پاکستان میں زرعی اجناس کی کمی کیوں ہے؟؟

پاکستان میں زرعی اجناس کی کمی کیوں ہے؟؟
پاکستان میں زرعی اجناس کی کمی کیوں ہے؟؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


روزنامہ ”پاکستان“ کی خبر کے مطابق پاکستان نے جولائی سے دسمبر تک  چھ ماہ کے دوران  پانچ ارب ڈالر سے زائد کی خوراک یا زرعی اجناس درآمد کی ہیں۔ اِن درآمد کی گئی اشیاء  میں کھانا پکانے کا تیل دو ارب 30لاکھ ڈالر کا ہے، اِس کے علاوہ گندم، دالیں، بیج، مصالحہ جات، پھل، سبزیاں، چائے اور تمباکو کے علاوہ ڈیری مصنوعات بھی شامل ہیں۔
ایک ایسا ملک جو دیوالیہ کے خطرے سے دوچار ایک ایک ڈالر کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہو، ایک ایسا ملک جس کی لاکھوں ایکڑ اراضی کاشت کیے جانے کی منتطر ہو اور اُس کے کروڑوں افراد بیروزگا ہوں۔ ایک ایسا ملک جس کے پاس دنیا کی بہترین زرعی اراضی ہو اور پانچ دریاؤں کے ساتھ ساتھ انگریزوں کا بنایا ہوا بہترین نہری نظام بھی ہو۔ ایک ایسا ملک جس کو اللہ تعالیٰ نے خوبصورت اور کاشت کاری کے لیے موافق موسمیات عطاء کر رکھے ہوں وہ ملک ایک سال میں 10 ارب ڈالر سے زائد زرعی اجناس کی درآمدات کی مد میں خرچ کر رہا ہے تو یہ سراسر نالائقی اور نااہلیت نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ خاکسار آج اپنے اِس ہفتے کے کالم میں وہ چند وجوہات آپ کے گوش گزار کر رہا ہے جو ہماری زرعی اجناس کی پیداوار میں رکاوٹ ہیں۔


٭……  بیرون ملک سے ترسیلات زر، جب سے ہمارے نوجوانوں نے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کا رُخ کیا ہے اور وہاں سخت محنت کر کے زرمبادلہ اپنے ملک اور خاندان کو بھیجنا شروع کیا تب سے لوگوں نے زمینداری کا کام چھوڑ دیا ہے۔ایک فرد دبئی یا یورپ باقی سب ویلے، اس میں ایک اور بھی غلط کام یہ ہوا کہ جب لوگ باہر کی کمائی کی بیجا نمائش کرتے ہیں، بڑے بڑے مکان، گاڑیاں اور دوسری آسائشوں کی نمائش کرتے ہیں تو پھر چھوٹے کسان خود کو حقیر جان کر زمینداری کی بجائے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں زمین فروخت کر کے بھی بیرون ملک چلے جاتے ہیں،اس طرح کاشتکاری رک جاتی ہے۔(ترسیلات زر ضروری ہیں مگر تربیت کی ضرورت ہے)
٭……  ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ایک طرف زمینوں کی تقسیم در تقسیم اور دوسری طرف نئی آبادیوں اور کالونیوں کی وجہ سے زرعی زمین سکڑ کر ایک خاندان کے لیے اتنی کم رہ جاتی ہے کہ اس میں کاشتکاری کر کے خاندان کا پیٹ پالنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔


٭……  سرمایہ داروں اور بڑے اداروں کی طرف سے رہائشی کالونیوں میں سرمایہ کاری۔ پاکستان کے اندر پچھلے 50 برس سے ہر شہر میں سب سے منافع بخش، آسان اور محفوظ سرمایہ کاری اسی سیکٹر میں سمجھی جاتی ہے اور تمام چھوٹے بڑے سرمایہ داروں نے اسی شعبے میں پیسہ لگا رکھا ہے اور عوام بھی ان کالونیوں میں مکان بنانا فخر سمجھتے ہیں۔
٭……  جاگیردار، ہمارے ملک کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی یہاں انگریزوں نے اپنی خدمات کے عوض لوگوں کو بڑی بڑی جاگیریں دے رکھی تھیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی کسی بھی حکومت نے زرعی اصلاحات کرنے پر توجہ نہیں دی یا یوں کہیں کہ جاگیردار ہی برسراقتدار رہے، اس طرح ہزاروں ایکڑ اراضی کے مالکوں کو اپنی ساری زمین آباد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے اور پھر لاکھوں ایکڑ اراضی غیر آباد پڑی ہے۔ سندھ میں نہری پانی کی کمی کی وجہ سے بھی ہزاروں ایکڑ زمین غیر آباد ہو چکی ہے۔


٭……  پانچویں بڑی وجہ جو ہے وہ اوپر بیان کی گئی تمام وجوہات کی ماں بھی ہے. اور وہ ملک میں کوئی زرعی پالیسی نہ ہونا اور بلڈنگ کوڈز کے نفاذ کا نہ ہونا ہے آج تک اسی زرعی ملک کی کسی بھی حکومت نے کسی زرعی پالیسی کو نافذ نہیں کیا ہے بلکہ کئی سول اور فوجی افسران کو مزید مربعے الاٹ کیے جاتے رہے ہیں اسی طرح رہائشی کالونیوں کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے ملک کے اندر زرعی اجناس کی پیداوار میں کوئی توازن قائم نہیں رہا، کبھی ایک موسم میں آلو اتنے زیادہ پیدا ہو گئے کہ خریدار ملنا مشکل ہوا اور لاکھوں ٹن آلو ضائع ہو گئے، اگلی بار کسانوں نے آلو لگانا چھوڑ دیا تو پھر ملک میں آلو کی کمی ہو گئی۔محکمہ زراعت اربوں روپے تنخواہیں لینے کے باوجود کسان کو کوئی سہولت دینے میں ناکام رہا، اسلام آباد میں قائم زرعی ترقیاتی، تحقیقاتی سنٹر میں پچھلے 50 سال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اب بھی وقت ہے اگر حکمران کرپشن اور سیاسی لڑائی سے فرصت پا کر  اِس طرف توجہ دیں تو اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے اور کچھ کمایا بھی جا سکتا ہے۔ حکومت کو سب سے پہلے زرعی اصلاحات اس طرح کرنی چاہیے کہ زمین صرف اُن لوگوں کے پاس رہے جو اس میں خود کاشتکاری کریں اور اپنی پیداوار میں مسلسل اضافہ کریں، ایسا نہ کرنے والوں سے زمین واپس لے لی جائے۔ کسی بھی خاندان کے پاس زیادہ سے زیادہ زمین تین مربع(75 ایکڑ) اور کم از کم ایک مربع یعنی 25 ایکڑ ہو، بلڈنگ کوڈ اس طرح نافذ کیا جائے کہ کسی بھی اچھی زرعی زمین میں مکان بنانے کی اجازت نہ دی جائے اور کثیر منزلہ مکانات تعمیر کیے جائیں۔ اسی طرح صنعتیں بھی پہاڑی علاقوں میں لگائی جائیں۔ بارانی علاقوں کے دیہاتوں میں تھوڑی زمین والے کاشتکاروں کی زمین کو اکٹھا کر کے کسی ایک کو دی جائے اور خاندانی تقسیم پر پابندی لگا کر ایک خاندان کی زمین اُس خاندان کے کسی ایک فرد کو رکھنے کی اجازت ہو باقیوں کو اُن کے حصے کے پیسے دئیے جائیں اور کاشتکاروں کو باقاعدہ تربیت دی جائے کہ کس طرح پیداوار بڑھانی ہے اور اُس میں توازن رکھنا ہے۔ بارانی علاقے  دالوں کی پیداوار میں اہم ہو سکتے ہیں، چھوٹے کاشتکاروں کو سبزیاں اُگانے اور جانور پالنے پر توجہ دینی چاہیے، اگر حکومت اس شعبے پر تھوڑی سے توجہ بھی دے تو ہمیں اوپر ذکر کی گئی کوئی چیز بھی درآمد کرنے کی ضرورت نہ ہے۔
اس موضوع پر مزید لکھوں گا اِس وقت تک اتنا ہی کافی ہے۔
نوٹ: یہ سب سوچنا اور لکھنا آسان کام نہیں ہے۔ یہ بندہ ناچیز اپنے قومی فرض کی ادائیگی کرتا ہے پھر جب لوگ بالخصوص ذمہ داران اُسے پڑھتے نہیں اور پڑھ کر کچھ ایکٹ نہیں کرتے تو پھر بہت دکھ ہوتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -