ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 68
انسان کی درندگی اور حدود کی سزائیں
ڈاکٹر جیمز سے ایک بڑ ے اہم پہلو پر گفتگو ہوئی۔ اس کی طرف میں نے سفرنامے کے شروع میں دو نام دو علامتوں کے عنوان میں ضمناً بیان کیا تھا۔ ان سے بعض جنگی جرائم کے معاملے میں گفتگو ہورہی تھی تو انھوں نے توجہ دلائی کہ مغرب میں یہ تصور غلط طور پر پھیل گیا ہے کہ انسان مہذب ہو چکا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ انسان کتنا ہی مہذب ہوجائے ، اسے درندہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ جس کے بعد معصوم عورتوں ، بچوں اور بوڑ ھوں کا قتل ، عورتوں کی بے حرمتی حتیٰ کہ لاکھوں انسانوں کا قتل عام بھی معمولی بات بن جاتا ہے ۔وہ اصلاً مغربی اقوام کے اس تصور پر تنقید کر رہے تھے کہ ستر برسوں میں اہل مغرب بہت مہذب ہو چکے ہیں ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 67 پڑھنےکیلئے یہاں کلک کریں
تاہم میرے لیے یہ بات اس لیے اجنبی نہیں تھی کہ ہم نے تو اپنی آنکھوں سے اور اپنی ماضی قریب کی تاریخ میں یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔تقسیم ہندہو یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی، ان میں جو قتل عام ہوا وہ سب کومعلوم ہے ۔ہاں اس کا الزام سب یکطرفہ دوسرے گروہ پر ڈال کر خود معصوم بن جاتے ہیں ۔ شہر کراچی میں لسانی بنیادوں پر جوکچھ ہوا اور پھر فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیادوں پر جس طرح انسانوں کو قتل کیا گیا اور آج کے دن تک کیا جا رہا ہے ، وہ تو ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ جس فرقے سے ہمیں نفرت ہو، اس کا کتنا ہی قتل عام ہوجائے ، مجال ہے جو دوسرے گروہ کو کوئی معمولی سی بھی تکلیف ہو۔ یہ سب اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ انسان کے اندر ایک درندہ چھپا ہوا ہے ۔ اس درندے کو بڑ ی مشکل سے باندھا گیا ہے ۔ مگرجب کبھی کسی لسانی، نسلی، مذہبی یا قومی بنیاد پر اس کو ڈھیل مل جائے یہ جان ، مال ، آبرو کو اس طرح پامال کرتا ہے کہ انسانیت کانپ اٹھے ۔
اس موقع پر ایک سیاستدان کا یہ جملہ یاد آ گیا جو انھوں نے اپنی مغربی تعلیم کے زیر اثر کہا تھا کہ اسلامی سزائیں وحشیانہ ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی سزائیں وحشیانہ نہیں ہیں بلکہ وحشیوں کو دینے کے لیے ہیں ۔ اسلام میں حدود کی سخت ترین سزائیں اسی لیے رکھی گئیں ہیں کہ چند لوگوں کو سزا دے کر باقی لوگوں کے اندر کے درندوں کو ڈرا کر رکھا جائے ۔ تاہم اسلام کے اسی مقدس نام پر جب اسی درندے کو ڈھیل دی جاتی ہے تو یہ ماتم کرنے کا مقام ہوتا ہے ۔
خاندانی نظام کی کمزوری
آسٹریلیا کا معاشرہ مغرب کے معیار پر ایک قدامت پسند معاشرہ ہے ۔ ہم جنس پرستی ابھی بھی یہاں غیر قانونی ہے ۔ میں اپنے سفر میں ہر وقت باہر گھومتا رہا لیکن کم ہی یہ منظر دیکھا کہ مرد و زن سرعام بوس وکنار میں مصروف ہوں ۔ جبکہ دیگر مغربی معاشرے ان تمام معاملات میں آگے ہیں ۔
ڈاکٹر ثمینہ یاسمین سے ایک موقع پر میں نے اپنے اس تاثر کا ذکر کیا کہ یہاں خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تو انھوں نے کہا کہ یہاں خاندانی نظام مضبوط ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے قریبی حلقے میں ایسا ہی ہو۔ مگر جو کچھ معلومات میں نے دوسروں لوگوں سے لی تھیں ، وہ اس کے برعکس تھیں ۔ برسبین میں مدثرصاحب جو پاکستانی کمیونٹی سے ہٹ کر یہاں کی کمیونٹی کے اجتماعی معاملات سے وابستہ تھے انھوں نے اس کی بڑ ی تفصیل بتائی تھی۔حتیٰ کہ خودکشی میں ایک وجہ یہ رشتوں کابریک اپ بھی تھا ۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں گھریلو تشدد کے واقعات بھی ہوتے ہیں ۔یہ دلچسپ بات بھی بتائی کہ برسبین میں 97فی صد علیحدگی کی درخواستیں خواتین کی طرف سے دائر ہوتی ہیں ۔
میں نے دورہ آسٹریلیا میں بہت سفر کیا اور اس بات کو خاص طور پر نوٹ کیا تھا کہ ہر جگہ تنہا لڑ کیاں چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھوم رہی ہیں ۔یہ سنگل پیرنٹ کی علامت تھی اور اس بات کی کہ خاندانی نظام کس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ بعد میں آسٹریلیا کے سرکاری اعداد و شمار سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ آسٹریلیا کا ہر پانچواں خاندان( 22فیصد) سنگل پیرنٹ فیملی پر مشتمل ہے ۔ اس میں بھی تنہا ماں کی شکل میں پائے جانے والے خاندانوں کا تناسب 81فیصد ہے ۔آسٹریلیا کے مشہور اخبار ٹیلی گراف کے مطابق سنگل فیملی کا یہ رجحان اگلے برسوں میں ستر فیصد اور بڑ ھے گا۔جیسا کہ پیچھے کسی موقع پر عرض کیا یہی مغربی نظام کے سب سے کمزور پہلو ہیں یعنی خاندانی نظام کی کمزوری اور حقیقی روحانیت کا خلا۔ شاید ہمارے پاس یہی دو چیزیں بچی ہیں جو مغرب کو ہم دے سکتے ہیں ۔ باقی تو ہمیں ان سے سب کچھ لینا ہی لینا ہے ۔
میرا خیال یہ ہے اور یہی میرے اس سفرنامے کا خلاصہ ہے کہ ہمیں اب مغرب سے یہ تجارت کر لینا چاہیے ۔ اسی میں انسانیت کی فلاح ہے ۔ اسی میں ہماری فلاح ہے ۔
اسلام کا پیغام
یہی میری اس گفتگو کا خلاصہ تھا جو اگلے دن میں نے یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں کانفرنس میں اپنا پیپر پڑ ھتے ہوئے کہی۔یہ کانفرنس دو دن جاری رہنا تھی جو یونیورسٹی کے سنٹر فار مسلم اسٹیٹ اینڈ سوسائٹیز کے زیر اہتمام ہونا تھیں ۔ڈاکٹر ثمینہ یاسمین صاحبہ اس سنٹرکی ڈائرکٹر تھیں ۔ تاہم میں نے پہلے ہی ان کو مطلع کر دیا تھا کہ مجھے جمعے کو لوٹنا ہے ۔چنانچہ انھوں نے ازراہ عنایت مجھے پہلے دن موقع دے دیا ۔اس روز دیگر تین ا سکالرز کے ہمراہ اس طالب علم نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا۔ اس کا عنوان اسلام، اسلام ازم اور ویسٹ تھا۔
میں نے اس مقالے میں یہ نقطہ نظر پیش کیا تھا کہ کمیونزم کے زوال کے بعد اہل اسلام اور اہل مغرب بظاہر تصادم کی حالت میں ہیں ۔ ہم مانیں نہ مانیں مگر یہ ایک حقیقت ہے ۔ تاہم دوسری حقیقت جو میں نے نمایاں کرنے کی کوشش کی و ہ تھی کہ اس تصادم میں مسلمانوں کی طرف سے فریق اسلام نہیں ہے بلکہ اسلام کی ایک خاص تعبیر ہے جو مسلمانوں کے عالمی غلبے کو دین کا نصب العین قرار دیتی ہے ۔ جبکہ مغرب کاوہ گروہ اس کا فریق ہے جس کے مفادات اس بات میں ہیں کہ ایک کمزور قوم ان سے ٹکرائے اور وہ اس قوم کے لیڈروں کی حماقت سے فائدہ اٹھا کر اس کے وسائل پر قبضہ کر لیں ۔عام اہل مغرب اس جنگ کے فریق نہیں ۔
پھر میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل دعوت کا تعارف اس طرح کرایا کہ یہ اصلاً توحید و آخرت کی دعوت ہے جو عدل ، احسان، انفاق کے فروغ اور ظلم، حق تلفی اور فواحش کے خاتمے کی علمبردار ہے ۔
(جاری ہے)