سیاست اور میراثی کی چادر

  سیاست اور میراثی کی چادر
  سیاست اور میراثی کی چادر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 

یہ ملک، یہ میرا وطن عزیز، یہ پیارا پاکستان بنا ہی غالباً ہلچل کے لئے ہے میری ہوش کی زندگی چھ دہائیوں سے زائد ہے اور اس عرصے میں مجال ہے کوئی ایک دور بھی ایسا دیکھا ہو جب ملک میں سیاسی بے چینی اور بے یقینی موجود نہ ہو، جب 1973ء کا آئین متفقہ طور پر منظور ہوا تھا تو اس زمانے میں سب نے سکھ کا سانس لیا تھا، ایک متفقہ آئین کی موجوگی میں بہت سے مسائل خودبخود حل ہو جاتے ہیں مگر آج کل جو ہو رہا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے یہ متفقہ آئین ان گنت خرابیوں کا منبع ہے پہلے ہی بہت زیادہ ترامیم ہو چکی ہیں اور یوں لگتا ہے جسے کوئی چیز پسند نہیں آتی وہ آئین میں ترمیم کے ذریعے نکالنے کی راہ پر چل پڑتا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں جو ترامیم عجلت میں کی گئیں وہ آج مسائل کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ اٹھارویں ترمیم نے ہی ملک میں فیڈریشن کے تضادات کو نمایاں کر رکھا ہے، اسی ترمیم کی وجہ سے صوبے بعض اوقات مرکز کو ایسے آنکھیں دکھاتے ہیں، جیسے وہ ان کے معاملات میں مداخلت بے جا کر رہا ہو، یہ بات کسی کو یاد نہیں رہتی کہ جس دور میں آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوتا ہے، وہ تو جیسے تیسے گزر جاتا ہے، لیکن بعد میں آنے والے ماہ و سال ایک مستقبل عذاب کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ صدر ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے جو آمرانہ حکومتیں کیں ان کے لئے آئین میں جو گنجائشیں پیدا کی گئیں ان کی وجہ سے بھی آئین کا توازن بگڑا اب جنگ اداروں کے درمیان چل رہی ہے اور حلیہ آئین کا بگاڑا جا رہا ہے، پھر ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے، ذوالفقار علی بھٹو چاہتے تو متفقہ کی بجائے اکثریتی حمایت سے آئین بنا سکتے تھے مگر انہوں نے یہ راہ اختیار نہیں کی کیسی کیسی نابغہئ روز گار شخصیات اس وقت آئین ساز اسمبلی میں موجود تھیں، ہر ایک اپنی جگہ بھاری تھی، انہیں قائل کیا گیا اور ایسا کسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں نہیں بلکہ دلیل اور مشاورت سے ہوا، یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی یہ رسک نہیں لے سکتا کہ 1973ء کے آئین کو منسوخ کر کے کوئی نیا آئین بنا لیا جائے، ایسا خواب تو شرمندہئ تعبیر بھی ہونے کے قابل نہیں۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے بھی آئین کو منسوخ نہیں کیا بلکہ چند شقیں معطل کر کے اپنے اقتدار کو دوام دیا۔ بدقسمتی سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اپنے مقاصد اور اقتدار کے لئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے، یہ ایک بڑی مایوس کن بات ہے۔ اس سے آئین کی حرمت پر حرف تو آئے گا۔ ایک زمانے میں آئین کو سپریم مانتے ہوئے اس میں ترمیم کے لئے کئی کئی ہفتے بحث ہوتی تھی، اب ارکان کو معلوم ہی نہیں ہوتا، مسودہ کیا ہے اور ان سے مینڈیٹ لے لیا جاتا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے آج ہماری سیاست میں مولانا مودودی، مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، نواب زادہ نصراللہ خاں، ولی خان، اکبر بگٹی، شیر باز خان مزاری اور غوث بخش بزنجو جیسے سیاستدانوں کی شدید کمی ہے، کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو بغل میں آئین کا مسودہ دبائے اس کی حرمت و حفاظت کے لئے کمر بستہ ہو۔ عجیب و غریب ہڑبونگ اور سطحی سیاست کا دور ہے جس میں صبر و تحمل کے ساتھ بات کرنے کا رواج ہی نہیں یہ رواج بھی نہیں کہ دوسرے کو دلیل کی طاقت سے قائل کیا جائے، یہ عجیب دور ہے کہ ارکان اسمبلی کو رات کے اندھیرے میں اٹھا لیا جاتا ہے حالانکہ ماضی بعید میں ایسے مواقع پر زیادہ سے زیادہ ارکان اسمبلی میں لانے کی کوشش کی جاتی تھی تاکہ جو ترمیم بھی ہو اس میں سب کی رائے شامل ہو۔ میں سوچ رہا ہوں یہ تکنیک ذوالفقار علی بھٹو بھی استعمال کر سکتے تھے، اپنی پسند کا آئین منظور کرانے کے لئے وہ ایسے تمام ارکان کو اٹھوا کر غائب کرا دیتے جو ان کے مخالف تھے مگر وہ خود اور ان کے ساتھی اس طرح کے کوتاہ نظر نہیں تھے، جتنے آج کے لوگ نظر آتے ہیں یہ ان کا احسان ہے کہ انہوں نے اس قسم کی سوچ اپنانے کی بجائے یہ فیصلہ کیا کہ آئین کو ہر قیمت پر متفقہ بنانا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج اس آئین کو پچاس سال سے زیادہ ہو چکے ہیں مارشل لاؤں کے تھپیڑے کھانے کے باوجود یہ اپنی جگہ پر کھڑا ہے۔ میرا آج بھی پختہ خیال یہی ہے کہ 1973ء میں آئین کے معماروں نے  اس کے اندر عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کا جو توازن رکھا تھا وہ اب بھی مؤثر ہے مسئلہ وہاں آتا ہے جب طاقت کے زور پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ الزام دیا جاتا ہے کہ فلاں ادارہ حدود سے تجاوز کر رہا ہے اور فلاں نے آئین کو اپنے فیصلوں سے کمزور کرنے کا رویہ اپنایا ہوا ہے، وسیع تر مشاورت اور اتفاق رائے کے بغیر جو بھی کام کیا جائے وہ ایک نئے انتشار، نئے بحران کو جنم دیتا ہے۔ میں وکلاء رہنماؤں کی ایک پریس ٹاک دیکھ رہا تھا، جس میں انہوں نے 19 ستمبر کے عدلیہ بچاؤ تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ادھر تحریک انصاف بھی وارننگ دے چکی ہے کہ عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تو سڑکوں پر آئیں گے اور بڑی تحریک چلائیں گے۔ ٹھہراؤ لانے کی بجائے نئے محاذ کھولنا ملک و قوم کے مفاد میں ہرگز نہیں، اس وقت یوں لگ رہا ہے کہ مفاہمت کی کھڑکی ہمیشہ کے لئے بند کر کے یہ فیصلہ کیا گیا ہے معاملات کو یکطرفہ چلانا ہے اور مزاحمت کو طاقت کے ذریعے روکنا ہے۔

یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے کسی گاؤں کا چودھری اپنے بیٹے کو بیاہنے دوسرے گاؤں بارات لے کر گیا، اس گاؤں میں پہنچ کر چودھری کو یاد آیا وہ رسم کے مطابق کندھے پر رکھنے کے لئے چادر تو بھول آیا ہے، اس کی نظر اپنے ساتھ آنے والے میراثی پر پڑی جس نے چادر پہن رکھی تھی، اس نے سوچا کسی کو کیا پتہ چلنا ہے، میراثی کی چادر سے کام چلاتے ہیں۔ وہ میراثی کی چادر کندھے پر اوڑھ کر بارات کے ساتھ جا رہا تھا تو راستے میں کسی نے میراثی سے پوچھا بارات کس کی ہے، اس نے کہا بارات تو نمبردار کے بیٹے کی ہے البتہ چادر میری ہے ہم نے سیاست کو بھی میراثی کی چادر بنا رکھا ہے۔ جب چاہا کسی کے کاندھوں پر ڈال دی، اس سے آمروں نے بھی اپنے اقتدار کو دوام دیا اور جمہوریت کے نام پر حکمرانی کرنے والے بھی مختلف چادریں بدل کر حکمرانی کا شوق پورا کرتے رہے۔ گاؤں کے چودھری نے تو میراثی کی چادر مانگی تھی ہمارے سیاستدان ظاہری و خفیہ طاقتوں سے آشیر باد مانگتے ہیں آئین بنانے اور آئین بگاڑنے میں بہت فرق ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے ہوتے ہیں آئین میں تبدیلیاں نہیں ہوتیں ملک پہلے ہی انتشار کی زد میں ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے حالات تشویشناک ہیں راستہ وہی ہے جس کا کئی بار ذکر کیا جا چکا ہے۔ مفاہمت اور سیاسی ہم آہنگی کا راستہ اس راستے کو چھوڑ کر جو بھی کیا جائے گا وہ میراثی کی چادر ثابت ہوگا جو وقتی طور پر کام آتی ہے مگر ہمیشہ کے لئے داغ چھوڑ جاتی ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مزید :

رائے -کالم -