ایل ڈی اے میں چیف میٹرو پولیٹن پلانر کی پیشکش کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا، اس میں میرے لیے لاہورکیلئے کچھ بہتر کر گزرنے کے مواقع موجودتھے

ایل ڈی اے میں چیف میٹرو پولیٹن پلانر کی پیشکش کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا، اس ...
ایل ڈی اے میں چیف میٹرو پولیٹن پلانر کی پیشکش کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا، اس میں میرے لیے لاہورکیلئے کچھ بہتر کر گزرنے کے مواقع موجودتھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:75
شفقت قریشی صاحب کی جاپان سے واپسی سے کچھ ہی پہلے شاہد حامد صاحب ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے ایل ڈی اے میں چیف میٹرو پولیٹن پلانر کی حیثیت سے شامل ہونے کی پیشکش کی۔ دراصل اس وقت ورلڈ بینک کی طرف سے ایک بڑے منصوبے کا آغاز کیا جا رہا تھا جس کا نام اربن ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹریفک سٹڈی آف لاہور تجویز کیا گیا تھا۔ شاہد حامد صاحب کی خواہش تھی کہ میں اس منصوبے کا انتظام و انصرام سنبھال لوں۔ میں اس سلسلے میں دی گئی پیشکش اور سہولتوں کے بارے میں بہت پرجوش تھا۔ اور میں نے بالآخر یہ چیلنج قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ اس میں میرے لیے لاہور شہرکے مستقبل کے لیے کچھ بہتر کر گزرنے کے مواقع موجود تھے۔ 
 چیف میٹروپولیٹن پلانر، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی
میں نے 21 اکتوبر  1976 کو لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں چیف میٹروپولیٹن پلانر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کر لی۔ شاہد حامد صاحب ایک بہت ہی باصلاحیت اور دیانتدارافسر تھے۔ انھوں نے ادارے میں بہترین  ماحول، نظم و ضبط اور قیادت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ان کی دوستانہ حکمت عملی ہمارے کام کیلیے مہمیز کا کام دیتی تھی جس سے حوصلہ پا کر ہم نے کئی منصوبے شروع کئے۔ ان کے پاس اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو کی طرف سے نئے منصوبے شروع کروانے کا اجازت نامہ بھی تھا، اور خود ان کے اپنے بھی حکومت میں ہر سطح کے حکام سے ذاتی  تعلقات بھی تھے کیونکہ وہ خود بھی ایک سول سرونٹ تھے، اس لیے ہم نے اپنے منصوبوں کی منظوری حاصل کرنے کے لیے کبھی کسی قسم کی کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کی تھی۔ یہاں پروجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے میری ذمہ داری عالمی بینک کے منصوبے کی نگرانی کرنا اور ان کو اس سلسلے میں ضروری رہنمائی فراہم کرنا تھی۔ چنانچہ مجھے بین الاقوامی ادارے میں غیر ملکی ماہرین کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا،اور میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس کے ساتھ میں نے رضاکارانہ طور پر ڈائریکٹر ہارٹی کلچر کا اضافی چارج لینے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ مجھے علم تھا کہ یوں میرا کام بہت بڑھ جانے والا تھا لیکن لاہور کے بارے میں میرے اپنے کچھ خواب تھے جنہیں میں یہاں حقیقت کا روپ دینا چاہتا تھا۔ جس کے لیے یہ ایک انتہائی مناسب موقع تھا۔ شاہد حامد صاحب نے میری اس پیشکش کو سراہا اور مجھے یہ کام بھی تفویض کر دیا۔ یوں اب میں بیک وقت 3 مختلف ذمہ داریوں کے لیے کام کر رہا تھا۔ جس میں چیف میٹروپولیٹن پلانر، پروجیکٹ ڈائریکٹر عالمی بینک پروجیکٹ اور ڈائریکٹر ہارٹیکلچرشامل تھے۔ اب مجھ پر کام کا شدید دباؤ تھا میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مجھے اپنی بنیادی ملازمت کے علاوہ کچھ عرصے کے لیے 2 اضافی ذمہ داریاں بھی انجام دینا پڑیں گی۔
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -