سیاسی شطرنج کی بساط پر غیر سیاسی چالیں
شطرنج کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی ارون نمذووچ ( Aron Nimzowitsch) کا طریقہ کار یہ تھا کہ سب سے پہلے حریف کی چالوں کو محدود کردیں اور جب اس کے فرار کی تمام راہیں مسدود ہو جائیں تو آخر میں اُسے تباہ کردیں ۔ کیا خیال ہے، گزشتہ تین برس سے ہماری ملکی بساط پر فاضل عدلیہ اور صدر آصف علی زرداری صاحب کے درمیان بھی کچھ ایسا ہی کھیل نہیںکھیلا جا رہا ؟اب ہو سکتا ہے کہ ایسا لگے کہ میچ کچھ ”نتیجہ خیز “ ثابت نہیںہوا ہے مگر ٹھہریں، اتنی جلدی کوئی نتیجہ نکالنا درست نہیں۔ مارگلہ پہاڑیوںکے پُرسکون دامن میں بنے ہوئے پُر شکوہ ایوان ِ صدر کے مقیم نہایت زیرک سیاست دان ہیں اور وہ سیاسی بساط پر کسی بھی ماہر شاطر کو شہ مات دے سکتے ہیں۔ ذرا یاد کریں کہ کس طرح انہوںنے جنرل (ر) پرویزمشرف کو اقتدار سے باہر کیا، نواز شریف کو مسلسل وعدوں سے چکمہ دیئے رکھا، ایم کیو ایم اور دیگر حلیفوں کو پیہم چکر دیئے(یہ سلسلہ جاری ہے) ، عدلیہ کو چیلنج کیا اور بڑی مہارت سے دفاعی اداروں کواس حد تک برہم نہ ہونے دیا کہ وہ کوئی انتہائی قدم اٹھا بیٹھیں۔ انہوںنے اپنے دو وفادارجیالوں، حسین حقانی اور سید یوسف رضا گیلانی کو مہروںکی طرح استعمال کرتے ہوئے قربان کیا، جبکہ تیسرے، ملک ریاض، کے سر پر بھی قانون کی تلوار لٹک رہی ہے۔ شطرنج میں بادشاہ سب سے طاقتور مقام رکھتا ہے۔ اگر یہ گرجائے تو کھیل ختم ہو جاتا ہے۔
مَیں شطرنج کے کھیل کو زیادہ نہیں سمجھتی ۔ جب نیویارک کے کسی پارک میںہوں تو مَیں دیکھتی ہوں کہ کس طرح نوجوان اورمعمر افراد سیمنٹ کے بنے ہوئے بنچوں پر بیٹھے شطرنج کھیل رہے ہوتے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے شاہ کا دفاع کریں۔ اس کے لئے وہ دیگر کم حیثیت کے مہرے قربان کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس کھیل میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ اُنہیں دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہیں ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں سپریم کورٹ شاہ کو گرا کر کھیل ختم کرنا چاہتی تھی شاہ مات دینا شطرنج کے کھیل کا اختتام ہوتا ہے۔ جب ایک کھلاڑی کا شاہ اس طرح گھِر جاتا ہے کہ اس کے بچاﺅ کی کوئی صورت نہیں رہتی تو وہ کھیل ہار جاتا ہے۔ اگر ہم اپنی سیاسی بسا ط کا جائزہ لیں تو آصف علی زرداری صاحب براہ ِ راست حملے کی زد میں تھے، مگر وہ اپنا بچاﺅ کرنے میں کامیاب رہے ۔ یہ بازی، جو جج حضرات کی طرف سے این آر او کو کالعدم قرار دیئے جانے سے شروع ہوئی تھی، تین سال تک جاری رہی۔ شطرنج کے کھیل میں عملی طور پر شاہ کو گرنے نہیں دیا جاتا جب کھلاڑی دیکھتا ہے کہ اب وہ شاہ کو نہیں بچا سکتا تو وہ ہار مان لیتا ہے۔
ہمارے ہاں” شاہ “ہار ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس نے آخری دم تک لڑنے کی قسم کھائی ہے، تاہم ہو سکتا ہے کہ ابھی بھی یہ کھیل ہار جیت کے بغیر ختم ہوجائے۔ بعض اوقات شطرنج میں بازی اس مقام پر پہنچ جاتی ہے، جب طرفین کے پاس کوئی چا ل نہیں بچتی تو وہ کھیل کو ہار جیت کے بغیر ختم کر دیتے ہیں، تاہم ایسا عام کھلاڑیوں کے ساتھ ہوتا ہے ، جب شطرنج کے عظیم کھلاڑی بساط پر آمنے سامنے ہوں تو پھر کسی نہ کسی کی ہار ضرور ہوتی ہے۔ ابھی دو یا تین راﺅنڈ ہوئے ہیں خاطر جمع رکھیں اور دیکھیں کہ چوتھے یا پانچویں یا ممکن ہے کے چھٹے یا ساتویں راﺅنڈ تک مقابلہ جائے۔جس طرح یکایک ویرانے سے کوئی بے گھر شخص اچانک کسی آبادی میں آنکلتا ہے، آج ایک مرتبہ پھر آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کا ذکر ہو رہا ہے صرف کوئی چھلاوہ ہی نہیں، بلکہ ہمارے ہاں برفانی دیو اور ہمالین مین بھی دیکھے جانے کی شہادت دی گئی ہے۔ بعض سیانوںکو ان کے قدموںکے نشانات آبپارہ کے آس پاس دکھائی دیتے رہے ہیں۔
کیا کبھی کوئی یہ بات منظر عام پر لائے گا کہ یہ سیاسی سیل، دفاعی اداروں اور ذوالفقار علی بھٹو کے اشتراک کا نتیجہ تھا؟کیا جذباتی وابستگیاں بالائے طاق رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی غلطیوں پر بھی بات ہو گی؟ غالباً ایسا نہیںہوگا۔ جب دفاعی ادارے اپنے ترجمان سیکرٹری دفاع کے ذریعے بیان ِ حلفی داخل کراتے ہیںکہ سیاسی سیل ختم کیا جا چکا ہے توعدالت اسے تسلیم کیوں نہیںکرتی ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ”بڑے “ نے 1997ءمیں بیان ِ حلفی دے کر عدالت کو بتایا تھا کہ آئی ایس آئی کا سیاسی سیل ہنوز فعال ہے۔ ہمارے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان غیر متزلزل عزم کے مالک ہیں۔ ایوان ِ صدر کی دیواریں بلند سہی، مگریہ بھی اس کے کچن میں بننے والے آملیٹ کی مہک کو باہر آنے سے نہیں روک سکتیں، چنانچہ چیف صاحب نے سلمان فاروقی ، جن کے ہم عمر تقریباً تمام جونیئر یا سینئر سیکرٹری اپنی اپنی مدت ِ ملازمت پوری کرکے اس جہانِ فانی کو داغ مفارقت دے چکے ہیں،کو حکم دیا ہے کہ وہ ایوان ِ صدر کے مقفل کمرے کھولیں اور تمام ریکارڈ 15 اکتوبر تک عدالت میں پیش کریں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سولہ سال پہلے اصغر خان کی دائر کردہ پٹیشن، جس میں انہوںنے الزام لگایا تھا کہ 1990 ءکی دھائی میں خفیہ اداروںنے مختلف سیاست دانوں میں رقم تقسیم کی تھی تاکہ محترمہ بے نظیربھٹو کو آگے آنے سے روکا جا سکے، کی سماعت کے موقع پر عدالت نے ایوان ِ صدر کو اس میں ملوث کیوں کیا ہے؟ کیا آصف علی زرداری اپنے پیش روﺅں کے گناہوں کے ذمہ دار ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ زرداری صاحب پر الزام ہے کہ وہ آنے والے انتخابات جیتنے کے لئے آئی ایس آئی کا سیاسی سیل استعمال کررہے ہیں۔ کورٹ آرڈر کے مطابق” آئین کی رو سے صدر ِ پاکستان ، جو کہ ریاست کی تمام اکائیوں کی نمائندگی کرتے ہیں، ایسی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیںلے سکتے جو قومی مفاد کے نام پر کسی ایک گروہ یا جماعت کو فائدہ پہنچائیں، اس لئے ضروری ہے کہ اس ضمن میں صدر صاحب کے سیکرٹری (سلمان فاروقی) کا بیان بھی لے لیا جائے، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں آئین کے آرٹیکل 41(1) کی رو سے صدر ریاست کی تمام اکائیوں کو اکٹھا رکھتا ہے ۔ آرٹیکل 243(2) کے تحت وہ مسلح افواج کا کمانڈر ِ اعلیٰ ہوتا ہے“۔
بہت اچھے! لگتا ہے کہ شطرنج کی بساط پر یہ ایک عمدہ چال ہے ، مگر آصف علی زرداری صاحب اب تک بہت سے حیران کن داﺅ کھیلتے ہوئے عدلیہ کو ورطہ ¿ حیرت میں ڈال چکے ہیں۔اُن مواقع پر عدالت خود کو بے بس محسوس کرتی ہے۔نومبر 2008ءکی ایک سہ پہر کو مَیں اسلام آباد کے نزدیک واقع ایک فارم ھاﺅس میں جنرل شجاعت علی خان سے ملنے گئی۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور ِ حکومت میں آئی ایس آئی کا سیاسی سیل چلاتے تھے۔ جب 1996ءمیں محترمہ کی حکومت گرائی گئی تو انہوںنے آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ اس سے پہلے اُن کا بھائی مرتضی بھٹو کراچی میں گمنام قاتلوںکی گولیوں کا نشانہ بن چکا تھا۔ انہوںنے 2000 میں ایک انگریزی ماہنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے الزام لگایا کہ جنرل شجاعت علی خان اُن کی حکومت گرائے جانے کے ذمہ دار ہیں۔ انہوںنے اعتراف کیا کہ وہ جنرل شجاعت علی خان کو ہٹانا چاہتی تھیں، مگر آئی ایس آئی کے چیف جنرل نسیم رانا اور وزارت ِ دفاع جنرل شجاعت علی خان کو نہ ہٹا سکے....(جنرل شجاعت اس الزام کی تردید کرتے ہیں ۔ انہوں نے محترمہ کو ان کی ہلاکت سے ایک ماہ پہلے ایک ملاقات میں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ اُن کی حکومت گرائے جانے میں اُن کا کوئی ہاتھ نہ تھا)۔
جنرل شجاعت علی خان نے رفیع رضا رپورٹ دیکھی ہے۔ اس کے مطابق 1976 ءمیں ذوالفقار علی بھٹو نے آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کی تشکیل کا حکم دیا تھا۔ اُن کا حکم ، جو کہ ایک سطر پر مشتمل ہے، ہاتھ سے لکھا ہوا ہے۔ اس طرح آئی ایس آئی کو اجازت دے دی گئی کہ سیاست دانوں کے فون ٹیپ کرے۔ جنرل شجاعت کا کہنا ہے: ”ہمیں بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اجازت دے رکھی تھی کہ سیاست دانوں، ججوں ، حتیٰ کہ ڈاکٹر اے کیو خان کے فون ٹیپ کریں“۔
جنرل شجاعت علی خان کا ، جو کہ دو سے زیادہ سال تک آئی ایس آئی کے انٹرنل ونگ کے ڈی جی رہے ہیں، کہنا ہے کہ انہوں نے محترمہ یا صدر الغاری کے فون کبھی ٹیپ نہیںکئے تھے۔ اُن کا کام ”سٹاک ایکسچینج یا ملکی معیشت کی خبر رکھنا تھا“۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر ِ نامدار کو ناراض کر بیٹھے اور آصف علی زرداری نے اُن پر بدعنوانی کے الزامات عائد کردیئے۔ وہ ”معیشت “ کی رپورٹ محترمہ کو بھجواتے اور ہاتھ سے تبصرہ لکھ کر واپس کر دیتیں۔ بعض اوقات وہ ناراض بھی ہوتیں اور کہتیں ”آئی ایس آئی معیشت کی ماہر کب سے ہو گئی ہے“؟
نواز شریف صاحب بھی ان معاملات میں پی پی پی حکومت سے پیچھے نہیں تھے۔ آئی ایس آئی کے چیف ، جیسا کہ جنرل حمید گل، اسد درانی، جاوید ناصر، محمود احمد اور احتشام ضمیر نے سیاسی حکومتوں میں مبینہ طور پر مداخلت کی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یقینا اس دفاعی ادارے کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچانے کا موجب بنے ہیں۔ کچھ آرمی چیفس نے بھی وقت نامی عدالت کو بہت سی باتوں کا جواب دینا ہے۔