نیند اور حادثات، کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں
ناصر محمود شیخ امریکہ سے واپس آئے ہیں تو باتیں بھی عجیب ساتھ لائے ہیں، لیکن ان کا دکھ وہی ٹریفک کے حادثات ہیں جو انہیں غمزدہ کر دیتے ہیں۔ کل انہوں نے مجھے گلناز آفریں کا دلخراش واقعہ سنا کر افسردہ کر دیا۔ یہ واقعہ جو ایک حادثے سے جڑا ہے اورچند روز پہلے وقوع پذیر ہوا ہے، شائد آپ نے بھی سنا ہو مگر جس طرح غمزدہ لہجے میں ناصر محمود شیخ مجھے بتا رہے تھے، وہ ان کے اندر کے دکھ کی عکاسی کررہا تھا۔ انہوں نے بتایا گلناز آفریں ایک نوجوان لڑکی ہے، جس کا کراچی میں کینسر کا علاج ہو رہا ہے۔ کیموتھراپی کے مرحلے میں جب اس کی تکلیف حد سے زیادہ گزر گئی تو اس نے حب بلوچستان میں مقیم اپنی تین بہنوں سے کہا وہ اسے ملنے آئیں تاکہ ان کی آمد سے اس کے دکھ اور تکلیف کچھ کم ہو جائیں۔ انہوں نے بہن کی بات مان کر ایک کار کرائے پر لی اور ایک بہن نے اپنی چھوٹی بیٹی بھی ساتھ لے لی۔ یہ تین بہنیں اپنی ایک بچی کے ساتھ کراچی کے لئے روانہ ہوئیں۔ سفر کٹ رہا تھا کہ وہ انہونی ہو گئی جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ ہائی وے پر ان کی کار ایک ٹرک سے ٹکرا گئی۔ چاروں موقع پر ہی جاں بحق ہو گئیں، ڈرائیور زخمی ہوا تاہم بچ گیا۔ تقدیر بھی کیسے دن دکھاتی ہے۔ گلناز آفریں جسے کراچی میں کینسر کی کیموتھراپی کے دوران اپنی بہنوں کی صحبت اور ہمدردی چاہیے تھی،نہ صرف ان سے محروم ہو گئی بلکہ اس دکھ کے ساتھ اب شاید اسے اپنی باقی ماندہ زندگی سسک سسک کر گزارنی پڑے۔ ناصر محمود شیخ کا سوال یہ تھا اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس پر بھی کوئی بات کی جائے گی یا اللہ کی مرضی کہہ کر ہم اس بوجھ سے آزادہو جائیں گے۔ ابتدائی تحقیق کے مطابق کارکا ڈرائیور دو راتوں سے جاگا ہوا تھا اور اسے ڈرائیونگ کے دوران اونگھ آ گئی جس سے کار غیر متوازن ہو کر حادثے کا شکار ہوئی۔ ابھی دو دن پہلے ملتان کے دو تاجر موٹروے پر حادثے کا شکار ہوکر لقمہء اجل بن گئے۔ وہ رات گئے لاہور سے ملتان کے لئے نکلے تھے اور اونگھ آنے کی وجہ سے سروس لین پر کھڑے ٹرالر کے پیچھے گاڑی دھنس گئی۔ ناصر محمود شیخ کا خیال یہ ہے ہم نیندکی ماری قوم بن گئے ہیں ہم فطرت کے الٹ چل رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ہماری زندگی میں سکون کی جگہ اضطراب نے لے لی ہے۔
ناصر محمود شیخ کی اس بات پر میں نے غور کرنا شروع کیا تو مجھے لگا ہم اپنا راستہ بھول گئے ہیں بہت پرانامقولہ ہے کہ دن کام اور رات آرام کے لئے ہے۔ دنیابھر میں اس پر عمل ہوتا ہے۔ سرشام بازار بند ہو جاتے ہیں، سڑکیں ویران نظر آتی ہیں، جس طرح پرندے شام ہوتے ہی اپنے گھونسلوں میں واپس آ جاتے ہیں اسی طرح بڑے ممالک میں فطرت کے اسی دستور کو زندگی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے مزاجوں میں چڑچڑا پن بھی اس لئے آگیا ہے کہ ہماری نیند پوری نہیں ہوتی۔ اگر دن کی نیند پوری کرلیں تو بھی بات بنے، اسے بھی ہنگامہ پروری کی نذر کر دیتے ہیں۔ آپ دفاتر میں چلے جائیں، اکثر اہلکار اونگھتے،جماہیاں لیتے دکھائی دیں گے۔ ایسے عالم میں وہ کیسے عوام کی خدمت کر سکتے ہیں، بے زاری اور کام سے عدم دلچسپی ان کے رویے سے جھلک رہی ہوتی ہے۔ تاجروں کا حال سب سے بُرا ہے۔ وہ دن کے بارہ ایک بجے دکانیں کھولتے ہیں اور رات گئے تک بیٹھے رہتے ہیں۔ جب رات کو گھر جاتے ہیں تو بچے سو چکے ہوتے ہیں، صبح وہ سکول جا چکے ہوتے ہیں تو ان کی گیارہ بجے آنکھ کھلتی ہے۔یہ دکانوں پر آتے ہیں تو بچے سکولوں سے واپس آ جاتے ہیں، مجھے کئی تاجر دوستوں نے بتایاان کی کئی کئی دن اپنے بچوں سے ملاقات نہیں ہوتی۔یہ کیا وتیرا بن گیا ہے، کسی کو اس پر سوچنے کی فرصت نہیں۔ ہم نے رات اور دن کی تقسیم کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ جب سے انٹرنیٹ کا عذاب آیاہے، اس نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ راتوں کو بچے اور والدین آن لائن بیٹھے نظر آتے ہیں۔ والدین اسی صورت اپنے بچوں کو سمجھا سکتے ہیں جب خود اس پر عمل کریں۔ جب وہ خود موبائل سے چمٹے رہیں گے تو بچے کیسے باز آئیں گے۔ اسلامیہ یونیورسٹی شعبہ نفسیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ثمر فہد اس بارے میں والدین کو اکثر تنبیہہ کرتی رہتی ہیں، ان کا کہنا ہے نیند پوری نہ کی جائے تو اس کے بہت پیچیدہ نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دن کی پوری کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ رات کو انسان اپنے ساتھ اکیلا ہوتا ہے تاہم دن کے وقت اسے انسانوں کے درمیان رہنا ہوتا ہے۔ اگر وہ ذہنی طور پر پُرسکون نہیں، اُس کا ذہن تھکا ہوا ہے تو اس کا رویہ بھی چڑچڑا اور خراب ہوگا۔ فطرت کے اصولوں کی جب بھی نفی کی جائے گی، اس کے نتائج بہت خطرناک نکلیں گے۔
بات شروع ہوئی تھی کراچی کی گلناز آفریں کے ساتھ بیتے جانے والے سانحے سے۔ ڈرائیور دو راتوں کا جاگا ہوا تھا۔ گاڑی اس کی تھی یا اس کے مالک کی، پیچھے لالچ یہی کارفرما ہوگا کہ کراچی کا چکر بھی لگا لیا جائے۔ ایسا کوئی میکنزم نہیں جسے ڈرائیوروں کی نیند پوری ہوئی یانہیں کے لئے استعمال کیا جائے۔ یہاں تو یہ عالم ہے پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں سے بھی اوورٹائم لیا جاتا ہے۔ اکثر حادثات کی وجہ یہی نکلتی ہے کہ ڈرائیور کو نیند آئی اور اس نے گاڑی آگے جانے والی یا سائیڈ پر کھڑی کسی ٹرالی میں جا ماری۔ محکمہ ٹرانسپورٹ جہاں گاڑیوں کی فٹنس چیک کرتا ہے وہاں اسے ڈرائیوروں کا ریکارڈ بھی چیک کرنا چاہیے انہوں نے ایک دن میں کتنے گھنٹے ڈرائیونگ کی اور کتنے گھنٹے نیند پوری کی۔ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے مالکان کو خوف خدا کرنا چاہیے۔ مسافروں کی جانوں کواپنی لالچ کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ مجھے موٹروے پولیس کے ایک افسر نے بتایا اگر موٹروے پر لائن اور لین کی پابندی کی جائے تو حادثے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ انہوں نے بھی یہی بتایا زیادہ تر حادثات ڈرائیوروں کو نیند آنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ موٹروے پر سفر چونکہ ہموار ہوتا ہے، نیند پوری نہ ہوئی ہو تو غنودگی طاری ہو جاتی ہے، چونکہ رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے پلک جھپکتے ہی گاڑی کا سٹیئرنگ گھوم جاتا ہے اور قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم یہ طے کرنا ہے کہ رات اور دن کی جو تقسیم فطرت نے بنائی ہے، اسے کیسے برقرار رکھیں۔ شام کے وقت کاروبار بند ہونے چاہئیں اور صبح ہوتے ہی ان کا آغاز ہونا چاہیے، جنہیں رات کو سفر کرنا ہے وہ دن کو کم از کم آٹھ گھنٹے کی نیند پوری کریں تاکہ ہم سڑکوں پر انسانی جانوں کے ضیاع کو روک سکیں۔