جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔قسط نمبر27
یہ پہلا چمتکار تھا .... اگنی کے موکلان میرے سامنے حاضر ہوچکے تھے اور شعلوں کی طرح لہرا کر لپک کر میری جانب آنا چاہ رہے تھے ،ان کے ہاتھ جڑے ہوئے تھے اور مجھے پرنام کررہے تھے۔
” ذرا اس کو تو دیکھو“ معاً گنگو نے میرے کاندھے پر بیٹھ کر کانوں میں سرگوشی کی....
میں نے گردن موڑ کر گنگو کی جانب دیکھا تو اسنے بائیں شعلے کی طرف اشارہ کیا۔
یہ شعلہ دوسرے شعلوں کی نسبت چھوٹا اور نارنجی رنگ کا تھا ۔مجھے کوئی خاص وجہ سمجھ نہ آئی کہ اس میں ایسی کیا بات ہے کہ میں اسکو غور سے دیکھتا ۔ہاں وہ شعلہ سب سے چھوٹا تھا اور ایسا لگ رہا تھا وہ میرے پاس آنا چاہتا ہے۔
” اسکو اپنے پاس بلا لو ....“ گنگو نے اس طرح کہا کہ اس کے لہجے میں شرارت تھی۔میں بچہ تھا ،بچے کو ایسے لہجوں کی کیا پہچان ہوتی ہے۔لیکن اس رات مجھے لگا جیسے میں صدیوں کا بوڑھا ہوں ۔جہاندیدہ ہوں ....
میں نے ہاتھ اس شعلے کی جانب بڑھایا تو باقی اگنی موکلان بھی یکایک میرے ہاتھ کو چھونے لگے۔جونہی اگنی کے موکلان نے میرے ہاتھ کو چھوا،میرے بدن میں عجیب سا سرور پیدا ہوا،ہلکی سی لہر ہاتھوں سے ہوتی ہوئی دماغ تک پہنچ گئی.... اس سے پہلے کہ میں اپنا ہاتھ یونہی اگنی موکلان کے ہاتھوں میں دئے رکھتا ،پتا گرو نے ہاتھ سے انہیں پرے جھٹکنے کا اشارہ کیا اور میں نے دوسرے ہاتھ سے انہیں پرے دھکیل دیا۔
وہ سب سمٹ کر ایک ہوگئے،اگنی کا پرتو ایک ہوگیا،سیدھی دھار میں ایک شعلہ بن گئے ۔ میں نے صاف طور پر دیکھا کہ وہ چھوٹا سا نارنجی شعلہ ان سب میں نمایاں ہوگیا ہے۔میں نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسکو پکڑ لیا .... اگنی کو پکڑ لیا لیکن جونہی وہ نارنجی شعلہ میرے ہاتھ میں آیا وہ سرکتا ہوا ،پھیلاتا ہوا ،لچکتا ہوامیری کلائی پر لہرانے لگا۔میں نے کلائی اپنے سامنے کی تو وہ میرے چہرے کے بالکل سامنے آگیا اور اس وقت میں حیرت سے دنگ رہ گیا ....
وہ اگنی کوئی شعلہ نہیں تھا ایک چھوٹی سی گڑیا جیسی بچی تھی،گنگو جتنی.... میں کلائی کو اپنے اور قریب آنکھوں کے سامنے لے آیا۔اگنی دھیرے دھیرے ننھے وجود میں ڈھل گئی تھی اور بالکل گنگو کی طرح دِکھنے لگی تھی وہ....
” پربھو نمسکار“ اس نے ننھے ہاتھوں کو جوڑ کر پرنام کیا ۔اس دوران مجھے لگا میرے کانوں کے پاس کوئی چیز رینگ رہی ہے۔بے اختیار ہوکر میں نے کان کھجلانے کی کوشش کی تو یکایک گنگو منمنایا....” میں ہوں ،کیا کرتے ہو“
اسکی آواز پر میرا باپ اور پتا گرو دونوں نے فلک شگاف قہقہ لگایا۔” ببر تو سمجھا تھا کوئی کیڑا اسکے کان پر چڑھ گیا ہے اور کہیں لڑ نہ جائے “ پتا گرو نے ہنستے ہوئے کہا ۔
” ہاں باپو کہہ لو جو کہنا ہے۔کبھی کہتے ہو گند ہو تم اور اب کہتے ہوں کیڑا ہوں“ گنگو خفا ہوکر منمنایا ۔
” تو میرے کان پر چڑھا کیوں تھا “ میں نے پہلی بار اسکو بے تکلفی سے مخاطب کیا ” کسی دن مارا جائے گا تو ....“‘
” اس میں میرا کیا دوش ہے۔اتنا سا تو ہوں ،تو بڑاہوگاتو میں بھی قد نکالوں گا “
” پر اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔تو پھر بھی اسکا ہزارواں حصہ ہی رہے گا۔ببر چھ فٹ کا ہوگیا اور تو بس اتنا سا ........ چھ انچ ،سات انچ سے بڑا نہیں ہووے گا“ پتا گرو نے مسلسل اسے چھیڑا۔
” اس سے بہتر ہے مجھے اگنی میں ابھی سے جلا دو“ گنگو نے کہا ” اگر تم نہیں جلا سکتے تو لو میں خود کود جاتا ہوں ........“
اس کی بات سن کر اگنی میں جنم لینے والی گڑیا کا نقرئی قہقہ گونجا ۔وہ ہنسی تو جلترنگ سا پیدا ہوا ۔گنگو کو اسکا ہنسا بہت ہی برا لگا ” اچھا اب تو بھی میرا مذاق اڑائے گی “
” نمسکار گنگو بھائی میں تو ....“ وہ اپنے لبوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہنسی دباتے ہوئے بولی تو گنگو کوتو جیسے آگ لگ گئی....
” باپو............“ وہ چلایا” مجھے اگنی کی بھینٹ چڑھا دو،جلدی سے مجھے بھسم کردو باپو........میں یہ کیا سن رہا ہو.... دیکھو یہ چھایا کیا بک رہی ہے باپو........ اس سے پہلے کہ یہ مجھے پھر بھائی بولے مجھے فٹافٹ جلادو“
گنگو کی جھنجھلاہٹ نے قبر کے استھان میں قہقہوں کی بارش کردی۔
” نہ کر میرے بھائی ....“ میں نے گردن موڑ کر اسکی جانب دیکھا ،وہ مکرباز چہرہ جھکائے مصنوعی خفگی سے ناراضی کا ڈھونگ رچا رہا تھا کیونکہ جیسے ہی میں نے اسے مخاطب کیا وہ تیزی سے میرے کاندھے کو ڈھلوان بنا کر کلائی تک پہنچ گیا۔اور اگنی والی گڑیا سے دو انچ پیچھے رک گیا....
” چھایا تو جانتی ہے کہ میں تیرا ویر نہیں ،مجھے بھائی کیوں بولتی ہے.... اب اگر تو نے ایسا بولا تو میں........“ اس نے آنکھیں دکھا کر اسے مخاطب کیا تو معلوم ہوا کہ اسکا نام چھایا ہے۔
چھایا نے اپنا ہاتھ گنگو کی طرف بڑھایاتو اس نے جھٹ تھام لیا.... اور ساتھ ہی چھایا کے ساتھ جاکر چپک سا گیا ....
” اوئے حرامی ....پرے ہٹ“ پتا گرو ہنستے ہوئے گنگو سے کہا ” ابھی سے تیرے لچھن یہ ہیں تو آگے جا کر تو بڑا بدمعاش بنے گا....ببر پتر ایک بات ابھی سے جان لے .... یہ گنگو تیری چھایا ہے ،تیرا پرتو ہے،تیرے سوا یہ کسی کو نظر نہیں آوے گا .... یہ حرامی تیری حفاظت بھی کرے گا اور گیان بھی سکھائے گا مگر اس کی حرام کاریاں بھی بہت ہوں گی۔بس تو اسکو ناریوں سے پرے رکھنا “
مجھے اچھی طرح یاد ہے،اس دن گنگو اور چھایا سے مل کر مجھے بڑا اچھا لگا تھا ۔میں پتا گرو کا آشیرواد لیکر گرو کے ساتھ گھر آگیا تھا .... جب گھر میں داخل ہوا تو کچھ عورتیں ہمارے گھر میں موجود تھیں....مجھے اور گرو کو دیکھتے ہی وہ چلائیں ” فاطمہ دیکھ بابر حسین آگیا ہے“
دوسرے ہی لمحے دروازے کا پٹ کھڑکھڑایا اور میری ماں دیوانہ وار باہر آگئی ،مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنے سینے سے لپٹا لیا لیکن عجیب بات ہوگئی۔میرا من ماں کے سینے سے لپٹے رہنے کو چاہ رہا تھا لیکن کوئی طاقت تھی جو مجھے فوری ماں سے الگ ہونے پر مجبور کررہی تھی،میرے بدن میں زہریلی چیونٹیاں سی چلنے لگیں”ماں کیا کررہی ہے تو ....“ میں نے ماں کو اسکے کاندھوں سے پکڑ مخاطب کیا تو ماں یکایک چونکی ، میرا بدلا ہوا لہجہ دیکھ کر بولی ” ماں مرجائے میرے لعل تو اب کیسا ہے ،میں دیوانی ہوگئی تھی،شکر ہے میر ے مالک کاکہ تو ٹھیک ہوگیا “ اس نے مجھے دوبارہ سینے کے ساتھ لگانا چاہا تو گرو نے اسے پرے کردیا” اچھا اچھا .... اسے سانس تو لینے دے“
پراسرارعلوم اور ماورائی دنیا کی سلسلہ وار کہانی۔قسط نمبر26
عورتیں ہمیں دیکھ کر واپس ہولیں ،وہ اسی گلی میں رہتی تھیں۔ماں جب میرے پیچھے بھاگتی ہوئی آئی تھی تو دروازے پر گر کر بے ہوش ہوگئی تھی اور انہوں نے ہی اسے ہوش میں لاکر اندر بستر پر ڈال دیا تھا ۔
میری زندگی کو تو جیسے پہیئے لگ گئے تھے،میں اب سکول جانے کے قابل ہوگیا تھا ۔گرو اور پتا گرو نے مجھے بہت سے کالے علم کے منتر جاپ سیکھا دئےے تھے اور ماں بھی اب جان چکی تھی کہ میں کس راہ پر چل نکلا ہوں ۔وہ ہار گئی تھی اور میرا باپ جیت گیا تھا .... اس نے مجھے زہریلا بنا دیا تھا ۔
یہ میری زندگی کا پہلا حیران کن اور شرمناک دن تھا ۔ ابھی مجھے سکول جاتے ہوئے دو ہفتے ہی گزرے تھے ۔ مجھے ٹیچر زرینہ بہت اچھی لگتی تھی۔وہ تھی ہی ایسی ،سب بچوں سے ممتا بھرا پیار کرتیں اور مجھے یہ اچھا نہ لگتا۔جب وہ دوسرے لڑکوں کے گال پر لاڈ کرتی تو میں اندر کھول اٹھتا تھا۔اسکی عمر بیس سال تھی،سرخ و سفید رنگ اور بورے بالوں میں وہ کوئی انگریز ہی لگتی تھی،بڑی شفیق اور ہنس مکھ تھی۔میرے ساتھ بھی بڑا پیار کرتی تھی،میرا دل چاہتا تھا وہ مجھ میں سے یونہی پیار کرتی رہا کرے۔اس وقت بظاہر پانچ سال کا ہوچکا تھا لیکن اندر سے پورا تھا میں .... جوانوں والی امنگیں اندر ہی اندر پھوٹتی تھیں۔ٹیچر مجھ سے لاڈ کرتی تو میرے اندر جیسے آگ لگ جاتی،کوئی چیز میرا سینہ پھاڑ کر باہر نکلنے کو مچلتی.... میری یہ حالت دیکھ کر گنگو ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتا اور میرا مذاق اڑاتا.... اس روز تو حد ہی ہوگئی۔سارے بچے بریک ٹائم میں کلاس سے باہر تھے ۔میں کلاس روم میں ہی سرگراکر گنگو سے ایک منتر سیکھ رہا تھا ۔کہ ٹیچر زرینہ میرے پاس آگئی۔” کیا بات ہے،بریک پر نہیں جارہے“
اس نے میرے بالوں میں اپنی انگلیاں سہلاتے ہوئے پوچھا ۔
میں نے چہرہ اٹھاکر اسے دیکھا تو وہ گھبرا گئی” تمہاری آنکھیں اتنی لال کیوں ہیں بابر ....“ اس نے ہاتھ میرے گالوں پر رکھا ” تمہیں تو بخار ہے،بتایا کیوں نہیں تم نے “ وہ پریشانی سے بولی اور میرا سر اپنے ساتھ لگا کر سر میں انگلیاں پھیرنے لگی ،ایسے جیسے مائیں اپنے بچوں کو تسلی کے لئے لپٹا لیتی ہیں.... لیکن میں تو اس وقت شیطان کا ایک منتر سیکھ رہا تھا،گنگو میرے ساتھ تھا سو حرامی ایک طرف ،اکیلا گنگو ایک طرف ....میرا سر ٹیچر زرینہ کے سینے سے لگااسکے دل کی دھڑکنوں کو سن رہا تھا ۔مجھے بڑا سرور سامحسوس ہورہا تھا۔بدن میں گرمی بڑھنے لگی ،میرا سینہ بری طر ح پھڑپھڑانے لگا۔میں نے زندگی کا وہ سب سے پہلا جرم کرنے ،پہلا گناہ کرنے کے لئے ایک منتر شروع کردیا ۔میں جوں جوں منتر پڑھ رہا تھا میرے اندر کوئی حیوان انگڑائیاں لینے لگا ،میری سانس گرم سے گرم ہونے لگیں۔ اعضا جیسے کھلتے ہوئے محسوس ہونے لگے ....اُدھر ٹیچر پر میرا جادو چل رہا تھا،اسکے دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہونے لگی .... اسکے ہاتھوں کی لرزش مجھے صاف محسوس ہورہی تھی ،چند ثانئے بعد اسکا پورا بدن لذت آمیز کپکپاہٹ لیکر جھنجھلایا تو اس نے پورے زور سے میر سر اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا اور سسکی لیکر کراہی”بابر .... میرے بابر “
کمرہ میں ہم تنہا تھے اور اسکے درودیوار نے ٹیچرزرینہ کی سسکیاں سن کر اپنے کان موندھ لئے تھے،لیکن میرے اندر کا شیطان سرور کے پردے پھاڑ کر کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ہر شے سے بے پرواہ ہوگیاتھا ....(جاری ہے)