چینی مؤرخ ڈانگ یانگ کی شہرہ آفاق کتاب, عظمت رفتہ کا سفر ۔ ۔ ۔ آٹھویں قسط

چینی مؤرخ ڈانگ یانگ کی شہرہ آفاق کتاب, عظمت رفتہ کا سفر ۔ ۔ ۔ آٹھویں قسط
چینی مؤرخ ڈانگ یانگ کی شہرہ آفاق کتاب, عظمت رفتہ کا سفر ۔ ۔ ۔ آٹھویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ترجمہ :ایم وقاص مہر

کانگ جیئی(cang jie) کی کہانی چینی حروف کی ایجادات میں ،ان کتبوں نے رسم الخط کے نظام کو نسبتاًِزیاوہ میچور انداز میں ثابت کیا ہے۔چین کی لکھی ہوئی زبان ۔ان کتبوں کے نقطہ نظر سے پرے ایک علامتی حروف کا خطی نظام ہے۔یہ کائناتی خطوط ہجوں سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔یہ کانسی کے کتبوں اوربانس کے قلموں کے ذریعے ان پیپروں پرلکھے گئے ان جدید حروف کی شکل میں ہم تک پہنچے ہیں۔اب چین میں ان کو خوش خطی کے طور پر بھی استعمال میں لایا جارہا ہے۔چین ایک وسیع و عریض رقبے،مختلف نسلی گروہوں کا حامل ملک ہے۔چین کی لکھی ہوئی زبان لوگوں میں وحدت اور باہمی رابطے کا عظیم فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔

چینی مؤرخ ڈانگ یانگ کی شہرہ آفاق کتاب, عظمت رفتہ کا سفر ۔ ۔ ۔ ساتویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
1961ء میں اسٹیٹ کونسل نے ین کھنڈرات کو اسٹیٹ پروٹکٹڈ ثقافتی اثار کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔
ان میں سے زیادہ محفوظ شدہ علاقہ شی آنٹن گاؤں(xiaotun village) میں موجود جگہوں اور مندروں کو سمجھا جا تا ہے۔یہ علاقہ حاکم اپنے رہنے اور معاملاتِ ریاست کی انجام دہی کے لئے استعمال کیا کر تے تھے۔پان گنگ(pan geng)کے بعد تمام حاکموں نے اپنا دارالحکومت ین میں اس مقام کے نیچے منتقل کر لیا تھا۔یہ جگہ ایک عالیشان قربان گاہ بھی ہے جہان پر لوگ اپنے اجداد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے چڑ ھاوے چڑھاتے اور مختلف قسم کی رسومات ادا کرتے ہیں ۔ جولائی 2006ء میں یونیسکو نے ین کھنڈرات کو بین الاقوامی اثارِکے ورثہ کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔
**


کنفیوشس اور اس کا وطن
476-770قبل از مسیح کے موسم بہار اور خزاں اور221-475قبل از مسیح کے متحارب ریاستوں کے دور میں چین میں فلسفہ اور ثقافتی ترقی اپنے عروج پر تھی۔مختلف قسم کے مکتبۂ فکر سامنے آئے اور آزادانہ طور پر مناظرے اور مقابلے منعقد ہونے لگے تھے۔ان کو بعد میں ہنڈرڈ سکول آف تھاٹس کا نام دے دیا گیا تھا۔ان میں کنفیوشس سکول بھی شامل تھاجو کہ کنفیوشس ،مین شس(mencius) اور شونزی(xunzi) کی طرف سے پیش کیا گیا تھا؛تاؤاسٹ(taoist) سکول لاؤزی (laozi)اور زوآنگ زی (zhuangzi) کی طرف سے ،مو ہسٹ(mohist)سکول موزی(mozi)کی طرف سے ،دا سکول آف لیگل لسٹس ہان فائی(han fei)اور شانگ یانگ(shang yang)کی طرف سے ،منطق دانوں کا مکتبہ فکر گونگ سن(gongsun)اور ہیوئی شی
( hui shi)کی طرف سے ،ین یانگ (yin yang)کا سکول زویو یان(zou yan)کی طرف سے جبکہ سیاسی حکمتِ عملی کا مکتبہ فکر سو چھن (su qin)اور زھانگ ( zhang) کی طرف سے پیش کیا گیا تھا،وغیرہ وغیرہ۔کنفیوشس اور کنفیوشن سکول چین کی تاریخ پر بہت زیادہ اثر تھا۔


بہار اور خزاں کے دور کے چند سال بعد کنفیوشس ایک ماہرِ سیاسیات،ماہرِ تعلیم ،فلاسفر اور کنفیوشس مکتبۂ فکر کا فاؤنڈربن گیا تھا۔اس کو درجہ اوّل کے عظیم انسانوں ،عیسیٰ،سقراط ،محمدﷺ اور بودھ کی طرح مانا جا تا تھا۔کنفیوشس لو(lu) کی ریاست میں پیدا ہوا تھا(جو آجکل صوبہ شانگ ڈن میں چھوفو(qufu) کے نام سے جانی جا تی ہے)۔ کنفیوشس نے 30 سال کی عمر میں ہی اپنے نظریات کواپنے شاگردوں پھیلانا شروع کر دیا تھا۔پھر 31سا ل کی عمر وہ اٹارنی جنرل لو(attorney generalin lu )کے دفتر میں کام کر نے لگا تھا۔لیکن بعد میں وہ استعفیٰ دے کراپنے درجن بھر شاگردوں کے ساتھ وہ وی آئی (wei) سونگ (song)،کاؤ(cao)،چین (chen)،کائی (cai) اور بہت سی دوسری ریاستوں کی سیاحت پر نکل گیا تھا۔اس نے سوچا کہ وہ اپنے سیاسی نظریا ت سے شہنشاہوں کو قائل کر ے گا لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہاتھا۔چودہ سال تک سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر نکالا جاتا رہا ۔ان مصائب و مشکلات اور بد مزگی کی وجہ سے وہ مایوس ہو گیا تھا۔اس لئے وہ اپنے ملک میں واپس آگیا اوردرس وتدریس کے شعبہ سے منسلک ہو گیا تھا۔اس نے گیتوں کی ایک پرانے کتاب کو اکٹھا کیا اور چین میں پہلی سرگزشتہ تاریخ’’ بہار اور خزاں‘‘ کی ایڈیٹنگ کرنے کے علاوہ ’’تعلیم سب کے لئے‘‘ جیسے جذبے کے تحت علم ،نظریات اور اخلاقی اسلوب کو عام لوگوں کے بچوں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دینے لگا تھا۔اس کی کتابیں تین ہزار سے بھی تجاوز کر گئی تھیں جبکہ ان میں سے 72 غیر معمولی بن پائیں جن میں زیلو(zilu)،یان ہوآئی(yan hui)،زنگ شنگ(zeng shen)اورر زی گونگ(zigong) وغیرہ شامل تھیں۔

(جاری ہے. اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

دنیا میں کہنے کو ہر ملک اپنے ماضی کی شاندار عظمتوں پر ناز کرتا ہے لیکن چین جیسی مثال پر کوئی کم ہی اترتا ہے جس نے اپنے ماضی کو موجودہ دور میں شاندار نظام سے جوڑ رکھااور ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔چین نے آگے بڑھتے ہوئے اپنے ماضی کو کیوں زندہ رکھا ،اس بات کی اہمیت کا اندازہ مشہور چینی موؤخ ڈنگ یانگ کی ہسٹری آف چائنہ پڑھنے سے ہوجاتا ہے۔