مجھ سے برداشت نہ ہوا تیز تیز قدموں سے اُسکی جانب بڑھا،اچانک بہت ساری اور شدید عربی آگئی، اسے کہا ”کیا تم بدمعاش ہو، کس بات کے پیسے لیتے ہو؟“

مجھ سے برداشت نہ ہوا تیز تیز قدموں سے اُسکی جانب بڑھا،اچانک بہت ساری اور شدید ...
مجھ سے برداشت نہ ہوا تیز تیز قدموں سے اُسکی جانب بڑھا،اچانک بہت ساری اور شدید عربی آگئی، اسے کہا ”کیا تم بدمعاش ہو، کس بات کے پیسے لیتے ہو؟“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:32
اب مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں تیز تیز قدموں سے سیدھا اُس شخص کی جانب بڑھا۔ پھراچانک مجھے بہت ساری اور شدید عربی آگئی۔ میں نے اسے کہا کہ ”کیا تم یہاں کے بدمعاش ہو۔ کس بات کے پیسے لیتے ہو تم، میں ابھی تمہاری شکایت پولیس کو کرتا ہوں“۔ وہ مجھے عربی بولتا سن کر ہڑبڑا سا گیا اور پولیس کی دھمکی پر تو اس کی رہی سہی جان بھی نکل گئی۔ کہنے لگا ”میں تو اللہ کے واسطے مانگتا ہوں۔“ اس کے بعد وہ اپنا بھاری بھر کم مصری چغہ سنبھال کر وہاں سے کھسک کیا۔ میرے دونوں گائیڈ مجھے یوں عربی بولتا سن کر کچھ پریشان سے ہوگئے تھے۔ عبدو بھی اب بے یقینی کی کیفیت میں مجھے دیکھے جا رہا تھا۔ اب صورت حال کچھ یوں تھی کہ میرا وہ عارضی گائیڈ تیز تیز قدموں سے ہمارے آگے آگے چل رہا تھا اور ہر اپنے ہی جیسے حلئے والے بندے کو اشارہ کر کے آہستگی سے کہتا جاتا تھا کہ اس شخص سے بچ کر رہو،یہ عربی جانتا ہے۔ میں بھی یہ سن کر مسکراتا رہا۔
کچھ آوارہ گردیاں 
ٹیکسی ڈرائیور نیند پوری کرکے اٹھ گیا تھا مگر وہ ابھی تک جمائیاں لے رہا تھا جس سے بچنے کیلئے اس نے مسواک دانتوں میں اڑا رکھی تھی۔جب بھی اسے جمائی آتی، اس کی مسواک اچھل کر اس کے جبے کے دامن میں جا گرتی، جسے وہ فوراً اٹھا کر منھ میں ٹھونس لیتا۔
 راستے میں بھوک کا تذکرہ ہوا تو موٹے ڈرائیور نے کہا کہ یہ مجھ پر چھوڑ دو اور یہ کہ آج وہ ہمیں قاہرہ کا بہترین کھانا کھلائے گا۔ ہم نے ٹھیک ایسا ہی کیا اور یہ سب اسی پر چھوڑ دیا۔ وہ پتہ نہیں کہاں سے گھومتا گھماتا ہمیں دریائے نیل سے نکالی ہوئی ایک چھوٹی سی نہر کے کنارے پر بیٹھے ہوئے ایک بندے کے پاس لے گیا جو وہاں برگد کے ایک بڑے درخت کے نیچے چھوٹی سی دیگ کے اردگرد تین چار لکڑی کی بینچیں اور میز لگائے بیٹھا تھا۔ اس دیگ میں مصری پلاؤ بنا ہوا تھا، جس میں اس نے کشمش، اخروٹ اور کاجو کے علاوہ اور بھی میوہ جات اور گوشت کی بڑی بڑی بوٹیاں ڈالی ہوئی تھیں۔ چاولوں میں زیتون کا تیل اس قدر زیادہ ڈالا ہوا تھا کہ جب وہ کفگیر سے چاول پلیٹوں میں ڈال رہا تھا تو اس میں سے تیل کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ وہ جو کچھ بھی بنایا گیا تھا،لیکن حقیقتاً وہ بہت ہی لذیذ پلاؤ تھا جس کا ذائقہ بہت ہی نرالا اور نہ بھولنے والا تھا۔ میں تو زیتون کے تیل کی وجہ سے زیادہ نہ کھا سکا اور بمشکل ایک تہائی ہی کھایا ہوگا کہ دل بھر گیا عبدو نے بھی آدھے چاول بیچ میں ہی چھوڑ دیئے تھے۔ اس کے بعد اس بے حد خوش خوراک ڈرائیور نے نہ صرف اپنی پلیٹ صاف کی بلکہ ہم دونوں کا بچا ہوا پلاؤ بھی اپنی طرف کھینچ کر سب کچھ چٹ کر لیا۔ کھانا ختم کرکے اس نے منھ کھول کر بلند آواز سے ایک انتہائی بے ہودہ سا ڈکار لیا۔ عبدو تو چپ ہی رہا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی میری اچھی خاصی مسکراہٹ نکل گئی جو اس وقت کافور ہوگئی جب دیگ والے نے  8پاؤنڈ کا خرچہ بتادیا،1 پاؤنڈ بخشش اس کے علاوہ تھی جس کی وجہ سمجھ نہیں آئی کیونکہ وہ ہی مالک، وہ ہی باورچی اور وہ ہی ویٹر تھا۔اللہ کا شکر ہے کہ اس نے 3کے بجائے ایک ہی بخشش کا سوال کیا تھا، ورنہ حساب لمباہو جانا تھا۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -