ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 40
خواتین کی خدمت میں ایک تقریر
ملبورن سے تقریباً ڈیڑ ھ گھنٹے کی اڑ ان کے بعد جہاز سڈنی پہنچا۔ اس سفر کی واحد منفرد بات یہ تھی کہ زندگی میں پہلی دفعہ ان خواتین کو ائیر ہوسٹس کی خدمات سرانجام دیتے دیکھا جنھیں ہمارے محاورے کے مطابق گھروں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنا چاہیے یا پھر اپنے پوتے پوتیوں کو کھلانا چاہیے ۔ مغربی خواتین چونکہ یہ دونوں کام نہیں کرتیں ، اس لیے یہ محاورے استعمال نہیں ہو سکتے ۔ ماشاء اللہ عمریں طویل اور صحت بڑ ھاپے میں بھی اچھی رہتی ہے ، اس لیے لوگ جب تک محتاج نہ ہوجائیں اولڈ ہوم جانا پسند نہیں کرتے ۔شاید اسی لیے ائیر لائن نے ائیر ہوسٹس رکھ لیا کہ مسافروں کومامتا کی شفقت سے نواز سکیں ۔ یہ ویسے کوئی برا آئیڈیا نہیں ہے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 39 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اس بات کا ذکر ڈاکٹر ذوالفقار صاحب سے کیا تو انھوں نے کہا کہ پی آئی اے کی ائیر ہوسٹسز بھی ایسی ہی ہوتی ہیں ۔ میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرسکا۔ ان خواتین کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ہماری خواتین الحمدللہ اپنی صحت اور فٹنس سے اتنی غافل ہوتی ہیں کہ تیس کے بعد ہی چالیس اور چالیس ہی میں پچاس کی لگنے لگتی ہیں ۔
بہت سے شوہر صاحبان نے مجھ سے یہ شکایت کی ہے کہ ان کی بیگمات بچوں کی پیدائش کے بعد بے ڈھنگا ہونا اپنا حق سمجھتی ہیں ۔ان کا یقین ہوتا ہے کہ بچوں کی بیڑ یاں پڑ نے کے بعد شوہر نے کہیں نہیں جانا۔سچی بات یہ ہے کہ ہماری خواتین فٹنس کے تصور سے واقف نہیں ہیں ۔ان کا عمومی مشاہدہ صرف یہ ہے کہ ان کے دادا کا انتقال ان کی دادی، نانا کا انتقال ان کی نانی اور ابا کا انتقال ان کی اماں سے پہلے ہوا ہے ۔ اس لیے انھیں یقین ہوتا ہے کہ و ہ بھی شریعت کے ایک حکم یعنی عدت کا ثواب حاصل کیے بغیر اس دنیا سے رخصت نہیں ہوں گی۔چنانچہ وہ ایکسرسائز وغیرہ جیسی مشقتوں کو صرف مردوں ہی کے کرنے کا کام سمجھتی ہیں ، گرچہ یہ کام مرد بھی نہیں کرتے ۔ یہاں تک کہ ان کے پکائے ہوئے مرغن کھانے کھاکھا کر مردوں کو دل کا دورہ پڑ جاتا ہے ۔ اس کے بعد ہی کہیں جا کر مرد حضرات ڈاکٹر کے مجبور کرنے پر کچھ واک وغیرہ شروع کرتے ہیں ۔ گرچہ بڑ ھاپے کی واک بڑ ھاپے کی توبہ کی طرح بہت زیادہ مفید ثابت نہیں ہوتی۔
بات چل نکلی ہے تو دل چاہتا ہے کہ کچھ نازک حدود میں بھی میں قدم رکھ دوں ۔ یہ مظلوم شوہروں کے وہ جذبات ہیں جو میرے پاس بطور امانت ہیں ۔امانت پہنچانا بہرحال ایک اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ خواتین اپنے شوہروں کی دیگر باتوں کی طرح اس بات کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیتیں ۔کسی اور کے شوہر کی اس طرح کی باتوں کو سنجیدگی سے لینے کا امکان کہیں زیادہ ہے ۔ یہاں یہ عرض اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ خاکسار اس طرح کی گفتگو خواتین کی کسی مجلس میں یا کسی اصلاحی یا دینی مضمون میں نہیں کرسکتا۔ اس لیے سفرنامے کے بیچ میں قلم پھسل گیا ہے تو اس کے سنبھلنے سے قبل ان چیزوں کا تذکرہ نامناسب نہیں لگتا۔ شاید کسی شوہر کا بھلا ہوجائے ۔
بات یہ ہے کہ ہماری مستورات صحت کے علاوہ فٹنس کے جمالیاتی پہلو سے بھی ناواقف ہیں ۔ جمال اور سنگھار سے ان کے ذہن میں میک اپ اور زیور ہی آتا ہے ۔اکثر والدین اب اپنی بچیوں سے گھر کے کام نہیں کراتے ۔ باہر کا جنک فوڈ بھی خوب کھلاتے ہیں ۔ اس لیے بچیاں بچپن ہی سے بے ہنگم ہوجاتی ہیں ۔ جس کے بعد فٹنس کا خیال صرف اسی وقت آتا ہے جب بچی شادی کی عمرکے قریب پہنچ جائے ۔گرچہ اس میں زیادہ زور ایکسرسائز یا واک سے زیادہ بے تکی اور نامناسب ڈائٹ پر ہوتا ہے ۔ رشتہ آجائے اور شادی کی ڈیٹ فکس ہوجائے تو یہ عمل اور تیز ہوجاتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ شوہر نامدار گھونگھٹ اٹھا کر ان کی خدمت میں منہ دکھائی پیش کرے ۔ منہ دکھائی کا یہ محاورہ غالباً کچھ عفت مآب خواتین ہی نے ایجاد کیا تھا۔ مگر اب خواتین اس محاورے کا مطلب یہی سمجھتی ہیں کہ شوہر نے ساری زندگی منہ ہی دیکھنا ہے ۔ ۔ ۔
ویسے آگے بڑ ھنے سے قبل یہ بھی توجہ دلاتا چلوں کہ منہ دکھائی کا یہ محاورہ اب اردو لغت سے نکال دینا چاہیے ۔ اس لیے کہ آج کل کی دلہن بھری مجلس میں منہ ہی نہیں کھول کر بیٹھتی بلکہ یہ کم بخت بیوٹی پارلر والے با اہتمام دلہن کا دوپٹہ کونے پر کروادیتے ہیں تاکہ سینے پر آویزاں زیوارت اور لباس کا ڈیزائن بھی نظر آتا رہے ۔ مجلس صرف خواتین کی ہو تو چلیے ٹھیک ہے ، مگر مخلوط مجالس میں یہ بے ہودگی بہت بری لگتی ہے ۔شوہر تو بنی سنوری دلہن کا منہ اور دیگر اعضاء بعد میں دیکھتا ہے ، پوری مجلس اور خاص کر وڈیو اور تصویر بنانے والے دلہن کا قریبی معائنہ پہلے ہی کر لیتے ہیں ۔
بہرحال میں یہ عرض کر رہا تھا کہ بس اسی منہ دکھائی کی دیر ہوتی ہے ، خواتین پر سے فٹنس کا بخار ایسا اترتا ہے کہ ساری زندگی دوبارہ نہیں چڑ ھتا۔ یہاں تک کہ آخری دفعہ منہ دکھانے کا وقت آ جاتا ہے ۔ جس کے بعد موصوفہ چار کندھوں پر سوار دنیائے فانی کو چھوڑ کر دنیائے باقی کی طرف رخصت ہوجاتی ہیں ۔اس امید کے ساتھ کہ جہنم میں گئے تو وہاں چاہے آگ کا عذاب ہو، ایکسر سائز کی مشقت میں تواللہ میاں بھی نہیں ڈالیں گے ۔ اور جنت گئے تو وہاں ایکسرسائز کی کوئی ضرورت ویسے ہی نہیں ہو گی۔ یہ الگ بات ہے کہ جو لوگ جنازے کو کندھا دیتے ہیں وہ اس ویٹ لفٹنگ کے بعد کئی دن تک درد کی گولیاں کھا کر موصوفہ کے ساتھ اپنے لیے بھی دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔
میری ناقص رائے میں خواتین کو اس صورتحال کا الزام دینا زیادہ مناسب نہیں ۔شاید اس کی ایک وجہ ہمارا مذہب اور مشرقی روایات ہیں جن میں عریانی کو پسند نہیں کیا جاتا۔سو تصور یہ بن گیا ہے کہ جس کو چھپانا ٹھہرا اس کو سنوارنا کیسا۔یہ بات تو اپنی جگہ سو فیصد درست ہے کہ عریانی فواحش میں داخل ہے اسی لیے حرام ہے ۔مگریہ خاکسارتو میاں بیوی کے تعلق کے پہلو سے اس پر توجہ دلا رہا ہے ۔میں نے میاں بیوی کے تعلق میں ا س پہلو کی کمزوری کی وجہ سے کتنے خاندانوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہے یا باہمی محبت و انسیت کو کم سے کم تر ہوتے دیکھا ہے ۔ورنہ شوہر کی بے رغبتی تو اب عام سی بات ہے ۔ اسی لیے اس بات پر توجہ دلا رہا ہوں ۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں جسمانی فٹنس صحت کے پہلو سے زیر بحث رہتی ہے نہ جمال کے پہلو سے ۔باقی رہا شوہر تو جیسا کہ عرض کیا کہ اس کے بارے میں بیگمات یہ تصور کر لیتی ہیں کہ اس کے پاؤں میں تو بچوں کی بیڑ یاں پڑ چکی ہیں ، اس نے کہاں جانا ہے ۔ خیر خلاصہ اس طویل تقریر کا یہ ہے کہ معزز خواتین !اس دنیا میں ایک چیز فٹنس بھی ہوتی ہے ۔ صحت کے پہلو سے نہ سہی جمالیات کے پہلو ہی سے اس کو مسئلہ بنالیجیے ۔ خاص کر ایک ایسے دورمیں جب آپ کے شوہروں کی نگا ہوں کو ہر قدم پر امتحان کا سامنا کرنا پڑ تا ہو۔خدارا ان کا امتحان آسان کیجیے ۔ اسے اور مشکل نہ بنائیے ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 41 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں