بالائی جبکہ خیبرپختونخوا کے بعض اضلاع میں بارش متوقع ہے جس سے سموگ میں کمی آ سکتی ہے۔ وزیراعظم نے بارش کیلئے شہریوں سے نمازِ استسقاء ادا کرنے اور دُعا مانگنے کی اپیل کی، بادشاہی مسجد کے علاوہ بھی کئی مساجد میں خصوصی دُعا کی گئی۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سموگ کا مسئلہ تو گزشتہ کئی سال سے درپیش ہے،ہر سال اِن مہینوں میں اِس پر قابو پانے کے لئے ہنگامی اقدامات کر لئے جاتے ہیں لیکن کوئی مربوط پالیسی نظر نہیں آتی، جن ممالک نے اِس پر قابو پایا ہے اُنہوں نے ایک باقاعدہ سوچ سمجھ کر تحقیق کی بنیاد پر لائحہ عمل طے کیا اور پھر اِس پر ڈٹ گئے جس کی وجہ سے وہ اس پر قابو پانے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ چین، میکسیکو، جنوبی کوریا اور برطانیہ کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ حکومت پنجاب بھلے ہی جو بن پا رہا ہے کر رہی ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اندھیرے میں تیر نہ چلائے۔اب نومبر سے جنوری تک شادیوں پر پابندی لگانے کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں،شادی ہال بند کرنے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں،اِس سے سموگ قابو میں آئے یا نہ آئے لوگوں کے لئے مزید مسائل کا انبار ضرور لگ جائے گا۔ حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اِس کے لئے پورا سال ہی ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے،پودے لگانے کی ضرورت ہے،یہاں ہزاروں ایکڑ پر کھڑے جنگلات کٹتے جا رہے ہیں، زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ لاہور کے اطراف میں قائم درجنوں ہاؤسنگ سوسائٹیاں دراصل اِس کے گرد صدیوں سے قائم ماحولیاتی ”کْشن“ کو ختم کر کے بنائی گئی ہیں، اِس سال ملتان اور اِردگرد کے شہروں میں سموگ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ سونے پر سہاگہ صوبے کے تمام بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ہر شخص اپنی سواری رکھنے پر مجبور ہے،سڑکوں پر گاڑیوں کا طوفان ہے اور اتنا ہی دھواں فضاء میں شامل ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشیں کم ہو گئی ہیں، خشک سالی کا سامنا ہے،اگر بارش زیادہ ہو جائے تو سیلاب آ جاتے ہیں، بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں،ماہرین ماحولیات کئی دہائیوں سے اِن سب مسائل کی طرف اشارہ کر رہے تھے، شور مچا رہے تھے، وارننگ دے رہے تھے لیکن کسی نے اُن کی بات نہ سنی۔پالیسیاں بن تو جاتی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد ندارد،جہاں بجٹ حقیقی معنوں میں خرچ ہونا چاہئے اُس طرف توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ بیجنگ نے فضاء میں زہریلے ذرات کی شرح کو 10 فیصد تک کم کیا ہے اور اِس کے لئے اُس نے چار سال کے قلیل عرصے میں اپنا بجٹ چند سو ملین سے بڑھا کر اربوں ڈالر تک پہنچا دیا، شہر بھر میں سائیکل کے استعمال کو فروغ دیا، دھواں چھوڑتی ٹرانسپورٹ کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ہر وہ قدم اٹھایا جس سے فضا ء بہتر بنائی جا سکتی تھی۔
سموگ کی اصل وجہ گاڑیوں کا دھواں ہے، ”فاسل فیول“ موسمیاتی تبدیلیوں کی سب سے اہم وجہ ہے اور یہ بات بین الاقوامی سطح پر گزشتہ سال دبئی میں ہونے والی کاپ۔28 میں تسلیم کر لی گئی تھی۔ اب تو ایک مقامی رپورٹ نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ سموگ میں 83 فیصد حصہ ٹرانسپورٹ کے دھوئیں کا ہے، فصلوں کو جلانے سے پانچ فیصد دھواں پیدا ہوتا ہے، فیکٹریوں یا بھٹوں کے دھویں کا حصہ چار فیصد ہے جبکہ بقیہ آٹھ فیصد آلودگی تعمیرات اور مائننگ سمیت مختلف وجوہات کی وجہ سے بڑھتی ہے۔حکومت ِ پنجاب لاہور میں الیکٹرک بسیں چلانے کا منصوبہ بنا رہی ہے اِس پر جنگی بنیادوں پر کام ہونا چاہئے بلکہ سموگ زدہ شہروں میں ہر طرح کی ٹرانسپورٹ کو جتنی جلدی ہو سکے الیکٹرک ٹرانسپورٹ سے تبدیل کر دینا چاہئے۔ سموگ کی شکل میں آنے والی مصیبت کا سامنا کرنے کے لئے سب کو مل کر کوشش کرنی ہو گی،اپنی ذمہ داری محسوس کرنی ہو گی، ہنگامی اقدامات کر کے وقت ٹالنے کی بجائے مستقل حل تلاش کر کے اِس کے خاتمے کے لئے ڈٹ جانا چاہئے۔