سیلاب آنے کے بعد

   سیلاب آنے کے بعد
   سیلاب آنے کے بعد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حالیہ سیلاب کے بعد سر دست صورتحال یہ ہے کہ سیلابی علاقوں میں پل ٹوٹ گئے ہیں،سڑکیں بہہ گئی ہیں،مواصلات کا نظام درہم برہم اور رابطے منقطع  ہوچکے ہیں۔کھیت کھلیان اور باغات مکمل طور پر اجڑ چکے ہیں،قیمتی املاک پانی کی نذر ہو گئی ہیں،طلاطم خیز موجیں مستقبل کے خوابوں کو بہا کر ساتھ لے گئی ہیں۔ سیلابی ریلوں کی وجہ سے ہزاروں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور پندرہ سوسے زائد ا فراد جان کی بازی ہار گئے۔ بے رحم لہریں دریائی علاقوں میں بسنے والوں کی کل متاع مال مویشی چھین کر لے گئیں۔کاروباری مراکز کے نام و نشان تک نہ رہے اورہر طرف تباہی و بربادی کی داستانیں رقم ہوتی نظر آئیں۔ابتدائی تخمینہ کے مطابق امسال سیلاب سے 10ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جبکہ تین کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔وطن عزیز کے صوبوں  خیبر پختونخواہ،بلوچستان،سندھ اور جنوبی پنجاب میں جس طرح سیلاب نے تباہی مچائی ہے  خدا کی پناہ۔ ماہرین نے موجودہ سیلاب کی شدت کو 2010ء میں آنے والے سیلاب سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔قارئین سیلاب آچکا ہے اور بربادیوں کی داستان رقم کر گیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا ہو گا؟۔اس سلسلہ میں سب سے پہلا کام تو متاثرین کی بھر پور مدد و معاونت اور بحالی ہے۔اس وقت گھر بار دریا برد ہونے کے بعد کھلے آسمان کے نیچے شب و روز بسر کرنے والے متاثرین کو ہماری اشد ضرورت ہے۔

اس ضمن میں خیمے،خوراک،دوائیاں،پانی  اور کپڑے وغیرہ پہنچانا ہم سب کی بنیادی ذمہ داری ہے اس حوالے سے ہم میں سے ہر ایک کو یہ سوچنا ہو گا کہ اس مشکل وقت میں ہمارا کنٹریبیوشن کتنا ہے؟ہنستے مسکراتے گھر جب اجڑ جائیں اور پر آسائش مکانوں کے مکینوں کو کھلے آسمان کے نیچے شب وروز بسر کرنا پڑیں تو لمحہ بھر کے لیئے ضرور سوچئیے گا کہ کتنی تکلیف اٹھانا پڑے گی اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب دینے والے ہاتھوں کو لینا پڑ جائے تو اس کرب اور اندوہ کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا،آئیے اس طرح کے سفید پوش لوگوں کو باور کروائیں کہ مصیبت کے لمحوں میں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور اتنے پروقار طریقے سے ضروریات زندگی کی چیزیں ان افراد تک پہنچائیں کہ انہیں عزت نفس پر کوئی آنچ محسوس نہ ہو،یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اس وقت  ایسی سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں  جن میں فلاحی ا ور  رفاہی ادارے،سماجی تنظیمیں اور انفرادی و اجتماعی طور پر لوگ متاثرین کی مدد کے جذبے سے سر شار دکھائی دے رہے ہیں۔ اپنے طور پر لوگ راشن کی گاڑیاں لے کر جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک متاثرین گھروں کو واپس نہ لوٹ جائیں۔ بہرحال اس وقت پاک فوج کے جوان سیلاب زدگان کو ہر طرح کی مدد اور سہولت فراہم کرنے کے لیئے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور حکومتی ادارے بھی متاثرین کی مشکلات کم کرنے کے لیئے پوری طرح مصروف عمل ہیں۔اب جہاں تک متاثرین کی بحالی کا کام ہے تو اس کے لیئے اچھا خاصا وقت درکار ہو گا کیونکہ دس سے بیس لاکھ گھروں کی تعمیر اور بڑے پیمانے پر تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو  دوبارہ اصلی حالت میں لانا ایک مشکل ٹاسک ہے۔

صرف ہمارے ہاں ہی نہیں پوری دنیا میں ایسے مشکل وقت میں عوام حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔اس سلسلہ میں پاکستانی عوام کا جذبہ لائق تحسین ہے جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ایک قوم بن کر دکھایا۔امید واثق ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کی مشکلات کرنے کے لئے وطن عزیز کے تمام لوگ ہر فورم پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔آئیے عہد کریں کہ سیلاب متاثرین کی بحالی تک ہم سب چین سے نہیں بیٹھیں گے۔بہرکیف یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے سیلابوں اور قدرتی آفات  سے نمٹنے کے لیئے ہم نے کیالائحہ عمل احتیار کرنا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرتی آفات سے مقابلہ انسان کے بس میں نہیں لیکن مناسب حکمت عملی اختیار کر کے نقصان کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ دنیا بھر کے کئی ممالک سارا سال قدرتی آفات کی زد میں رہتے ہیں طاقتور سونامی ہوں یا زلزلے آخر وہاں نقصان کی شرح کم کیوں ہے؟اب جہاں تک ہمارا معاملہ ہے تو ہمارا واسطہ سیلابوں سے پڑتا ہے لیکن ہم نے کیا اقدامات کئے ہیں؟اس سلسلہ میں سب سے اہم کام ڈیموں کی تعمیر ہے۔ماضی میں ہم نے جو غلطیاں کیں اب انہیں دہرانے کا وقت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں ترجیحی بنیادوں پر ڈیموں کی تعمیر پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی تا کہ آئندہ کے سالوں میں اس طرح کے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔موسمیاتی تغیرات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں جن کی وجہ سے ایک طرف  ہمارے ہاں امسال مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی میں اضافہ ہوا  تو دوسری طرف آنے والے چند برسوں میں خشک سالی کا بھی خطرہ موجود ہے اس طرح کی دونوں صورتوں میں ڈیموں کا ہونا نہائیت ضروری ہے۔پانی زیادہ آنے کی صورت میں ہم محفوظ رہ سکتے ہیں اور اگر خدانخواستہ بارشیں نہ ہوں تو ڈیموں کے پانی سے خشک سالی کی کیفیت سے بچا جا سکتا ہے۔اس سیلاب کے آنے بعد ہمیں اپنے مستقبل کے حالات کے بارے میں سوچنا ہو گا کہ آنے والی ایک،دو دہائیوں میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -