قرآن کی رو سے حکومت کو قانون سازی کا حق اختیار کہاں کہاں ہے؟

قرآن کی رو سے حکومت کو قانون سازی کا حق اختیار کہاں کہاں ہے؟
قرآن کی رو سے حکومت کو قانون سازی کا حق اختیار کہاں کہاں ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 وطن عزےز پاکستان آئےن اسلامی جمہورےہ 1973 کے تحت چل رہا ہے۔ آئےن کی پاسداری ہر پاکستانی پر فرض ہے، چاہے اس کی حےثےت عوامی ےا حکومتی سطح کی ہو، اس لئے کہ آئےن مےں اس امر کی واضح ےقےن دہانی کرائی گئی ہے کہ آئےن کی کوئی دفعہ بھی قرآن و سنت متصادم نہیں ہو گی ۔ آئےن مےں موجود ےہ دفعات اس طرح سے ہےں:
دفعہ۔1( ابتدائےہ) تشرےح:آئےن مےں پاکستان کو جمہوری رےاست قرار دےا گےا ہے۔ جمہوری رےاست مےں کسی مخصوص جماعت، فرقے ےا فرد کی بجائے اقتدار بحےثےت مجموعی عوام کے ہاتھوں مےں ہوتا ہے ۔ جمہورےت مےں خواہ وہ معاشرتی ہو ےا اقتصادی، انسانی اداروں کا انتظام عوام خود اپنی بہتری کے لئے چلاتے ہےں۔
پاکستان کو نہ صرف آئےن مےں جمہوری رےاست قراردےا گےا ہے ،بلکہ اسے اسلامی جمہورےہ کانام بھی دےا گےا ہے، اس اعتبار سے رےاست کا کوئی قانون قرآن وسنت کے منافی نہےں بناےا جاسکتا۔ پاکستان، چونکہ اسلامی جمہوری مملکت ہے، اس لئے اقتدار اعلیٰ خدائے بزرگ وبرتر کو حاصل ہے۔ اس اقتدار اعلیٰ کے تحت پاکستان کے عوام کو حکمرانی کا اختےار اےک مقدس امانت کے طور پر عطا کےا گےا ہے۔ سورة النساءآےت58 مےں اللہ تعالیٰ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہےں....ترجمہ: بے شک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دےتا ہے کہ امانتےں ان کے حق داروں کو پہنچا دےا کرو۔
آئےن کے دےباچے مےں بھی واضح الفاظ مےں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ حکمرانی کے اختےار کی ےہ مقدس امانت عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کار لائیں گے۔ اس اعتبار سے یہ ذمہ داری عوام کو سونپ دی گئی ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خےال رکھےں کہ کہےں وہ اےسے نمائندوں کا انتخاب تو نہےں کر رہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی اقتدار کی امانت مےں خےانت ہو ۔ دوسرا فرض ان نمائندوں پر بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی بجا آوری مےں اس امانت کی حفاظت کرےں جو ان کے سپرد کی گئی ہے۔
آرٹےکل 2 - اسلام مملکتی مذہب ہوگا : اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہو گا۔اس سے مراد ےہ ہے کہ اسلام کو مملکت کے سرکاری مذہب کی حےثےت حاصل ہوگی اور اس کے لئے کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہےں بناےا جائے گا اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام قوانےن اسلام کے سانچے مےں ڈھالے جائےں گے جو اسلامی قوانےن سے متصادم ہوں گے تاکہ صحےح معنوں مےں اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دےا جا سکے۔ شرےعت کورٹ اسلامی نظرےاتی کونسل کو خصوصی طور پر ےہ کام سونپا گےا ہے کہ وہ تمام قوانےن کا جائزہ لے اوراگر کوئی قانون ان کی نظر مےں اسلام کی تعلےمات سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اس کی تنسےخ کے لئے سفارش کی جائے تاکہ پارلیمنٹ اس کی تنسےخ کے لئے قانون وضع کرے۔
(آرٹےکل (2الف) فرمان صدر نمبر 14 مجرےہ 1985 ءسے شامل ہوا)
آرٹےکل (2) الف-قرار داد مقاصد مستقل احکام کا حصہ ہوگی: ضمےمہ مےں نقل کردہ قرارداد مقاصد مےں بےان کردہ اصول اور احکام کو بذرےعہ ہذا دستور کا مستقل حصہ قرار دےا جاتا ہے اور وہ بجنسہ موثر ہوں گے۔
قرارداد مقاصد مےں حکمرانی کے لئے ےہ اصول بےان کئے گئے ہےں۔
1: اللہ تعالیٰ کل کائنات کا بلا شرکت غےرے حاکم مطلق ہے اور اس نے جمہور کی وساطت سے مملکت پاکستان کو اختےار حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لئے نےا بتاً عطا فرمائے ہےں، چونکہ ےہ اختےار حکمرانی اےک مقدس امانت ہے جس کی رو سے مملکت جملہ حقوق و اختےارات حکمرانی جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذرےعے سے استعمال کرے گی۔
2: جس کی رو سے اصول جمہورےت، حرےت ، مساوات، رواداری ، عدل اور حکمرانی کو جس طرح اسلام نے ان کی تشرےح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے گا، جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بناےا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو اسلامی تعلےمات کے مطابق، جو قرآن و سنت مےں متعےن ہےں، تربےت دے سکےں۔
4: اب قرآن مجےد کی طرف سے جس مےں صرےحاً بتاےا گےا ہے کہ حکومت کو قانون سازی کا حق اختےار کہاں کہاں دےا گےا ہے؟سورة المجادلہ نمبر 58 کی آےت نمبر5 کا ترجمہ ملاحظہ ہو.... ”بےشک جو لوگ مخالفت کر رہے ہےں اللہ اور اس کے رسول کی، انہےں ذلےل کےا جائے گا، جس طرح ذلےل کئے گئے وہ مخالفےن جو ان سے پہلے تھے اور بے شک ہم نے اتاری ہےں روشن آےتےں اور کفار کے لئے رسوا کن عذاب ہے“....اس آیت مبارکہ مےں لفظ یحادون آےا ہے جس کا مصدر محاداة ہے، ےعنی عداوت کرنا، مخالفت کرنا اور جھگڑا کرنا ....اس کا اصل ماخذ حد ہے.... کےونکہ دونوں اپنی اپنی حد سے تجاوز کر کے دوسرے کی حد مےں مداخلت کرنا چاہتے ہےں، اس لئے اسے محاداة کہا جاتا ہے ۔ اس تشرےح کی روشنی مےں آےت مذکورہ کا مطلب ےہ ہو گا کہ جو لوگ اپنی بندگی کی حدود کو پھاند کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی حدود مےں مداخلت بے جا کا ارتکاب کرتے ہےں، قانون سازی کا وہ حق جو صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئے مخصوص ہے، اس حق کو اپنے ہاتھ مےں لے لےتے ہےں اور اللہ کے بندوں کے لئے خود قانون وضع کرنا شروع کر دےتے ہےں۔ ےہی وہ لوگ ہےں جن کا ذکر اس آےت طیبہ مےں کیا گےا ہے....علامہ بےضادی ؒ نے اس آےت کی ےوں تفسےر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی وضع کردہ حدود اور قوانےن کے برعکس اپنی طرف سے حدود و قوانےن وضع کرتے ہےں ۔ علامہ آلوسی نے شیخ اکرم سعےد اللہ چلپی ؒ کا قول اسی طرح سے نقل کےا ہے: ”اس آےت مےں اےسے بادشاہوں اور حکام کے لئے وعےد شدےد ہے جو شرےعت کی حدود کے برعکس کوئی قانون وضع کرتے ہےں ۔ علامہ آلوسیؒ نے تو ےہ بتاےا ہے کہ حکومت کونئی قانون سازی کا کہاں کہاں اختےارہے اور کہاں نہےں ہے ۔قارئےن کرام اور والےان ملک اور صاحبان اختےار واقتدار اس کا خلاصہ ملاحظہ فرمائےں:

(1) فوجوں کی تربےت :انہےں جنگی مشقےں کرانا، انہےں ہر قسم کا جدےد ترےن اسلحہ اپنے مسائل سے تےار کردہ مہےا کرنا جس سے دشمن پر غلبہ پاےا جا سکے، جنگ کی منصوبہ بندی، مےدان جنگ مےں فوجوں کی نقل وحرکت کے منصوبے اور ضابطے ، ان تمام امور مےں حکام وقت کو مکمل اختےارات حاصل ہےں۔ مسلمانوں کے لئے جو بہتر اور مفےد ہو، اس کے لئے تدابےر اختےار کرنا، مناسب مقامات پر قلعوں کو تعمےر کرنا ، شہروں کی حفاظت کے لئے تجاوےز سوچنا اور عمل کرنا، وہ جرائم جن کی سزا شرےعت مےں مقرر نہےں، ان کے لئے مناسب سزائےں تجوےز اور مقرر کرنا، حکومت کو ان جرائم کے لئے اےسی موثر سزائےں مقرر کرنا جن سے جرائم کا سد باب ہو سکے۔
2: کاروبار ، لےن دےن کے لئے اےسے قواعدو ضوابط مرتب کرنا جن سے کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم نہ آتی ہو تو درست ہے، لےکن کوئی اےسا ضابطہ بنانا جس سے کسی شرعی حکم کی صراحتاً خلاف ورزی لازم آئے، ہر گز جائز نہےں۔ جےسے سود کے جواز کا قول کرنا اور اس کے بغےر معاشی اور صنعتی ترقی کو محال سمجھنا حرام ہے۔
3: بےت المال اور اراضی کے بارے مےں جو احکام صحےح رواےات سے حضوراکرم سے ثابت ہےں، ان کی خلاف ورزی کسی صورت مےں جائز نہےں، لےکن جو احکام خلفائے کرام نے اپنے اجتہاد سے وضع کئے، اگر زمانے کے حالات کے پےش نظر ان کے بارے مےں اےسے احکام وضع کئے جائےں،جن مےں لوگوں کے لئے آسانی اور سہولت ہو اور ان مےں عوام کا فائدہ ہو تو اس مےں کوئی حرج نہےں، لےکن خلفاءکے اجتہادی احکام کے بجائے اےسے جدےد قوانےن وضع کرنا، جن مےں لوگوں مشقتوں مےں اضافہ ہو جائے، ےہ کسی طرح جائز نہےں ۔
4:وہ حدودجو اللہ تعالیٰ نے چوروں، ڈاکوﺅں، بدکاروں اور زانیوں وغیرہ کے لئے مقرر کی ہیں، ان میں کسی قسم کا ردوبدل ہرگز جائزنہیں۔
5 :علامہ آلوسیؒآخر میں فرماتے ہیں کہ جو شخص اسلامی قوانین کو ناقص سمجھتا ہے، ان کی تحقیر کرتا ہے اور جدید وضع کردہ قوانین کو ان سے بہتر اور زیادہ مفید جانتا ہے، اس کے کفر میں شک کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، انہی لوگوں کے بارے میں ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ:” ان کو ذلیل ورسوا کر دیا جائے گا۔ انہیں منہ کے بل گرادیا جائے گا، جس طرح ان سے پہلے جو سرکش قومیں گزری ہیں، ان کو ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا تھا۔
6: جہاں تک آئین پاکستان کی دفعہ 248 کے تحت استثنا کا ذکر ہے، یہ مسئلہ پہلے ہی عدالت عظمیٰ کے زیر نظر ہے، مگر اب جب کہ حکومت کی طرف سے استثنا کے بارے میں اور بعض دیگر دفعات کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہورہی ہے، اس کے سدباب کے لئے اولین ذمہ داری واجب الاحترام جناب مولانا فضل الرحمن پر عائد ہوتی ہے اگر وہ اپنے آٹھ ارکان کو حکومت کی جھولی میں ڈال کر نئی ترمیمی دفعات کی حتمی منظوری کروا دیتے ہیں تو قوم اس کو ہرگز پسند نہیں کرے گی۔      

مزید :

کالم -