معروف سیاسی و سماجی شخصیت الحاج طارق وحید بٹ
طارق وحید بٹ 8 فروری 1951ءکو وزیر آباد میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباﺅ اجداد مقبوضہ کشمیر کے شہر سرینگر سے ہجرت کرکے پاکستان آئے ۔ آپ کا خاندان کشمیر میں آباد راجپوتوں کے قبیلہ بھٹ ،جنہیں پاکستان میں کشمیری بٹ کہا جاتا ہے، سے تعلق رکھتا تھا۔ طارق وحید بٹ بیک وقت ایک نظریاتی سیاسی کارکن، خدمت خلق سے سرشار سماجی شخصیت، ہردلعزیز عوامی راہنما کامیاب صنعت کار اور بہترین کالم نگار تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتے تھے۔ بڑی ہی مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک اور ان کی ذات بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کی مالک تھی ۔
طارق وحید بٹ کے والد محترم عبدالوحید بٹ ایک انتہائی تعلیم یافتہ، محب وطن اور ملنسار انسان تھے اور آڈیٹر جنرل پنجاب آفس لاہور میں ڈپٹی آدیٹر جنرل کے عہدے پر فائزتھے۔ آپ کی والدہ محترمہ کا تعلق فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں آباد معروف سیاسی خاندان ڈار فیملی سے ہے۔ سابق ایم پی اے اظہر حسن ڈار اور محمود الحسن ڈار آپ کے ماموں ہیں۔ طارق وحید بٹ ابھی کمسن تھے، جب آپ کا خاندان سیالکوٹ چھوڑ کر لاہور آگیا اور آپ مصری شاہ لاہور میں آباد ہوگئے ۔ کرم پارک بٹ روڈ مصری شاہ میں آپ کا آبائی گھر ہے ۔ آپ نے لڑکپن سے جوانی اور پھر تمام عمر اسی علاقے میں گزاری ۔ مصری شاہ اور لاہور سے آپ کو خاص عقیدت اور محبت تھی اور کسی قیمت پر مصری شاہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ لاہور میں حاصل کی ، بعد ازاں آپ کا خاندان کچھ عرصے کے لئے کراچی شفٹ ہوگیا۔ کراچی کے ایک سکول میں آپ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ اس مدرسے میں ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین سمیت ایسی معروف شخصیات آپ کے ساتھ زیر تعلیم رہیں، جنہوں نے بعد ازاں سندھ اور پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔
لاہور واپس آکر طارق وحید بٹ گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے اور یہاں سے گریجویشن کی ۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم ۔ اے اسلامیات اور ایم اے سیاسیات کی ڈگریاں حاصل کیں۔ آپ نے 2000ءمیں ایل ایل بی میں داخلہ لیا تاکہ قانون کی ڈگری حاصل کر سکیں۔ طارق وحید بٹ نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھر پور حصہ لیا آپ 1968ءمیں مسٹر لاہور اور پھر مسٹر پنجاب کے طور پر باڈی بلڈنگ کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتے رہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے آڈیٹر جنرل آف پنجاب آفس میں ملازمت اختیار کی، مگر اپنی آزادانہ طبیعت کے باعث جلد ہی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔ سیاست اور بزنس کے ساتھ ساتھ انہیں صحافت اور کھیلوں میں بھی دلچسپی تھی اور باقاعدگی سے قومی اخبارات میں کالم لکھتے تھے، جبکہ دو کتابوں کے مصنف بھی تھے، جن میں ایک ان کی سوانح عمری ، میری آواز اور دوسری نیوورلڈ آرڈر اسلام اور پاکستان کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اسی دوران انہیں فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے کا موقعہ ملا اور بہت سی فلموں میں بطور اداکار اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ اس دوران خود کئی فلمیں بنائیں، جن میں کالا پانی، گورے لوگ اور کھوٹہ پیسہ وغیرہ شامل ہیں۔
1970ءمیں جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا اور پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو نظریاتی اور انقلابی سوچ کے حامل طارق وحید بٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو جب ملک گیر دورے پر نکلے تو لاہور ریلوے اسٹیشن پر ان کا تاریخی استقبال کیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی عقابی نگاہوں نے اس نوجوان کاجوش اور صلاحیتیں پہچان کر اسے پیپلز گارڈ پنجاب کا سالار نامزد کردیا۔ طارق وحید بٹ نے بھٹو شہید کے عظیم ساتھی اور سپاہی کی حیثیت سے پیپلز پارٹی میں بھر پور طریقے سے کام کیا اور بڑے بڑے جلسوںاور جلوسوں کو منظم کرکے ایوبی آمریت کے خلاف آواز بلند کی۔
اسی دوران طارق وحید بٹ کی گجرات کی معروف سیاسی فیملی میں شادی ہوگئی ۔ آپ کے سسر محمد اشرف پگانوالے گجرات کے معروف ٹرانسپورٹرز اور انتہائی نیک سیرت اورشریف النفس انسان تھے۔ ان کی پڑھی لکھی اور باوقار بیٹی مصباح کو طارق وحید بٹ کی شریک حیات بننے کا شرف ملا جو انہوں نے تمام زندگی ایک وفادار خاتون کی حیثیت سے ہرمرحلے پر طارق وحید بٹ کے ساتھ گزارا۔ طارق وحید بٹ لاہور کے ایک سرگرم سیاسی رکن بن کر ابھرے اور پیپلز پارٹی کے منشور کو گھر گھر پہنچانے کے لئے انتہائی محنت، لگن اور جرا¿ت مندی سے کام لیا۔ طارق وحید بٹ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی سحر انگیز شخصیت سے بہت متاثر تھے، وہ انہیں پاکستان کے استحصال کے شکار محکوم طبقات غریبوں ، مزدوروں، کسانوں اور ہاریوں کا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو سے بے پناہ محبت، بلکہ عشق تھا اور وہ بھٹو شہید کو اپنا سیاسی گرو قرار دیتے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی طارق وحید بٹ کو اپنے بیٹوں کی طرح پیار کرتے تھے۔ انہوں نے بھٹو خاندان سے وفاداری کا یہ رشتہ آخری دم تک قائم رکھا اور ان کے ڈرائنگ روم اور ذاتی دفتر میں آج بھی ذوالفقار علی بھٹو ، بیگم نصرت بھٹو ، شہید محترم بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بیٹوں میر مرتضیٰ بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو کی تصاویر آویزاں ہیں۔ بھٹو شہید کو جتنی محبت کرنے والے کارکن ملے، شاید ہی کسی اور لیڈر کو نصیب ہوئے ہوں۔ طارق وحید بٹ ایک سیاسی کارکن ہی نہیں، بلکہ بے شمار خوبیوں کے حامل ایسے نوجوان تھے، جنہیں خداوند کریم نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ ایک بہترین نظریاتی سیاسی کارکن بھی تھے اور درددل رکھنے والے سماجی کارکن بھی ۔ وہ دوستوں کے بہترین دوست بھی تھے اور مخالفین کے سامنے اصولوں پر ڈٹ جانے والے بہادر انسان بھی ۔ بڑے بڑے جغادریوں کا پتہ پانی کردینے والا یہ نوجوان علامہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر تھا کہ :
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
جنرل یحییٰ خاں کی جابرانہ پالیسیوں کے نتیجے میں جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تو پورے ملک میںآمریت کے خلاف عوامی غم و غصے کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ مجبوراً یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو نیو یارک سے بلا کر اقتدار پیپلز پارٹی کے حوالے کردیا۔ پنجاب میں غلام مصطفی کھر کو گورنر نامزد کیا گیا ،مگر کچھ عرصے کے بعد ملک غلام مصطفی کھر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے کے دو گروپوں میں سیاسی چپقلش شروع ہوگئی اور کارکن دو گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔
1977ءکے عام انتخابات میں وہ لاہور سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، اس وقت کے سب سے کم عمر ایم پی اے تھے۔ 1977ءکے مارشل لاءمیں ان پر بے شمار مقدمات بنائے گئے اور وہ جلا وطنی پر مجبور ہوگئے۔ طارق وحید بٹ ایک انتہائی بہادر، مخلص اور نظریاتی سیاسی کارکن تھے، جبکہ سیاست کے ساتھ صحافت ، ادب، مذہب اور ثقافت سے بھی گہرا لگاﺅ رکھتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف سیاست میں نام کمایا ،بلکہ وہ ایک کامیاب بزنس مین اور صنعت کار بن کر ابھرے۔
طارق وحید بٹ کو حضور سید عالم کی ذات اقدس مبارکہ سے والہانہ عشق تھا اور اہل بیتؓ کے زبردست عقیدت مند تھے۔ آپ نے اپنے تمام بچوں کے نام اہل بیتؓ کی نسبت سے رکھے۔ آپ کے بیٹے حسن طارق بٹ، حسین طارق بٹ اور بیٹیاں فاطمہ، مریم اور سعدیہ آپ کی تربیت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مذہبی سوچ کے حامل ہیں اور امریکہ ، کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔
لاہور شہر کی تقریبات ان کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھیں۔ وہ اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے اور اکثر کہتے تھے کہ مسلمانوں کی بقا اتحاد امت سے وابستہ ہے۔ وہ عالم اسلام کے 58ممالک کو متحد دیکھنا چاہتے تھے اور ایک بین الاقوامی اسلامی بلاک بنانے کے حامی تھے، جس کی اپنی اسلامی اقوام متحدہ ، اسلامک آرمی ، اسلامک بینک اور اسلام ٹریڈ فورم ہو، اس مقصد کے لئے وہ بذریعہ اخبارات کالم لکھتے اور نیو ورلڈ آرڈر اسلام اور پاکستان کتاب بھی لکھی۔
خداوند کریم طارق وحید بٹ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے! (آمین)
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا