دہشت گردی،اسباب اورحل

جعفر ایکسپریس کا سینکڑوں مسافروں سمیت اغوا، سول اور سکیورٹی اداروں کے افراد کی شہادت ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے اور یہ واقعہ اپنے پیچھے متعدد سوال چھوڑ گیاہے، ایک مسافر ٹرین کا اغواء ایسا واقعہ ہے، جس کے باعث ہر شہری خوف و دہشت کا شکار ہے۔دہشت گردی کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ دینی طبقے کی جانب سے اس کو فکری سطح پر چیلنج نہ کرنا بھی ہے،جہاد کی جو توجیح شدت پسندکر رہے ہیں اور وہ جن اسلامی روایات کا سہارا لے رہے ہیں اس کا مدلل جواب کہیں سے نہیں آرہا،دہشت گردی کے اسباب میں سب سے نمایاں کلچر عدم برداشت ہے،اگر ہمارے معاشرے میں برداشت پیدا ہو جائے تو ہم اس ناسور سے چھٹکارا پا سکتے ہیں،بھارتی سازشیں اپنی جگہ لیکن سماجی اور معاشی ناانصافیاں بھی ایک سبب ہیں، پسند نا پسند،وقتی طور پر مسئلہ کی شدت میں کمی کے لئے رعایات دینا بھی دہشت گردی کے فروغ کا سبب بنا 80ء کی دہائی میں افغان مہاجرین اور مجاہدین کی کھلے عام اور بغیر کسی ریکارڈ کے آمد و رفت سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور آج نصف صدی کے بعد بھی اپنے عروج پر ہے،بلوچستان میں البتہ اس کی شکل اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد مزید تبدیل ہو گئی،ذمہ داروں نے اس اہم معاملہ پر بھی وہ بردباری اور ذکاوت نہیں دکھائی جس کا یہ مسئلہ متقاضی تھا، نتیجہ آج قوم بھگت رہی ہے اور جسد ِ ملی زخم زخم اور پاک دھرتی لہو لہو ہے۔
دہشت گردی کے بنیادی اسباب میں سے ایک،جہاد کی غلط تعلیم بھی ہے،جو لوگ کبھی روس کے خلاف نبرد آزما تھے اور مجاہد کہلاتے تھے،وہی آج دہشت گرد ہیں، پاک افغان سرحدی علاقوں میں مخصوص دھڑوں کا غلبہ،حکومت کی جانب سے ان کو ڈھیل دینے ، افغانستان اور پاکستان کے درمیان آسان رسائی نے بھی دہشت گردوں کے حوصلے بڑھائے،اسی طرح دہشت گردی کے فروغ کا ایک سبب غربت بھی ہے۔
پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کے زخم ابھی تازہ ہیں اس خود کش دھماکہ نے بھی سکیورٹی کے حوالے سے بہت سے خدشات کو جنم دیا تھا مگر جعفر ایکسپریس کے واقعہ نے ہر شہری کو سکیورٹی کے حوالے سے بے بس کر دیا ہے،اگست 2021ء میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ جمایا اور امریکی اتحادی اپنے افغان حکمرانوں سمیت افغانستان سے نکل گئے تو پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے گویا طالبان کی فتح پاکستان کی فتح تھی،تاہم اس وقت بھی سنجیدہ حلقے پریشان تھے کہ جن قوتوں نے امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو شکست دی، اگر طاقت میں آگئیں تو وہ پاکستان کو بھی آنکھیں دکھائیں گی،افغان طالبان کا کہنا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف ان کو پکڑ پکڑ کر بیچتے رہے، ان پر ڈرون حملے کئے گئے، جیلوں میں ڈالا اور پاکستان میں ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ اس وقت افغان طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی جن کا پاکستانی طالبان پر سب سے زیادہ اثرورسوخ رہا ہے، انہوں نے پاکستان کو تجویز دی کہ معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے اور اس لئے مذاکرات شروع کئے گئے، صورتحال کے مطابق پاکستان نے انتہائی کمزور پوزیشن مذاکرات میں حصہ لیا، کئی نقادوں کے نزدیک یہ سرنڈر کے مترادف تھا جس میں تمام جنگجوؤں کی خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں دوبارہ آبادکاری اور تحفظ کی شرائط مان لی گئی تھیں۔ اس کے بعد دہشت گردوں کی سرحدی علاقوں میں پوزیشن مضبوط ہو گئی،افغانستان میں موجود دہشت گردوں سے روابط بڑھے،آمدو رفت میں چھوٹ مل گئی،اور کچھ دھڑوں نے قبائلی علاقوں میں اپنی ریاست قائم کرنے کی بھی کوشش کی،نتیجے میں دہشت گردی کا جال بتدریج پھیلتا چلا گیا،اس دوران پورے ملک میں سیاسی انتشار اور اقتصادی بدحالی نے حکومت کی امن وامان کے مسئلے سے توجہ ہٹائے رکھی، دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تنظیم پر توجہ دی اور نئی تنظیم سازی کی،اس دوران دہشت گردی اور انتہا پسندی میں بھی میل جول بڑھا جس کے نتیجے میں ملکی امن داؤ پر لگ گیا،نتیجے میں معاشی ترقی پر بھی انجماد کی کیفیت طاری ہو گئی، اس دو ران پاک فوج اور سکیورٹی فورسز نے متعدد کامیاب آپریشن کر کے دہشت گردی کے نیٹ ورک کی کمر توڑ دی، مگر کے پی کے اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد عناصر کی پذیرائی نے دہشت گردوں اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہ ہونے دیا۔
اب جبکہ حکومت اور فوج دہشت گردی کی لہر سے نمٹ رہی ہیں،پالیسی سازوں کو بنیادی علّتوں کا سدِّ باب کرنے کے لئے ”تدارْکِ دہشت گردی“ کے ضابطہئ کار کو وسیع العمل انسداد ِ دہشت گردی کے فریم ورک کے ساتھ مکمل کرنا ہو گا، نیکٹا کا مقصد جامع پالیسی نقطہ نظر اور سٹرٹیجک مواصلات کے ذریعے پیش بندی کر کے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا ہے، دہشت گردوں کو پاکستان کی سماجی، معاشی اور سیاسی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لئے خیال یہ تھا کہ پیشگی وارننگ میکانزم تیار کرنے اور معقول ادارہ جاتی ہم آہنگی فراہم کرنے کی پاکستان کی صلاحیت کو مضبوط کرنا اس کے مقاصد ہیں تاہم، بعد کے برسوں میں اس کے برعکس نیکٹا نے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے نظریاتی جائزے پر توجہ مرکوز رکھی اور قانون کے نفاذ اور قانونی خدمات کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ چھوڑ دیا،اگرچہ نیکٹا نظریاتی طور پر دہشت گردی اور اس کی مختلف اشکال سے نمٹنے کے لئے ایک مثالی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے، لیکن اسے دہشت گردی سے نمٹنے اور دہشت گرد تنظیموں کے مراکز میں مسلسل تبدیلی کے باعث شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے،نائن الیون کے بعدشورش کچلنے کی کامیاب کارروائیوں نے پاکستان کو بڑے پیمانے پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا، لیکن ساتھ ہی دہشت گردوں کے لئے اُمید سے بڑھ کر بھر پور جوابی کارروائیاں کرنے کے مواقع بھی فراہم کئے، جس سے اس کی انسداد دہشت گردی اور تدارْکِ دہشت گردی طریقہ عمل میں ایک اور پرت کا اضافہ ہوا، اے پی ایس پشاور کے واقعے کے بعد پاکستان نے تدارْکِ دہشت گردی کی حکمت عملیوں پر انسدادِ دہشت گردی کے ردِ عمل نظام کو ترجیح دی، جس میں کثیرالجہتی فوجی اور انٹیلی جنس آپریشنز کے ساتھ ایک جامع تر انسداد دہشت گردی پالیسی تیار کی گئی۔
اس صورتحال میں سیاسی استحکام اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہے، مشترکہ مربوط کارروائیوں کی عدم موجودگی میں پولیس، مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پیرا ملٹری فورس پر حملوں کے لئے دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں کو با آسانی کام کرنے کا موقع ملتا ہے، پاکستان میں پولیس فورس سکیورٹی برقرار رکھنے کے حوالے سے شدید تنقید کا موضوع رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس تدارْکِ دہشت گردی اور انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتی ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ اس وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے، حکومت ایک وسیع قومی ڈائیلاگ کے لئے تمام مذہبی،قوم پرست اور سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرے تاکہ اس عفریت سے نمٹنے کے لئے کوئی مشترکہ حل نکالا جائے،صرف اکیلے حکومتی اقدامات سے جزوی کامیابی تو شائد مل جائے مگر مکمل کامیابی کے لئے قوم کا ایک ہونا ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭