منصوبہ بندی کا  فقدان اور نان ایشوزکا طوفان 

 منصوبہ بندی کا  فقدان اور نان ایشوزکا طوفان 
 منصوبہ بندی کا  فقدان اور نان ایشوزکا طوفان 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہمیں اپنے وطن کی حالت دیکھ کر رونا بھی آتا ہے. اور اپنے کرتوت دیکھ کر غصہ بھی آتا ہے.اکتوبر کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں منحوس ماہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے. یوں تو پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی عوام کو اقتدار سے دور رکھنے اور جمہوریت کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننا شروع ہو گئے تھے مگر 8اکتوبر 1958ء کو اس وقت کے فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک پر براہ  راست مارشل لاء  لگا کر عوام کے اختیارات اور حقوق غصب کر لئے اس 10 سالہ فوجی حکومت میں فاطمہ جناح سمیت سیاستدانوں کو بدنام کرنے، ان کو پابند سلاسل کرنے کا نتیجہ پاکستان کے ٹوٹنے پر منتج ہوا۔ 12 اکتوبر 1999ء میں ایک بار پھر جمہوری حکومت کو فارغ کر کے ایک فوجی جنرل ملک کا چیف ایگزیکٹو بن گیا، 8 اکتوبر 2005ء کو آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی حصے میں قیامت خیز زلزلے نے تباہی مچائی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اکتوبر کی منحوسیت اپنی جگہ لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے ذہنوں کی نحوست پر بھی غور کیا ہے؟ مارشل لاء  تو جولائی میں بھی لگ گیا تھا. اور جنرل صاحب چاہیں تو نومبر میں بھی لگ سکتا ہے. اسی طرح قدرتی آفات بھی کسی بھی مہینے یا دن کو آ سکتی ہیں۔ اصل بات تو ان مارشل لاؤں اور قدرتی آفات سے بچنے کی منصوبہ بندی کرنا ہے اگر ہم منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہے ہیں تو پھر ہمیں اپنے ذہنوں پر چھائی منحوسیت کا کوئی علاج ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حال ہی میں پاکستان کے بڑے حصے میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے وقتی طور پر قوم نے اپنے متاثرین ہم وطنوں کی مدد کی ہے اور حکمران بھی پوری دنیا سے عطیات جمع کرنے کے لیے پوری تندہی سے کام کر رہے ہیں اسی طرح زلزلہ زدگان کی بھی فوری مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ہم سب کچھ بھول گئے۔ آج بھی کئی خاندانوں کی بحالی نہیں ہو سکی لیکن سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ہم نے ان مارشل لاؤں اور قدرتی آفات سے خود کو محفوظ کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟ اس خاکسار نے  2007ء میں جب میاں نواز شریف صاحب لندن سے پاکستان رخت سفر باندھے بیٹھے تھے سوال کیا تھا کہ جناب باقی سب چھوڑیں بس اتنا بتائیں کہ یہ جو سات سال آپ خاندان سمیت خوار ہوئے ہیں تو کیا آئندہ ان حالات سے بچنے کی کوئی منصوبہ بندی کی ہے کہ دوبارہ پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت والے وزیراعظم کو نکالا نہ جا سکے؟ مگر میاں نواز شریف کے جواب میں دعا پر انحصار کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ آج  15 برس گزر جانے کے بعد بھی میرے وطن میں وہی منصوبہ بندی کا فقدان ہے بلکہ اب پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ کیونکہ موجودہ سیاسی قیادت تو ایک دوسرے سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہے. یہ منصوبہ بندی ہوتی کیا ہے؟ یوں تو کسی بھی ملک کے ہر شعبے کی باقاعدہ منصوبہ بندی ہوتی ہے ہر شعبے میں سوچ و بچار کے بعد پالیسی بنتی ہے جیسا کہ معاشی پالیسی، زرعی پالیسی، انرجی پالیسی، تعلیمی پالیسی، جمہوریت کو مضبوط کرنے کی پالیسی، وسائل کے درست استعمال اور منصفانہ تقسیم کی پالیسی اور ریاست اور فرد کے مابین تعلق(عمرانی معائدہ یا سوشل کنٹریکٹ) کی پالیسی، لیکن جب کسی ملک میں کوئی بڑا حادثہ گزر جاتا ہے تو اس ملک کے تھنک ٹینک، دانشور، میڈیا کے لوگ، سیاستدان اور ریاستی ادارے اس پر غور کرتے ہیں اور آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے خوب مکالمے کرنے کے بعد ایسے ٹھوس اقدامات کئے  جاتے ہیں کہ دوبارہ ایسے حادثات رونما نہ ہوں اور اگر ہو بھی جائیں تو نقصان کم سے کم ہو۔


کیا ہمارے ہاں پہلے مارشل لگنے سے ملک ٹوٹنے تک، اور  74ء میں آنے والے سیلاب سے 
حالیہ سیلاب کے بعد تک کبھی کوئی مکالمہ ہوا یا کسی منصوبہ بندی پر کام ہوا؟ نہیں ہوا تو کیوں نہیں ہوا؟ میرے خیال میں ہمارے ہاں بیانیے ترتیب دینے والوں نے عوام کو غلط چیزوں میں الجھا کر ہمارے ہاں ایسے رویے بنا دیئے  ہیں کہ لوگ حقیقی مسائل کی بجائے اپنی توجہ  نان ایشوز پر مرکوز رکھتے ہیں جیسا کہ آج کل زبان زد عام پر موضوع گفتگو  ہیں۔عمران خان اسلام آباد کی طرف مارچ کی تاریخ کب دے رہا ہے (بندہ پوچھے کہ اس مارچ کی ضرورت کیا ہے؟)  نواز شریف کب آ رہا ہے، نومبر میں کون سا جنرل چیف آف آرمی کے عہدے پر فائز ہو رہا ہے۔ کس کی کتنی لیکس نکل چکی ہیں اور کتنی باقی ہیں وغیرہ وغیرہ، جب ساری قوم خواب دیکھنے اور اشرافیہ اپنے اقتدار بچانے یا اقتدار حاصل کرنے کے چکر میں رہے گی تو پھر منصوبہ بندی کیسے ہو گی؟امریکہ، روس، چین، برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے طاقتور ممالک کی فوج کی کمان کس کے پاس ہے یہ عام آدمی کو پتا ہے نہ ان کی یہ ضرورت ہے۔ کس ملک کا چیف جسٹس کون ہے کسی کو علم نہیں نہ اس پر کوئی بحث ہوتی ہے. ہمارے ہاں ٹرکوں کے پیچھے بھی فوجی سربراہوں کی تصاویر لگائی گئی ہوتی ہیں اسی لیے تو آج23کروڑ کی آبادی والی ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی ہمارے پاسپورٹ کی قدر آخری چار ممالک، افغانستان، شام، عراق اور صومالیہ کے ساتھ شمار ہوتی ہے۔ یہ بات اچھی طرح سے جان لو کہ اگر ہم اپنے رویوں اور اپنی کرتوتوں میں تبدیلی نہ لائے تو نہ صرف ملک معاشی طور پر دیوالیہ کروا لیں گے بلکہ ملک کی وحدت کو قائم رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

مزید :

رائے -کالم -