ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ .. آخری قسط
انسانیت کا انتظار
گفتگوکے بعد سوال وجواب ہوئے ۔ جب سیشن ختم ہوا اورمیں اپنی جگہ سے اتر کر نیچے گیا تو دیگر لوگوں کے علاوہ میں نے ایک مقامی آسٹریلوی طالبہ کو اپنا منتظر پایا۔اسے میری تقریر بہت پسند آئی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس کی سمجھ میں آیا جو میں نے کہا تھا۔ اس نے کہا کہ ہاں ، بہت اچھی طرح ۔ اس لڑ کی سے بات کر کے فارغ ہوا تو ایسا ہی نوجوان لڑ کا میری طرف آیا اور انھی خیالات کا اظہار کیا۔
اسلام کی دعوت کے لیے ایک سفید فام نوجوان مردو عورت کی پسندیدگی اس بات کی علامت تھی کہ جدید دنیا کی جدید نسل اسلام کی منتظر ہے ۔ وہ اس تعلیم کو اپنے دل کی آواز سمجھتی ہے ۔بس اس تعلیم کو اعلیٰ سطح پر پیش کرنے والے لوگ ہوں ۔
انسانیت اسلام کا انتظار کر رہی ہے ۔ وہ اسلام جو آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا کی بہتری کا بھی علمبردار ہے بلکہ اسے اس نے انسانیت کے سب سے بڑ ے اجتماع یعنی حج کے موقع پر ان خوبصورت الفاظ میں انسانیت کی دعا بنادیا ہے :
رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّار
اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی سے نواز اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کراورآخرت میں آگ کے عذاب سے بچا، (البقرہ201:2)۔
اسلام کی دعوت انسان کے ہر تقاضے کی تکمیل کرتی ہے ۔شادی کرنا ، خاندان بنانا اور ان کے لیے رزق کمانا یہاں عبادت ہے ۔خوبصورتی اور تفریح یہاں اللہ کی رحمت ہے ۔ایک اللہ کی عبادت انسان کی روحانیت کی تکمیل ہے ۔اسلام کسی لذت پر پابندی نہیں لگاتا بس اسراف، ظلم ، حق تلفی اور بدکاری سے روکتا ہے ۔وہ ایمان، عدل، احسان اور انفاق سے لوگوں کو خدا اور انسانوں کے قریب کرتا ہے ۔ صبر، عفو اور درگزر سے ان میں جینے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے ۔ اور آخرت کی امید دلا کر انھیں ایک ابدی خوشی سے سرشار کیے رکھتا ہے ۔
اسلام انسانیت کی امید ہے ۔ اسلام انسانیت کا انتظار ہے ۔ کاش حاملین اسلام اپنے تعصبات سے اوپر ا۔ٹھ کر اس حقیقت کو سمجھ لیں ۔
آخرت کا کریڈٹ کارڈ اورلوگوں کا فیصلہ
پرتھ سے میری روانگی اگلی صبح تھی۔ڈاکٹر ثمینہ یاسمین صاحبہ کے گھر دو تین دن کا قیام بہت خوشگوار رہا۔انھوں نے اور ڈاکٹر جیمز نے ہر طرح سے بہت خیال رکھا۔ان دونوں میاں بیوی نے اپنی تمام ترعلمی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود میرے کھانے پینے اور آرام کا بہت اہتمام کیا۔میں نے رات کو بہت منع کیا تھامگر میری روانگی کے وقت بھی وہ قبل از وقت بیدار ہوکر مجھے الوداع کہنے کے لیے موجود تھیں ۔
ائیر پورٹ پر ایک عجیب تجربہ پیش آیا۔ میں نے کھانے پینے کی کچھ چیزیں خریدیں ۔ مگر خریداری کے وقت کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ دونوں نہ چل سکے ۔مجھے احساس ہوا کہ قیامت کے دن ہمارے نامہ اعمال کریڈٹ کارڈ میں تبدیل ہوجائیں گے ۔ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی اس کے کریڈٹ کارڈ میں جنت کی نعمتوں کو خریدنے کی زیادہ استعداد ہو گی۔جس کی نیکیاں کم ہوں گی اس کی استعداد اتنی ہی کم ہو گی۔
مگر کچھ لوگ ہوں گے کہ ان کے کریڈٹ کارڈ بالکل نہیں چل سکیں گے ۔یہ وہ لوگ ہوں گے کہ ایمان کے نام پر غیر اللہ کی محبت ، اسلام کے نام پر اپنے فرقہ وارانہ تعصبات، عبادت اور سنت کے نام پر بدعات غرض ہر پہلو سے اللہ کے غیر مطلوب اعمال لے کر پہنچیں گے ۔ وہاں ان کی توقع کے بالکل برخلاف ان کا ہر عمل رد کر دیا جائے گا۔
عافیت کا ایک ہی راستہ ہے کہ انسان اپنی ہر مرضی، خواہش اور پسند وناپسند کو چھوڑ کر صرف اللہ کی مرضی جاننے کی کوشش کرے اور خود کو اس کے مطابق ڈھالے ۔ باقی ہر شخص کا انجام یہی ہونا ہے کہ اس کا کریڈٹ کارڈ غیر متوقع طور پر نہیں چلے گا اور اس کو جنت کی کسی نعمت سے کوئی حصہ نہیں دیا جائے گا۔
سفر کے پہلے حصے میں آسٹریلیا سے بنکاک تک ہر چیز وی آئی پی تھی۔ جبکہ بنکاک سے کراچی تک ہر چیز دوسرے درجے کی تھی۔مجھے دیگر ائیر لائنز سے بھی ہمیشہ یہی تجربہ ہوا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی قوم کی دنیا میں کتنی عزت ہے ۔
ایک پرمشقت سفر کے بعد سفرنامہ لکھنے کی مشقت اس عاجز نے اسی لیے اٹھائی ہے کہ اپنے لوگوں کو آخرت اور دنیا کے انھی مسائل پر متوجہ کر دوں ۔ اور یہ بتادوں کہ ان کا حل ایمان اور اخلاق کی اس دعوت میں ہے جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی شکل میں موجود ہے ۔ اب فیصلہ لوگوں کو کرنا ہے کہ ان کو دنیا اور آخرت کی عزت چاہیے یا ذلت۔ خدا کے ہاں دینے کو عزت بھی ہے اور ذلت بھی۔اب فیصلہ لوگ کر لیں انھیں کیا چاہیے ۔
سیر ناتمام
اتفاق کی بات ہے کہ میں نے پچھلے چار ماہ میں مسلسل تین سفر کیے ۔پہلے ترکی گیا۔ پھر کالام اور سوات گیا اور اب آسٹریلیا کے اہم ترین مقامات کو دیکھا۔ خدا کی صناعی ، جمال و کمال کی قدرت کے ایسے غیر معمولی نمونے دیکھے کہ جن کی کوئی حد نہیں ۔خدا کا آسمان ایک ہی تھا، مگر اس کے نیچے تین براعظموں ایشیا، یورپ اور آسٹریلیا کے تین خوبصورت مقامات میں اس زمین کو ہر بحر و بر میں ایک نئے پہلو سے اس کی ثنا خوانی کرتے دیکھا۔ ترکی میں باسفورس کو کبھی سیاہ، کبھی فیروزی اور کبھی نیلگوں رنگ میں بدلتے دیکھا۔ آسٹریلیامیں بحر جنوبی کے سمندر کو سبز، سرمئی اور نیلے رنگوں میں ڈھلتے دیکھا۔ کالام میں دریائے سوات کو سفید جھاگ اڑ اتا، جوش مارتا اورطلسم ہوشربا اور پرستان کی کہانیوں کی مانند خوبصورت مہوڈنڈ جھیل کے ٹھہرے ہوئے سبز پانی کی شکل میں دیکھا۔
ترکی میں گوریم سے لے کر ملبورن میں ٹویلو اپوسل تک عجیب و غریب چٹانوں کو اپنے وجود سے خدا کی کبرائی بیان کرتے دیکھا۔ میں نے اس کی کاریگری کے عجیب نمونے دیکھے ۔ دلربا حسن کی مالک اورگھاس کے مخملی فرش سے ڈھکی آسٹریلیا کی پہاڑ ی ڈھلوانوں سے لے کر وادی کالام کی مسحورکن فلک بوس پہاڑ وں تک ہر پستی و بلند کو خداکی تسبیح میں مشغول پایا۔
ان اسفار میں صرف ایک انسان ملا جو خدا سے غافل تھا۔جو خدا کو بھولا ہوا تھا۔جو خواہش، تعصب اور مفاد کا اسیر تھا۔ جو حرص و ہوس کا پیرو تھا۔ جس نے اپنے مالک کی عطا میں پوری کائنات میں سب سے زیادہ حصہ پایا اور سب سے زیادہ نمک حرامی کا مظاہرہ کیا۔
میں نے ہر قدم پر فرشتوں کو اس کے حکم سے لرزاں اور ترساں پایا جو صاحبِصور سردار اسرافیل کو دیا جا چکا ہے ۔فیصلہ ہو گیا ہے کہ زمین کو ان نافرمانوں سے پاک کر دیا جائے گا۔ ان کا نام و نشام مٹا کر ان کو جہنم کے قید خانے میں ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے گا۔خواہش اور تعصب، غفلت اور معصیت میں اندھے ہوجانے والوں کو ہمیشہ کے لیے اندھا کر دیا جائے گا۔ پھر یہ دھرتی اور یہ آسمان ایک نئی دنیا سے بدلے جائیں گے ۔جہاں خدا کی حمد، تسبیح اور محبت میں جینے والے مرداور عورتوں کو ابدی راحت اور مسرت میں بسادیا جائے گا۔ ایمان و اخلاق کو زندگی بنانے والوں کو ابدی زندگی دے کر حسن و رعنائی، لذت و نعمت اور شباب و جمال سے مزین فردوس بریں میں ہمیشہ کے لیے آباد کر دیا جائے گا۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 68
اسی واقعے پر انسانیت کا موجودہ سفر تمام ہو گا۔ اسی کے ساتھ بظاہر میرا سفر، میری سیاحت یا میری سیر، اسے جو بھی نام دیں ، تمام ہورہی ہے ۔اللہ آپ کو خوش رکھے کہ اس سیر میں آپ میرے ساتھ رہے ۔مگر درحقیقت میرا سفر ابھی نامکمل ہے ۔ یہ سیر ابھی سیر ناتمام ہے ۔یہ سیر ناتمام ایک جہد مسلسل ہے ، ایک ختم نہ ہونے والی جنگ ہے ۔یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک خدا کی بندگی کی پکار پوری دنیا تک نہیں پہنچ جاتی۔جب تک اس حسن ازل کے کمال، جمال اور جلال کا تعارف پوری انسانیت تک نہیں پہنچ جاتا۔