بچیوں کی پکار سنو
سر پر گلابی رنگ کا سکارف ، شوں شوں کرتی ناک،تیز دھوپ میں جلتی آنکھیں، بھاری سا سکول بیگ، مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑا ہوا روٹی کا سخت سا ٹکڑاجو صبح سویرے ماما نے سکول جاتے ہوئے دیا تھا، مین سڑک سے قدرے ہٹ کر پگڈنڈی پرخاموشی ہے، یہی راستہ گل بانو کے سکول آنےجانے کا ہے۔جوکابل سے کچھ دور ایک گاؤں میں رہتی ہے،گل بانو بھاری بیگ کے باوجود اچھلتی کودتی گھر پہنچی آجاتی ہے۔
گل بانو کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اُس کے گھر کے قریب ہی 20 سال بعد صدارتی محل پر اب کس کا کنٹرول ہے؟ وہاں کس کا جھنڈا اتر گیا ہے اورکس کاجھنڈا لہرا دیا گیا ہے، بیس سال سے اس کی حسین سرزمین پررہنے کے بعد ایک سپر اور جدید ترین ملک امریکا واپس چلا گیا ہے، بڑی طاقتیں اب کیا سوچ رہی ہیں؟
گھر پہنچ کر گل بانو نے واجبی سا ہاتھ منہ دھویا اور کھانا کھانےبیٹھے گئی، بس پھر کیا تھا، کھانا بھول کر اپنی دوستوں کی خوب شکایتیں لگانے لگی، امی بار بار اُس کا منہ چومتیں اورموقع پا کر چھوٹا سا نوالہ بھی اُس کے منہ میں ڈال دیتیں۔
گل بانوکھانے کے دوران ہی اُٹھ کھڑی ہوئی اور صحن میں ہتھوڑی سے زنجیر توڑتے اپنے بھائی گل محمد کی طرف اشارہ کر کے امی سے کہنے گی،آج کل ہمارے اوپر سے بہت جہا ز اڑتے ہیں ناں امی، ٹیچر کہہ رہی تھیں کہ بچےلائق ہوں تو ایسے جہاز وہ بھی اڑا سکتے ہیں، یہ گل (گل بانو کا بھائی) سارا دن گلی میں کھیلنے کے بجائے اسکول جائے تو بڑا ہوکرجہاز اڑاسکتا ہے۔اس معصوم سی خواہش پر اُس کی امی نے گل بانو کی پونی سے پکڑکراس کا سرجھٹکا اور کہا کہ بس کر ، اب کھانا کھا۔ اور ہنس کر کہنے لگیں، جانے وہ کون سا زمانہ ہو گا کہ تیرا بھائی جہاز اُڑائے گا۔
مذاق میں کہتےان الفاظ کےساتھ ہی گل بانو کی امی کےدل نے ہکچولا کھایا اور سچ مچ شدید خواہش اور احساس پیدا ہو اکہ وہ رہے نہ رہے لیکن اس کی بیٹی پائلٹ ضرور بنے۔ شام کو گل بانو کے ابو کام سے واپس آئے تو اس کی امی نے انہیں کٹورےمیں پانی دیتے ہوئےساری بات سامنےرکھ دی۔
گل بانو کا ابو سرکاری سکول میں ملازم ہے۔وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر کہنے لگا، یہاں توسکول ہی پانچویں تک ہے۔گل بانو کو میں پڑھنے کےلئےکہیں بھی بھیج سکتاہوں۔اوروہ پھر خاموش ہوگئے۔۔یہ صرف گل بانو کی کہانی ہے نہ صرف تنہا اس کے والدین کی دبی ہوئی خواہش، افغانستان کے طول و عرض میں لاکھوں والدین یہ سوچتے ہیں۔اچھے سکول،کالج اوریونیورسٹیاں ان کی بھی خواہش ہیں لیکن مدتوں کی جنگ نےآج تک اس ملک میں ترقی نہیں ہونے دی ۔
اس وقت افغانستان اُن ممالک میں شامل ہےجہاں دنیامیں شرح خواندگی سب سےکم ہے۔اگرچہ یونیسیف نے کمیونٹی بیسڈ سکولز اور ایکسلریٹ لرننگ سینٹرز قائم کئے ہیں جن کا مقصد پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں اور بچوں کا ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں کل 36 ہزار سکول ہیں جن میں سے متعددسکولوں کے پاس ڈھنگ کی عمارت تک نہیں، تقریباً 37 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ کابل کےاردگردسکولوں میں بھی نہ مناسب کمرے ہیں، پانی پینے کے لئے گلاس ہیں نہ سینیٹری ٹوائلٹ موجود ہے ۔
(زینب وحید ماحولیاتی تبدیلی کیلئے کام کرنے والی معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور کیمرج کی طالبہ ہیں۔ وہ صف اول کی مقررہ،مصنفہ اورمتعددشہرت یافتہ اداروں کی سفیربھی ہیں زینب وحید لمز جیسے تعلیمی ادارے میں لڑکیوں کی تعلیم کی سفیر بھی ہیں۔ زینب وحید مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں جس کے بعد انہیں اقوام متحدہ کی یوتھ سمٹ میں شامل کیا گیا ہے۔زینب وحید سے رابطے کے لئے ان کے فیس بک اور ٹویٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔twitter.com/UswaeZainab3
facebook.com/uswaezainab.official)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔