ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 67

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 67
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 67

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کوالٹی مینجمنٹ اور مہنگی لیبر

گھر پہنچے تو ڈاکٹر جیمز اور ڈاکٹر ثمینہ یاسمین کو کھانے پر اپنا منتظر پایا۔ ڈاکٹر جیمز نے قیمہ اور اسپگیٹی بنائی تھی اور خوب بنائی تھی۔ڈاکٹر جیمز سے ان تین دنوں میں بڑ ی دلچسپ گفتگو رہی۔ انھوں نے بعض ان تصورات کی نفی کی جو میں نے یہاں سنے تھے ۔ مثلاً یہاں لیبر مہنگی ہے اور پاکستان میں سستی۔ انھوں نے اس پر تبصرہ کیا پاکستانی لیبر باعتبار نتیجہ بہت مہنگی پڑ تی ہے ۔ اس لیے کہ یہ پاکستانی لیبر سستی مگر بہت غیر تربیت یافتہ ہوتی ہے ۔ان میں پروفیشنل ازم نہیں ہوتا۔ چنانچہ آخرکار یہ غیر تربیت یافتہ لیبر یا تو لاگت بہت بڑ ھادیتے ہیں یا چیزوں کا معیار گرادیتے ہیں ۔

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

میں نے ان کی بات کی روشنی میں اپنے تجربات کو ذہن میں تازہ کیاتو اندازہ ہوا کہ وہ سوفیصدسچ کہہ رہے ہیں ۔ہمارے ہاں لیبر طبقہ ہر اعتبار سے غیر تربیت یافتہ اور نان پروفیشنل ہوتا ہے ۔ معیار، کام سے کمٹمنٹ، وقت پر کام کرنا، مرضی کا کام کرنا یہ ہمارے لیے اجنبی تصوارت ہیں ۔ ہاں کوئی شخص انتہائی سخت ہو تو وہ ان لوگوں سے پھر کام لے سکتا ہے ۔

اس کو ایک عملی مثال سے یوں سمجھیے کہ ان کے گھر کام کرنے کے لیے فیجی کی ایک خاتون مہناز آتی تھیں ۔ اسی طرح گھر کی صفائی کے لیے بوسنیا کی ایک اورخاتون سنارڈاآتی تھیں ۔ یہ دونوں تو گھر پر تھے نہیں ۔ دودن تک ان خواتین سے میر اہی واسطہ پڑ ا۔میں نے دیکھاکہ انھوں نے گھر والوں کی غیر موجودگی میں بھی ویسے ہی کام کیا جیسے ان کی موجودگی میں کرتیں ۔ جبکہ ہمارے ہاں گھریلوملازماؤں کے سر پر کھڑ ے ہوکر جب تک کام نہیں کرایا جائے وہ کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتیں ۔

کوالٹی مینجمنٹ

ایک اور چیز جو آسٹریلیا میں ہر جگہ مجھے نظر آئی کو الٹی مینجمنٹ تھی۔ جب میں سوشل سائنس میں ایم فل کر رہا تھا تو ٹوٹل کوالٹی مینجمنٹ کے نام سے ایک سبجیکٹ پڑ ھا تھا۔اس وقت مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اس مضمون کا سوشل سائنس سے کیا تعلق ہے ، یہ تو مینجمنٹ کا مضمون لگتا تھا۔ مگر بعد میں اندازہ ہوا کہ جدید مغربی معاشرہ اب اعلیٰ کوالٹی کے اصول پر آ چکا ہے ۔ ہر جگہ معیارات مقرر ہیں جن سے ذرہ برابر انحراف نہیں ہو سکتا۔کوالٹی اب ایک سماجی قدر ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں اس کا پایا جانا ضروری ہے ۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ لوگ اپنی پروڈکٹ اس اصول پر بیچتے ہیں کہ کوئی خرابی ہو تو اطمینان سے اسے واپس لے لیاجائے گا۔

عاطف نے اس ضمن میں سڈنی میں ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ وہ ڈرائیونگ ٹیسٹ کے لیے گئے تو ان کی گاڑ ی کے ٹائیر نسبتاً گھسے ہوئے تھے ۔ ٹیسٹ لینے والے اہلکارنے اس میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ٹائر بدلوا کر آئیں ۔ وقت ختم ہورہا تھا اس لیے اس نے عاطف کو یہ سہولت دی کہ میں ٹیسٹ لینے کی خاطر ایک گھنٹہ مزید بیٹھ جاؤں ۔ مگرغیر معیاری ٹائر کے ساتھ گاڑ ی میں بیٹھنے کا کوئی امکان نہیں ۔جبکہ ہمارے ہاں بیشتر لوگ ٹائر کے پھٹنے تک اس کو نہیں بدلتے ۔اس پر بہت فخر بھی کیا جاتا ہے کہ پیسے بچالیے ۔ حالانکہ اس عمل میں مجموعی طور پر حادثات میں جو جانیں جاتی ہیں اور جو نقصانات ہوتے ہیں وہ اجتماعی طور پر کہیں زیادہ ہوتے ہیں ۔

ہمارے ہاں کوالٹی کا یہ تصور ہی ناپید ہے ۔گرچہ ہمارے ہاں یہ محاورہ بہت مشہور ہے کہ مہنگا روئے ایک بار اور سستا روئے باربار ۔ مگر ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ گھٹیا اور سستی چینی اشیا کا ڈھیر لگا ہوا ہے ۔’’جگاڑ ‘‘ اور کام چلاؤ کے عوامی اصول پر پورا معاشرہ چل رہا ہے ۔ اس پر ہم بہت فخر بھی کرتے ہیں ۔دوسرے شعبہ ہائے زندگی کا کیا کہنا صحت کا شعبہ جہاں زندگی اور موت کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے وہاں بھی معاملات انتہائی غیر معیاری انداز میں ہوتے ہیں ۔ غلط تشخیص ، غلط ٹیسٹ اورغلط دوا سے معذور ی اور اموات کے متعدد واقعات میرے علم میں ہیں ۔ میری والدہ اور اہلیہ میڈیکل کے شعبے کی اس نالائقی کا براہ راست شکار ہوئی ہیں اور صحت کے سنگین ترین مسائل کا سامنا کیا ہے ۔خود پچھلے برس میری ایک ڈاڑ ھ کا ڈینٹسٹ نے جو حشر کیا ہے اس کے بعدسے آج تک میں ٹھیک طرح سے کھانا کھانے کے قابل نہیں رہا۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنی صورتحال کو پوری قوت سے بدلنا ہو گا ورنہ زیادہ وقت نہیں گزرے کا کہ ہم اپنی نگا ہوں میں خیر الامم ہوں گے لیکن دنیا میں اچھوت بن کر رہ جائیں گے ۔ اس سفر میں مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستان دنیا میں کسی قابل قدر جگہ پر نہیں رہا ہے ۔ یا جتنا کچھ بھی ہے دنیا کے دیگر ممالک حتیٰ کہ بنگلہ دیش تک ہم سے آگے نکل چکا ہے ۔ کاش کوئی ہماری قوم کو نرگسیت کے فریب سے نکال کر حقیقت کا آئینہ دکھائے ۔(جاری ہے)

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 68 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں