منور جمیل قریشی بھی رخصت ہو گئے 

منور جمیل قریشی بھی رخصت ہو گئے 
منور جمیل قریشی بھی رخصت ہو گئے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بعض شخصیات اپنے شہروں کی پہچان بن جاتی ہیں منور جمیل قریشی بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھے، جو بہاولپور کی پہچان بن گئے۔ اب وہ دنیا سے رخصت ہوئے ہیں تو بہاولپور کا خطہ ادبی لحاظ سے خاصا ویران نظر آتا ہے۔ منور جمیل قریشی سے میرا تعلق تقریباً چار دہائیوں پر محیط رہا ہے۔ اسی کی دہائی میں انہوں نے بہاولپور کو ادبی مرکز بنانے کا آغاز کیا تو ان کے ساتھ معروف شاعرہ نوشی گیلانی بھی ہمرکاب تھیں۔ بہاولپور مرکز سے دور ایک شہر تھا جس کی ادبی حوالے سے ایک پہچان تو تھی کہ یہاں ظہور نظر جیسا بڑا شاعر پیدا ہوا اور شباب دہلوی جیسے ادبی اور صحافتی نابغے موجود تھے تاہم ایک متحرک ادبی شہر کے طور پر جس شخصیت نے بہاولپور کو بامِ عروج پر پہنچایا وہ منور جمیل قریشی تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی خود نوشت ”داستانِ عزم“ میں لکھا ہے، جب میں 1991ء میں بہاولپور گیا تو وہاں مرتضیٰ برلاس سے ملاقات ہوئی، جو کمشنر بہاولپور اور ایک صاحبِ ذوق شاعر تھے، یہ وہ دور تھا جب منور جمیل قریشی نے مرتضیٰ برلاس کے ساتھ مل کر بہاولپور میں کل پاکستان مشاعرے اور ادبی سیمینار منعقد کرائے اور بہاولپور کی ادبی گونج پورے ملک میں سنائی دینے لگی۔


منور جمیل قریشی نے 1978ء میں یہاں ادبی تنظیم قلم قبلیہ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت ان کے ساتھ طاہر محمود، نوشی گیلانی اور نواز کاوش شامل تھے۔ قلم قبیلہ بہاولپور میں ایک ایسی ادبی تنظیم ثابت ہوئی جس نے اس شہر کی ادبی فضا کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ انہی دنوں بیگم ثاقیہ رحیم الدین خان نے کوئٹہ میں قلم قبیلہقائم کی تھی، جس سے متاثر ہو کر منور جمیل قریشی نے بہاولپور میں اسے قائم کیا۔ اس تنظیم کے تحت پہلے پہل چھوٹے چھوٹے ادبی اجلاس ہوتے تھے، جن میں اہل قلم اپنی نگارشات پیش کرتے۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور قلم قبیلہ و بہاولپور لازم و ملزوم بن گئے شہر کے ادیبوں، شاعروں کو ایک مضبوط پلیٹ فارم میسر آ گیا۔ اسی زمانے میں ڈاکٹر فرحت عباس نے بہاولپور میں بزم اہل قلم کے تحت سرگرمیاں شروع کی ہوئی تھیں۔ پھر وہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے پہلے ملتان اور بعد ازاں راولپنڈی چلے گئے آج کل انہوں نے راولپنڈی میں ادبی سرگرمیوں کے لئے اپنی ذات کو وقف کیا ہوا ہے۔ منور جمیل قریشی نے کبھی بہاولپور کو خیر باد کہنے کا نہیں سوچا۔ وہ کہا کرتے تھے یہ شہر میرے اندر بستا ہے اور میں اس کے اندر رہتا ہوں، دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ منور جمیل نے اپنی پر کشش شخصیت کے ذریعے جہاں بہاولپور اور گرد و نواح کے ادیبوں، شاعروں کو اکٹھا کیا وہاں ملک کی نامور ادبی شخصیات بھی بہاولپور کی ادبی تقریبات میں شرکت کے لئے ان کی وجہ سے ہمیشہ آمادگی کا اظہار کرتیں۔ منور جمیل قریشی چونکہ خود ایک صاحبِ کمال شاعر تھے، اس لئے مشاعرے ان کے نزدیک ایک ایسی ادبی و تہذیبی سرگرمی تھے جن کے ذریعے زندگی کو خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔ ایک دور ایسا بھی آیا جب لاہور یا کراچی کی نسبت بڑے شعرا، بہاولپور کے مشاعرے میں شرکت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے یہ سب منور جمیل قریشی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔


منور جمیل قریشی ایک مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک مجلسی آدمی تھے اور جہاں جاتے اپنے اردگرد دوستوں کا ایک حلقہ بنا لیتے۔ ان کے پاس سنانے کو ان گنت واقعات ہوتے اور بزلہ سنجی، جملے بازی اور بر محل محاورے کے ذریعے وہ محفل میں ایک سماں باندھ دیتے۔ وہ اکثر مجھے ملنے ملتان آتے تھے۔ شام کے وقت ہم صدر بازار میں چھیلویا نصیر کے ہوٹل پر چائے کے لئے سڑک کنارے بیٹھ جاتے، عبداللطیف اختر، جاوید اختر بھٹی اطہر ناسک، شوذب کاظمی اور دیگر دوست بھی وہیں موجود ہوتے۔ خوب محفل جمتی۔ بہاولپور اور ملتان کے ادب کا موازنہ ہوتا۔ وہ اکثر اس بات کا شکوہ کرتے دونوں شہروں میں ادبی گروپ بندی بہت زیادہ ہے، حالانکہ ادیبوں، شاعروں کو کھلے دل سے ایک دوسرے کا اعتراف کرتے ہوئے فروغ  ادب کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ وہ ہر ملنے والے کو یہ شعر ضرور سنایا کرتے تھے۔
یہ دوریوں میں لمحہئ وصال کیسے آ گیا
تمہیں ہمارے شہر کا خیال کیسے آ گیا


اس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ دوریوں میں لمحہ وصال کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کی مصروفیت میں ایک دوسرے کو بھول جاتے ہیں انہیں باور کرانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا جاتا رہے۔ وہ کہتے تھے جو لمحے بیت جاتے ہیں واپس نہیں آتے بس ان کی یادیں  ہی رہ جاتی ہیں، اس لئے بہتر ہے ایسے لمحوں کی یادیں بنائی جائیں جو اکٹھے گزریں اور تنہائی میں تقویت کا باعث بنتے رہیں۔ پچھلے دنوں میں اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کے بلاوے پر بہاولپور گیا تو ڈاکٹر آفتاب گیلانی اور نصیر احمد ناصر سے منور جمیل قریشی کا احوال معلوم کیا۔ انہوں نے کہا صاحبِ فراش ہیں، کسی سے ملتے نہیں میری بڑی خواہش تھی میں ان کے گھر ملنے جاؤں لیکن مصروفیت کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا، اب ان کے انتقال کی خبر ملی ہے تو افسوس ہو رہا ہے کہ ان سے مل نہیں سکا۔ یقیناً ان سے مل کر بہت سی یادیں تازہ ہوتیں اور ان سے کچھ اشعار سننے کا موقع بھی مل جاتا یہاں مجھے اشفاق احمد کی یہ بات یاد آ رہی ہے کہ ہم ایک دن اپنی مصروفیات کی وجہ سے ایک دوسرے کو کھو دیں گے اور دوبارہ کبھی نہیں پا سکیں گے۔


منور جمیل قریشی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بہاولپور کی ادبی زندگی کا ناگزیر حوالہ تو تھے ہی تاہم ان کے اندر بیک وقت ایک منفرد کہانی کار، ڈرامہ نگار، ترقی پسند شاعر اور دانشور موجود تھا۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ”دیکھو یہ میرے زخم ہیں“ شائع ہوا اور قبولیت عام حاصل کر گیا۔ تاہم ایک نابغہ روز گار شخصیت کی حیثیت سے انہوں نے اپنے آپ کو منوایا۔ وہ ایک روشن خیال انسان تھے۔ کھلے ذہنی اور کشادہ نظر کے حامل، وہ تعصیبات کو پسند نہیں کر تے تھے۔ ان کی شاعری میں بھی اپنی مٹی سے وابستگی اور انسان دوستی نظر آتی ہے، انہوں نے جو کہانیاں لکھیں ان میں زمینی سچائیوں کو پوری صداقت سے بیان کیا۔ وہ جرأت اظہار کے قائل تھے اور لگی لپٹی رکھے بغیر کہنے اور لکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی وفات سے بہاولپور کی ادبی فضا ایک شجر سایہ دار سے محروم ہو گئی ہے آخر میں ان کے دو اشعار!
سرِ شام جب بھی دیا جلا تو خیال تیری طرف گیا
کوئی تازہ بابِ سخن کھلا تو خیال تیری طرف گیا
کسی اجنبی سے دیار میں کسی بے کسی کے غبار میں 
کوئی اپنے شہر کامل گیا تو خیال تیری طرف گیا

مزید :

رائے -کالم -